بغداد کی جدید مثال!

راؤ منظر حیات  پير 26 ستمبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

برادرم اظہار الحق نے کمال شفقت کرتے ہوئے کتاب بھجوائی ۔ نام بھی حد درجہ ’منفرد‘ ’’عاشق مست جلالی‘‘۔ پڑھ رہا ہوںاور سردھن رہا ہوں۔ آدھی کتاب تو پڑھ چکا ہوں۔ کچھ حصہ باقی ہے۔ مکمل پڑھنے کے بعد اس پر ضرور قلم اٹھاؤنگا۔ حد درجہ اعلیٰ تحریروں کا مجموعہ ۔ استدعا ہے کہ اکثریت ‘ اس کتاب کو نہیں پڑھے گی۔

اس لیے کہ اچھی کتاب سے ہمارا کیا لینا دینا۔ ہم تو پیدا ہی حد درجہ ادنیٰ سیاست پر بحث کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔ بھلا علم سے ہمارا کیا واسطہ۔ برادرم اظہار صاحب ‘ آپ اتنی اچھی باتیں کیوں لکھ رہے ہیں۔ جو دل میں اتر جاتی ہیں۔ جگر کو چیر ڈالتی ہیں۔

طاؤس و رباب اور کوچہ سیاست کی خبیث روحوں پر کیوں نہیں لکھتے۔ ہماری قوم کا سنجیدہ تحریروں سے کیا واسطہ؟مگر اظہار بھائی جیسے لوگ سونے اور چاندی میں تلنے والے افراد ہیں۔

دھن میں مست اور اپنی ڈگر پر خاموشی سے رواں دواں۔ احساس اور فکر کی شاہراہ کے مسافر۔ کاش ان کی کوئی ہاؤسنگ کالونی ہوتی تو وہ بھی قیمتی ترین گاڑیوں میں سفر کرتے‘ فارم ہاؤس میں رہتے۔ اسلام آباد میں دس بارہ کنال کے گھر میں مقیم ہوتے۔ مگر صاحبان زیست! یہ دیوانے لوگ ہی ہمارے سماج کے قیمتی ترین ذہن ہیں۔ ان کی تحریروں کے بغیر زندگی اور علم بے معنی ہے۔ خیر ’’عاشق مست جلالی‘‘ پر کالم لکھنا اب تک قرض ہے۔ جلد ہی ادا کر ڈالوں گا۔

سچ پوچھیے تو اب لکھنا بھی بے سبب سی مشق معلوم ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کہ کالم نگاروں کو یہ اندازہ کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے لکھنے سے اس غلیظ معاشرہ میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ یہاں تو دلیل پر تبدیلی کے نعرہ کو پرکھنا تک ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

قدیم یونانی درسگاہوں میں تعلیم‘ زبانی لیکچر پر مبنی ہوتی ہے۔ چند عظیم ترین فلسفی جیسے سقراط‘ افلاطون اپنے شاگردوں سے مکالمہ کرتے تھے۔ مگر ان کی محفلوں میں ایک عنصر حد درجہ مضبوط تھا۔ برداشت‘ برداشت اور صرف برداشت۔ محفل میں کوئی بھی شخص جارحانہ رویہ نہیں رکھ سکتا تھا۔

اونچی آواز میں بات کرنا ناقابل برداشت تھا۔ استاد اگر کسی طالب علم کا عدم برداشت کا رویہ دیکھتا تو اسے محفل سے اٹھا دیاجاتا تھا۔ یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ معاشرے میں صرف اور صرف تحمل‘ برداشت اور مکالمہ سے آگے بڑھاجا سکتا ہے۔

ہاں‘ اگر مکالمہ کی طاقت ‘ جاہل افراد کے ہاتھ میں ودیعت ہو جائے تو ریاست ختم ہو جاتی ہے۔ ہزاروں برس پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ آج تک یونانی فکر کی چھاپ دنیا کے ہر کونہ اور ہر علم پر موجود ہے۔ مگر جب میں اپنے ملک پر نظر دوڑاتا ہوں تو کچھ بھی سمجھ نہیں آتا۔ ہمارے معاشرے میں تحمل اور برداشت کو ریاست نے ایک پالیسی کے تحت قتل کیا ہے۔ بلکہ عرض کرونگا کہ عدم برداشت‘ شدت پسندی اور مذہبی منافرت کو حکومتی چھتر چھاؤں کے نیچے پروان چڑھایا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمارا ملک‘ اقوام عالم میں شدید تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سیاسی شناخت صرف اور صرف ایک دہشت گرد قوم کی ہے۔

ہر پاکستانی کو مغرب میں کسی نہ کسی فساد سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ یہ رجحان درست ہے یا غلط۔ اس پر اب بحث بھی ممکن نہیں ہے۔ ہاں ایک امر اور بھی مستحکم ہے۔ جو بھی عالم دین‘ مذہب کی جدید تشریح کرنے کی علمی کوشش کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ اور مسائل کو جدت سے پیش کرتا ہے۔ یا تو اسے مار دیا جاتا ہے۔ یا روزانہ قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں ۔ اور ہاں اگر خوش قسمت ہو تو جبری جلاوطنی میں چلا جاتا ہے۔

غامدی صاحب اس کی حد درجہ عمدہ مثال ہیں۔ ان کو اس درجہ تنگ کیا گیا کہ ملک سے جانے میں ہی عافیت جانی۔ دلیل اور علم کی بنیاد پر ان سے کوئی بات نہیں کرتا۔ بونے لوگ چھلانگیں مار مار کر تنقید کے نشتر ضرور لگاتے ہیں۔ جب عرض کی جائے کہ جناب غامدی صاحب کا اسلامی علم کی روشنی میں جواب عطا فرمائیں۔ تو ذاتی حملوں اور ادنیٰ باتوں کے علاوہ مونہہ سے کچھ بھی نہیں نکلتا۔ اختلاف رائے رکھنے والے کو کافر یا ملحد ضرور قرار دیا جاتا ہے۔

ویسے عجیب حقیقت ہے۔ علماء جو سادگی کا بھاشن عطا فرماتے ہیں۔ ان میں سے متعدد لوگ سیاست دانوں سے بھی زیادہ امیر ہیں۔ کراچی کے ایک مدرسہ کے مہتمم کے اثاثے ان کی اولاد نے عدالت میں پیش کیے تو عقل دنگ رہ گئی۔ اربوں روپیہ‘ حضرات اور موصوف فرماتے تھے کہ قربانی کرنے کی مالی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔

اگر گراں نہ گزرے تو عرض کرتا چلوں کہ عمومی طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ہماری ہر مشکل یہود و ہنود کی سازش ہے۔ اصل میں ہماری بربادی کی وجوہات دراصل ایک کثیر القومی گہری سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ مفروضہ دلیل کی کسی سطح پر بھی پورا نہیں اترتا۔ ایسے بتایا جاتا ہے کہ غیر مسلم ممالک کے سربراہان روز صبح اٹھتے ہیں۔ اور وڈیو کانفرنس کے ذریعے پہلا فیصلہ یہ کرتے ہیں کہ پاکستان جو کہ اسلام کا قلعہ بھی ہے۔ اس کی فصیل کو کیسے نقصان پہنچایا جائے۔

یہ نکتہ نظر حددرجہ غیر منطقی ہے۔ کوئی بندہ اندرونی کوتاہیوں ‘ کمزوریوں اور مظالم کے متعلق بات کرنے کو تیار نہیں۔ کیا ملک میں وزیراعظم سے لے کر گوالے تک کی کرپشن میں واقعی یہودی کردار شامل ہے؟ کیا ناپ تول میں بے ایمانی‘ جھوٹ‘ ریا کاری‘ منافقت ‘ ریاستی جبر‘ عدالتی بے اعتدالیاں‘ بابوؤں کی بے ایمانیاں‘ ہندو کی کاروائی ہے؟ کیا مذہب کو انتقام کا ذریعہ بنانا‘ اقلیتوں کے ساتھ غیر انصافی کا رویہ رکھنا واقعی اسرائیلی وزیراعظم کے ذریعے کیا گیا ہے؟ صاحبان! اصل بات یہ ہے کہ ذہنی پسماندگی‘ جہالت ‘ ناانصافی ‘ مذہبی شدت پسندی ہمارے نظام نے ہمیں عطا کر دی ہے۔

اگر ہماری ایک معصوم بچی کو طالبان سر میں گولی مارتے ہیں اور ’’گل مکھی‘‘ بچ جاتی ہے۔ لندن میں جدید ترین سہولیات کے بدولت آج بھی صحت مند ہے۔ کافر اقوام اسے نوبل پرائزعطا کرتی ہیں۔

تو یقین فرمائیے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت اسے بیرونی ممالک کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے ملکی سیاست میں اوپر سے لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ میرا جواب صرف یہ ہے۔ پہلے آپ اپنے سر میں گولی ماریئے۔ پھر اس سے بچیے اور پھر جواب دیجیے کہ کیا کوئی شوق سے گولی کھاتا ہے۔ ہاں‘ جنھوں نے قتل کی کوشش کی وہ ہمارے چند طبقوں کے ہیرو ہیں۔ طالبان کی بابت عرض کر رہا ہوں۔

ویسے برا نہ منائیے۔ اسلام آباد کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں قیام کے دوران طالبان کے جید رہنماؤں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اب وہ بیش قیمت ہوٹل کے کمروں میں قیام پر اصرار کرتے ہیں۔ ڈائننگ ٹیبل پر براجمان ہو کر بوفے کھانا پسندفرماتے ہیں۔ منرل واٹر بڑے شوق سے پیتے ہیں۔ یعنی آج کے طالبان کسی قسم کی سادہ زندگی گزارنے کے خواہاں نظر نہیں آتے۔بالکل یہ عرض نہیں کر رہا کہ بڑے ہوٹلوں میں قیام غیر مناسب ہے۔

استدعا صرف یہ ہے کہ اب وہ سادگی کا پرچار نہ کریں اور ان سے منسلک اہل قلم انھیں قرون اولیٰ کے مسلمان اکابرین کے مساوی نہ رکھیں ۔ باقی ہر حکومت کے اپنے اپنے فکری رجحانات ہیں۔ جنھیں برداشت کرنا چاہیے۔ مگر ہمارے ملک میں کمزور طبقوں کو دبانے کا چلن حد درجہ رواں ہے۔

خواجہ سراؤں کے متعلق ذرا سی بہتری کے بل سے کہرام مچا دیا گیا ہے۔ ٹرانس جینڈر بل کے بارے میں ایسے بتایا جا رہا ہے کہ یہ ہمارے معاشرتی ‘ فکری افکار و اساس کے خلاف ہے۔ جناب ‘ حضور‘ قبلہ طالب علم گردن زنی سے امان مانگ کر عرض کرتا ہے۔ کہ جناب ہم جنس پرستی کے معاملات تو اس ملک خدادا د کے کونے کونے میں وقوع پذیر ہیں۔ یہ تو ایک انسانی رویہ ہے۔

اسے منفی یا مثبت قرار دینے سے یہ قطعاً کم نہیں ہو گا۔ ویسے فرمائیے گا ۔ کہ ہمارے شمالی علاقوں اور افغانستان میں ’’لخت‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ ذرا یہ بھی بتا دیجیے کہ کیا ڈرائیور ہوٹلوں اور سراؤں پر جز وقتی لونڈے فراہم نہیں کیے جاتے۔ حضور‘ آپ معاشرے کو علم اور سچائی کی بنیاد پر استوار فرمائیے۔ گند ہر ملک میں ہے۔ ہمارے جیسے ملک میں قانون سازی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سماج بالکل اپنی ذاتی رفتار پر چلتا رہتا ہے۔

اس کے رجحانات پر کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ پہلے لوگوں کی مثالی تربیت فرمائیے۔ تعلیم دیجیے۔ پھر تطہیر کا تقاضا کیجیے۔ مگر نہیں صاحبان! ہم لوگ صرف اور صرف تنقید اور بلند ترین آواز سے اہل فکر کی توہین کرتے ہیں۔ ہمارے رویے ہمارے قاتل ہیں۔ زور کمزور طبقوں پر ہی نکلتا ہے۔

کیونکہ کمزور اپنے قاتل اور ظالم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ویسے یو اے ای کے نظام کے متعلق آپ کیا فرمائیں گے۔ وہ ایک اسلامی ملک ہے۔ وہاں دوسرے کی ذاتی زندگی کو برباد کرنے کی ہمت کیوں نہیںکر سکتے۔ چلیے جانے دیجیے۔ میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا۔بھائی جیسا ملک چل رہا ہے ‘ویسے ہی چلتا رہے گا۔ جناب ہمارا ملک بغداد کی جدید مثال ہے۔ یقین نہیں آتا تو بغداد کے مفتوح ہونے سے پہلے کے حالات پڑھ لیجیے۔ انشاء اللہ افاقہ ضرور ہو گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔