دودھ پتی چائے میں مائیکرو پلاسٹک شامل ہونےکا انکشاف
دودھ پتی کی ہرپیالی کے ذریعے تقریبا 100سے 1250 مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑے جسم میں داخل ہوتے ہیں،تحقیق
ملک بھر میں دودھ پتی(چائے)میں مائیکروپلاسٹک کی آلودگی شامل ہونے کا انکشاف ہواہے تحقیق کے دوران چائے کے نمونے پلاسٹک سے آلودہ پائے گئے ہیں۔
جناح یونیورسٹی برائے خواتین اور ورلڈ وائلڈ لائیو فنڈ (ڈبلیوڈبلiوایف پاکستان)کے تعاون سے غذائی تسلسل(فوڈچین)میں مائیکروپلاسٹک کی موجودگی کے حوالےسے تحقیق کا آغاز کیا گیا۔
شعبہ زولوجی کی سر براہ پروفیسررعنا ہادی کی سربراہی میں ہونے والی میں تحقیق کا آغاز عام آدمی کی خوراک سے کیا گیا ،اس تحقیق کا آغازدودھ پتی چائے سے کیا جوکہ ملک کا ایک مقبول مشروب ہے۔
تحقیق کے دوران دودھ پتی کے نمونے شہرکے مختلف علاقوں سےحاصل کیے گئے،جناح یونیورسٹی برائے خواتین کی محقق حنا معین نے نے بتایا کہ کراچی سے حاصل کیے گئے دودھ پتی کے نمونے مائیکروپلاسٹک سے آلودہ پائے گئے۔
ان کاکہنا تھا کہ چونکہ دودھ پتی 100سے250ملی لیٹر کی پیالیوں میں پی جاتی ہے،لہذا دودھ پتی کی ہرپیالی کے ذریعے تقریبا 100سے 1250 مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔
کراچی کے مختلف علاقوں سے حاصل شدہ نمونوں میں کوئی خاص فرق نہیں پایاگیا، جس کی وجہ خام مال(ناقص معیار کی چائےپتی دودھ اورچینی)اوردودھ پتی بنانے کا ایک جیسا طریقہ کارہے،اسی لیےمائیکروپلاسٹک کی مقدارمیں کوئی واضح فرق نہیں پائے گئے،دودھ پتی میں مائیکروپلاسٹک کی خاصی مقدارمیں موجودگی پریشانی کا باعث ہے اوراس ضمن میں مزید تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پروفیسررعنا ہادی کے مطابق یہ حد بہت زیادہ ہے،اور اس میں سب زیادہ مائیکروفائبرپلاسٹک موجود ہے تیکنیکی مشیرڈبلیو ڈبلیو ایف (پاکستان )محمد معظم خان کے مطابق دودھ پتی کے نمونوں میں مائیکروپلاسٹک کی موجودگی تشویشن ناک ہے۔
انکا کہنا ہے کہ مائیکروپلاسٹک کے ہرذرے کی ساخت بنیادی پلاسٹک کی کیمائی ترکیب اجزا،استعمال اورٹوٹ پھوٹ پرمبنی ہوتی ہے،مگران ذرات میں ماحول کے کثیف مادوں کواپنی سطح پرجذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے،اوراگریہ کثیف اورکیمیائی مادے اگرزہریلے ہوں تویہ مائیکروپلاسٹک کے ذرات بھی زہریلے اورنقصان دہ ہوسکتے ہیں،اور ان کا انسانی خوراک میں شامل ہونا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے،
مائیکروپلاسٹک پرکی جانے والی تحقیق ابھی دنیا بھر میں جاری ہے،غالب خیال ہے کہ مائیکروپلاسٹک بذات خود شائد نقصان دہ نہیں ہے مگرجوکیمیائی مادہ اس کی سطح پرجمع ہوجاتے ہیں ان سے انسانی صحت پرمنفی اثرات ہوسکتے ہیں،محمد معظم خان نے اس تحقیق کو جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معلومات آئندہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوں گی۔
مائیکروپلاسٹک 5ملی میٹرسے چھوٹے ان ٹکڑوں کو کہا جاتاہے جو پوری دنیا میں پھیلتے جارہے ہیں اورماحول کی آلودگی کا اہم سبب بن رہےہیں۔
پلاسٹک کے یہ ذرات ہوا،پانی،خوراک یہاں تک کہ انسانی جسموں کو بھی آلودہ کررہے ہیں،مائیکرو پلاسٹک پینے کے پانی اور کھانے پینے کی اشیا میں بھی وافرمقدارمیں موجود ہیں۔
تحقیق کے مطابق ایک اوسط شخص ہرہفتے تقریبا 1769مائیکروپلاسٹک کے ذرات کھارہا ہے،یہ مائیکروپلاسٹک عام سبزیوں اورپھلوں میں موجود ہوتا ہے، سیب میں ایک تحقیق کے مطابق اوسطا 195,500فی گرام مائیکروپلاسٹک کے ذرات جبکہ گاجر میں اس کی اوسط 100,000سے زیادہ مائیکروپلاسٹک کے ذرات فی گرام پائے گئے۔
مائیکروپلاسٹک کے یگربنیادی ذرائع میں مچھلی،مشروبات اورنمک شامل ہیں،پاکستان بھی اس کے برے اثرات سے قطعی محفوظ نہیں ہے،اس بات کا خدشہ ہے کہ مائیکروپلاسٹک ہمارے ماحول اورہماری خوراک کا اہم حصہ بنتاجارہا ہے۔
اس سے قبل جناح یونیورسٹی برائے خواتین اور ڈبلیوڈبیلوایف(پاکستان)کے تعاون سے ماحول میں مائیکروپلاسٹک کی مقدارکے تعین کے لیے کئے گئے ایک مطالعے کے مطابق ساحل کےساتھ ساتھ مائیکروپلاسٹک کی مقدارخطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔
کلفٹن کراچی کی ساحلی ایک گرام ریت میں مائیکروپلاسٹک کے تقریبا 300ذرات پائےگئے،جوساحلی پٹی کے ساتھ پلاسٹک کی آلودگی کی انتہائی بلند سطح کی نشاندہی کرتی ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔