مزاحمت اور مفاہمت کی سیاست

سلمان عابد  اتوار 25 ستمبر 2022
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

عمومی طور پر مزاحمت کی سیاست کو انتشار ، ٹکراو اور محاذ آرائی کی سیاست کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں مزاحمتی سیاست کو منفی سیاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ جب کہ مزاحمت سے مراد یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنے بڑ ے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جہاں ایک بڑی مضبوط بنیادوں پر سیاسی جدوجہد کرتے ہیں وہیں مزاحمت کو بنیاد بنا کر ریاست، حکومت اور معاشرے کے طاقتور طبقات پر ایک بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کرتے ہیں کیونکہ سیاسی جدوجہد کے بغیر بڑے مقاصد کا حصول بھی ممکن نہیں ہوتا۔

البتہ مزاحمتی سیاست کو ایک آئینی ، سیاسی دائرہ کار میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ اسے پرامن بنانا او ربغیر کسی تشدد کا راستہ اختیار کیے بغیر آگے بڑھنا ہوتا ہے ۔پاکستان جو عملا کئی طرح کے سیاسی ، معاشی او رادار ہ جاتی بحران میں ہی نہیں بلکہ ایک بڑے ریاستی بحران کا بھی شکار ہے ۔ اس بحران سے نمٹنے کا راستہ جہاں مفاہمت کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوتی ہے وہیں مزاحمت کو بھی ایک بڑی سیاسی حکمت عملی کے طور پر دیکھاجاتا ہے ۔

مزاحمتی سیاست کو بنیادی طور پر سیاسی جماعتیں او ران کی قیادت سمیت معاشرے کے دیگر طبقات کی بنیاد پر آگے بڑھایا جاتا ہے ۔ اس کی بڑی کمانڈ سیاسی جماعتوں کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے ۔سیاسی جماعتیں نظام کی تبدیلی ، اصلاحات اور معاشرے کی بہتری کو بنیاد بنا کر ہی اپنی سیاسی جدوجہد اقتدار یا حزب اختلاف کی سیاست میں کرتی ہیں۔

اگر سیاسی جماعتیں کسی بڑی مزاحمت کے لیے تیار ہوتی ہیں یا عملاً سیاسی میدان میں اترتی ہیں تو اس کی اہم کنجی سیاسی جماعتوں کا اپنا سیاسی داخلی نظام ہوتا ہے ۔کیونکہ سیاسی جماعتوں کو کمزور کرکے یا ان کو عوام سے لاتعلق کرکے بڑی مزاحمت کا تصور ممکن نہیں ہوتا ۔محض سیاسی نعروں ، جذباتی باتوں یا تقریروں ، خوشنما نعروں ، لوگوں کے جذبات کو بڑکھا کر ان میں اشتعال پیدا کرنا یا مزاحمت کے عمل کو ایک بڑے مقصد سے جوڑنے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات تک محدود کرنے سے اول تو ملک میں مزاحمتی سیاست شروع ہی نہیں ہوسکتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو اس کے سیاسی نتائج سیاسی حق میں کم ہوتے ہیں۔

لوگوں کو بہت جلد اندازہ ہو جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں یا قیادت کی جانب سے مزاحمت کے نام پرہمارا استحصال کیا جارہا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ ابتدا میں مزاحمتی سیاست کا حصہ بنتے ہیں لیکن جلد ہی اس سے خود علیحدہ بھی کرلیتے ہیں ۔

پاکستان میں جو مزاحمت او رمفاہمت کا عمل ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے اس میں بھی کافی حد تک تضادات کی سیاست کا غلبہ نظر آتا ہے ۔اگرچہ مزاحمت میں جمہوریت ، قانون کی بالادستی ، سیاسی نظام کو تقویت دینا ، قانون کی حکمرانی ، آئین کا تحفظ ، عوامی مفادات یا قومی سطح کے مفادات کو بنیاد بنا کر مزاحمت کا عمل پیش کیا جاتا ہے ۔لیکن عملی طور پر سیاسی قیادتوں کی مزاحمت ان خوبصورت نعروں ، سوچ ،فکر یا فلسفہ کے بجائے ذاتی اقتدار کے حصول میں ہوتی ہے۔

یہ اقتدار ان کو جائز طور پر ملے یا ناجائز طور پر وہ قبول ہوتا ہے ۔کیونکہ اقتدار کا حصول ہی بنیادی ترجیح ہے اور یہ کس قیمت پر مل رہا ہے، اس سے کوئی غرض نہیں یا اس میں سمجھوتوں کی سیاست کے نمایاں پہلو ہوتے ہیں ۔سیاسی سطح پر سیاسی جماعتیں یا ان کی قیادتیں گلہ کرتی ہیں کہ عوام مزاحمت کے تیار نہیں او رجب بھی مزاحمت کی سیاست کو ئی کرتا ہے تو اس کی پزیرائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

مسئلہ لوگوں کا نہیں لوگ تو واقعی نظام سے نالاں ہیں اور اس نظام میں ایک بڑی تبدیلی یا سیاسی سرجری چاہتے ہیں ۔ لیکن یہ سوال خود سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت سمیت کارکنوں کو بھی کرنا چاہیے کہ ان کی مزاحمت کے پیچھے اصل طاقت عوا م ہوتے ہیں یا طاقت ور طبقہ ۔

جمہوری نظام بنیادی طور پر اصلاحات کے ساتھ ہی چلتا ہے اوراس میں کوئی بڑے انقلاب کی گنجائش کم ہوتی ہے ۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جمہوری نظام میں جاری سیاست میں مفاہمت او رمزاحمت دونوں پہلووں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ ایک طرف مفاہمت کا عندیہ دوسری طرف مزاحمت کے کارڈ میں توازن بھی پیدا کیا جاتا ہے ۔اس تاثر کی نفی کی جاتی ہے کہ ہم مفاہمت کی سیاست کے قائل نہیں بلکہ سب کچھ ہی الٹنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے مزاحمت کی سیاست میں ہمیں پس پردہ مفاہمت کا عمل بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

مفاہمت بھی اسی صورت میں ہی آپ کے مفادات کے ساتھ ممکن ہوتی ہے جب آپ اپنی مزاحمت سے ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو قائم کرتے ہیں ۔ جو لوگ یہ منطق پیش کررہے ہیں کہ حال ہی میں عمران خان اوراسٹیبلیشمنٹ کے درمیان پس پردہ کچھ نہ کچھ مفاہمت کا کارڈ کھیلا جارہا ہے تو اس مفاہمتی کارڈ کو عمران خان کی سخت مزاحمت کو ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرنے سے بھی ہے ۔

مزاحمت کی سیاست میں سب سے اہم کارڈ خود کو پرامن سیاسی جدوجہد اور تشدد سے پاک کرنے سے جڑا ہوتا ہے ۔ مزاحمتی سیاست میں یہ ہی ایک ایسا کارڈ ہوتا ہے جو آپ کو یا تو جمہوری سیاست کے طور پر پیش کرتا ہے یا آپ کو پر تشدد سیاست کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ اس لیے مزاحمتی سیاست میں نہ صرف سیاسی جماعت، قیادت کو بلکہ اس کا کو اپنے حمایت یافتہ ووٹرز یا سیاسی کارکنوں کو بھی اس بیانیہ کے ساتھ جوڑنا ہوگا کہ ہماری سیاست میں مزاحمت کا پہلو ایک پرامن سیاسی جدوجہد سے ہی جڑا ہوا۔

اصل میں تو مزاحمت کا پہلو جہاں ایک طرف سیاسی جماعتیں لیڈ کرتی ہیں وہیں عوام میں موجود ان کا سیاسی شعور بھی ان کو متحرک کرتا ہے کہ وہ بھی ریاستی و حکومتی نظام پر اپنا سیاسی دباو یعنی آواز اٹھا کر اپنی بات یا اپنے حق کو طاقت دینے کی کوشش کریں ۔یہ جو یہاں مزاحمت کے نام سیاسی جماعتوں او راداروں کے درمیان ٹکراو کی عملی سیاست غالب نظر آتی ہے ۔ اداروں پر بھی دباو کی سیاست ہونی چاہیے لیکن اداروں کو متنازعہ بنانا یا ان کی سیاسی تضحیک کا پہلو بھی درست حکمت عملی نہیں ۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مزاحمت یا مفاہمت میں اسٹیبلیشمنٹ کا کارڈ حمایت یا مخالفت کی صورت میں کھیلتی ہیں جو درست حکمت عملی نہیں۔

سیاسی جماعتیں مزاحمت میں پہل تو کرتی ہیں لیکن اس پہل کے ساتھ ساتھ ان کے پاس محض حکومت گرانے یا کسی کی ٹانگیں کھینچنے کے علاوہ ایک بڑا سیاسی روڈ میپ بھی ہونا چاہیے ۔ لوگوں میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ مزاحمت کے بنیادی محرکات اور مقاصد کیا ہیں اور ہم اس مزاحمت سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ بعض اوقات مزاحمت کا پہلو کامیاب بھی ہوجائے او رحکومت کا خاتمہ بھی ممکن ہوجائے لیکن اس کے بعد کیا ہونا ہے اس کا کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ مثال کے طو رپر تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد عمران خان کی حکومت کو تو گرانے میں کامیاب ہوگیا اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ حکومت گرانے میں ان کو پس پردہ قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی لیکن اپنی حکومت بنانے کے بعد جو سیاسی تنائج قوم بھگت رہی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

اسی طرح عمران خان جو اس حکومت کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں یا اسلام آباد میں ایک بڑے لانگ مارچ کا عندیہ دیا جارہا ہے اگر وہ حکومت کی تبدیلی یا فوری نئے انتخابات میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو ان کی یہ تحریک قومی سیاست میں کیا مثبت نتائج دے سکے گی ۔ اسی طرح جب ہم مزاحمت کو بنیاد بنا کر مفاہمت کا کارڈ کھیلتے ہیں تو اس میں بھی اصل نقطہ اپ کا سیاسی سمجھوتہ ہوتا ہے۔

ہمیں مفاہمت او رمزاحمت کے درمیان ایک ایسی سیاست درکار ہے جو خالصتا قومی مفادات کے دائرہ کار میں آتی ہو۔ اس کے پیچھے اصل مقصد عوام کو طاقت ور یا سیاسی او رمعاشی طور پر بااختیار کرنا ، اداروں کو مضبوط او رمربوط بنا کر حکمرانی کے نظام میں شفافیت اور عام آدمی کا سیاسی نظام میں ہونے والی فیصلہ سازی میں عمل دخل کو بڑھانا ہے۔

یہ ہی مفاہمت او رمزاحمت قومی مفادات کے گرد گھومتی ہے اس کے بغیر مزاحمت او رمفاہمت کا کارڈ محض اپنے ذاتی سیاسی مفادات کی تکمیل ہوتا ہے او راس عمل میں عوام کو سوائے ندامت یا ان کے سیاسی استحصا ل کے او رکچھ نہیں مل پاتا۔اس لیے مزاحمت پاکستان کے سیاسی ، سماجی ، قانونی او رمعاشی نظام کی اصلاح کے ضروری ہے اوراس کے بغیر ہم کسی بھی سطح پر معاشرے میں مثبت تبدیلی کا عمل کو ممکن نہیں بناسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔