تخلیق، آئیڈیالوجی اور تنقید (آخری حصہ)

عمران شاہد بھنڈر  جمعرات 20 مارچ 2014
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

سماج کی تشکیل میں افراد باہم مل کر وہ اوزار تیار کرتے ہیں کہ جس سے سماج کی تشکیل کا عمل جاری رہتا ہے۔ شعروادب بھی سماجی پیداوارکے مماثل ہے، ان کی پیداوار میں استعال ہونیوالے اوزار بھی پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ ناقد کا کام کسی بھی فن پارے کے اعلیٰ یا ادنیٰ ہونے کا فتویٰ دینا نہیں ہوتا، اس کا کام فن پارے میں شاعر و ادیب کے اِس کردار کو سامنے لانے کے علاوہ اس میں معنویت اورجمالیاتی تاثیر کو سامنے رکھتے ہوئے تنقید کو تخلیقی سطح پر استوار کرنا ہوتا ہے، جو اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ فن کارکی منشا و مرضی کو دکھا کر اس کی حدود کا تعین کرے اور فن پارے کے اندر جو کچھ فن کارکی نظروں سے اوجھل رہا ہو اسے اپنی تنقید سے ’خلق‘ کرے۔ فن پارے میں موجودحقیقی تضاد، روزن اور شگاف کی سطحیں فن کارکی منشا و مرضی کا اظہار نہیں ہوتیں۔ فن پارہ تو ربط وآہنگ ، تسلسل اور وحدت کے تصور پر استوار ہوتا ہے، جب کہ تضاد اور شگاف فن کارکی آئیڈیالوجی کی حقیقت کو سامنے لاتے ہیں ، وہ فن کار کو اس سمت میں ہرگز نہیں جانے دیتا، جس سمت میں وہ جانا چاہتا ہے۔

مارکس نے اپنی کتاب ’’اٹھارویں برومیئر آف لوئی بوناپارٹ‘‘ میں لکھا تھا انسان حالات کو بدلتا تو ہے مگر ایسے نہیں کہ جیسے وہ چاہتا ہے۔ وہ ان حالات کو بدلتا ہے جو اسے تاریخی طور پر دیے گئے ہوتے ہیں۔یہی اصول نہ صرف فن کار بلکہ ناقد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ شعری و ادبی متن کے تضادات سماجی تضادات کا عکس ہوتے ہیں۔ زبان چونکہ ایک سماجی تشکیل ہے، اس لیے زبان کے اندر کے تضادات سماجی تضادات کے عکس کے طور پر ہی متشکل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی نظام جس قدر تضادات کا اظہار کرتا ہے اس کی شکست و ریخت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی فن پارے ناپختہ علم کی بنیاد پر ’خلق‘ کیا جائے، اس کے بکھرنے کی امید بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔اگر کوئی ناقد فن کار کی سطح پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور اسے آخری منزل قرار دے کر ’تقلیب‘ کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ ناقد نہیں محض ایک شارح ہے، جس کی حیثیت ہمیشہ ثانوی رہتی ہے ، اس کی جداگانہ شناخت کبھی نہیں بن پاتی ۔ ایسے ناقدین کو اردو میں موجود شرحیں پڑھنے کی بجائے ارسطو سے لے کر ژاک دریدا کے خیالات تک براہِ راست رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

تعبیر، تشریح اور تفہیم کا عمل تنقید کا آغاز ہوتا ہے، جب کہ فنی و ادبی متن سے فن کار کی منشا و مرضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سے ماورا ہوجانا تنقید کی انتہا ہوتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں تنقید کا تخلیقی کردار سامنے آتا ہے۔تنقید، شاعرانہ نہیں،منطقی ہوتی ہے، جو اپنی سرشت میں فنونِ لطیفہ کی تمام اشکال سے ’مختلف‘ ہوتی ہے۔ اس کا فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف سے ’مختلف‘ ہونا اس کے آزادانہ وجود کو ثابت کرتا ہے۔ فن پارہ اپنی تفہیم و تشریح کے لیے تنقید کا محتاج ہوتا ہے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ ایک اعلیٰ تنقیدی طریقۂ کار برس ہا برس کی محنت کا شاخسانہ ہوتا ہے اوروجود میں آنے کے بعد فن پارے سے کہیں زیادہ وسعت کا حامل ہوجاتا ہے ۔ اسے کسی ایک فن پارے تک محدود نہیں رکھا جاسکتا، بلکہ اس کے اطلاق سے نئے اور پرانے فن پاروں کی تفہیم کا کام لیا جاتا ہے۔جدلیات، لاتشکیل اور مابعد ساختیات کی دیگر اشکال ایسے ہی تنقیدی رجحانات ہیں جن کا دائرہ صرف فن و ادب تک محدود نہیں، بلکہ علم البشریات، سائنس، طبیعات، کیمیا، حیاتیات، نفسیات، تعمیرات وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔

تنقید کو فن کا تابع تصور کرنا تنقید کے علمی و منطقی کردار اور اس کی تاریخ سے نابلد ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے۔تنقید کے کردار سے نابلد اور اس کی جداگانہ حیثیت کا انکار کرنے والے لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب کوئی ناقد کسی شعر کی تنقید پیش کرتا ہے تو اس سے کہنا چاہیے کہ وہ اس سے بہتر شعر لکھ دے۔اگرچہ اس قسم کے دلائل صرف اردو میں ہی استعمال کیے جاتے ہیں، جب کہ دنیا کے دیگر ادب و فن میں ان سوالات کو بہت پہلے حل کرلیا گیا تھا۔دیکھا جائے تو یہی سوال ناقد بھی اٹھا سکتا ہے کہ تنقید شعر و ادب سے الگ ’ڈسپلن‘ ہے، شاعر یا ادیب تنقید سے پہلے تنقیدی نظریات کی تفہیم کا ثبوت فراہم کرے۔تاکہ اندازہ ہو کہ وہ تنقید کے بارے میں کیا جانتا ہے؟ تنقید کے لیے شاعر نہیں ناقد ہونا ضروری ہے۔ بیسویں صدی کی تاریخ اس خیال کی درستی کی تصدیق کرتی ہے اور اس کی حمایت میں کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ہے۔ اگر تو مارکسی تنقید کی جانب دیکھیں تو جارج لوکاش، تھیوڈور اڈورنو، ہربرٹ مارکوزے، لوسین گولڈ مان، والٹر بینجمن، پیئر ماشیرے ، باختن،فرانک لنٹریکیا، فریڈرک جیمی سن اور ٹیری ایگلٹن جیسے ناقدین میں سے کوئی بھی شاعر یا ادیب نہیں تھا، مگر اپنی تنقید کے ذریعے انھوں نے لوگوں کے زاویۂ نظر کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔

ساختیاتی اور مابعد ساختیاتی تنقید میں نارتھروپ فرائی، جوناتھن کلر، ژاک دریدا، رولاں بارتھ، پال دی مان، لیوائی سٹراس وغیرہ سمیت اور بہت سے اہم نام ہیں جو شاعر اور ادیب تونہ تھے ، تاہم شعر و ادب پر ان کے افکار کے فیصلہ کن اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہیئت پسندی سے تعلق رکھنے والے بڑے ناقدین میں رومن جیکبسن، وکٹر شلووسکی،یوری تنیانوو، بورس ایچنبام کا تعلق بھی خالص تنقید کے مکتبۂ فکر سے تھا۔   ناقد اور ’خالق‘ کے وجود میں اس طرح کی ہم آہنگی کہ جس سے ناقد اپنے وجود کو ’خالق‘ کے تصور میں گُم کردے، یہ بعض ماورائیت پسندوں کی آئیڈیالوجی کے اہم اجزا تو ہوسکتے ہیں، تاہم فلسفیانہ سطح پر آئیڈیالوجی کا یہ تصور قابل مدافعت نہیں ہے۔اس قسم کی آئیڈیالوجی کے حصار میں مقید اذہان کسی بھی صورت میں ’خالق‘ کے تصور سے نجات حاصل نہیں کر پاتے ۔ اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی دلیل ہوتی ہے کہ جس سے وہ اپنے اس مؤقف کو تقویت دے سکیں۔ تنقید ایک ایسا مضبوط مکتبۂ فکر بن چکا ہے کہ جسے مغربی جامعات میں بہت تکریم سے دیکھا جاتا ہے۔ناقدین کے خیالات انتہائی خطرناک ثابت ہوتے رہے ہیں۔ایسے خیالات کی ترویج سے خوف کی فضا بھی جنم لے سکتی ہے۔

فلسفیوں اور ناقدوں کے اذہان میں جنم لینے  والے خیالات بعد ازاں عوامی شعور میں سرایت کرکے انقلابات کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ مغربی معاشروں سے ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں دریدا کو مسیحی پادریوں نے’ جہنمی‘ قرار دے دیا تھا، کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ جو کچھ ان کے پاس بچ گیا ہے، ڈی کنسٹرکشن کے بعد اس جانب تشکیک کے رجحان میں شدت آئے گی۔ تنقید اور ’تخلیق‘ ایک دوسرے سے اس طرح الگ نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کے اثرات سے متاثر نہ ہوسکیں۔جہاں ’تخلیق‘ تنقید سے اثرات قبول کرکے توسیع پذیر رہتی ہے تو وہاں تنقید بھی ’تخلیق‘ پیرائیوں سے ہمکنار ہوکر خود کو وسعت دیتی رہتی ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہے کہ جس میں نہ کوئی ’پہلا‘ ہے اور نہ ’دوسرا‘ ہے۔ مغرب میں مابعد جدید شاعری ’التوا‘ کے اس تصور پر استوار ہے کہ جسے ڈی کنسٹرکشن نے ’متعین‘ کیا ہے۔ ہر قسم کے اصول و قواعد سے انحراف کو ’تخلیق‘ کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ ’تخلیق‘ اور تنقید کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر ہی شعور و آگہی کے عمل کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔