موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان پر تباہ کن اثرات

ایڈیٹوریل  منگل 27 ستمبر 2022

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ڈونرزکانفرنس کا انعقاد جلد کیا جائے گا۔

گزشتہ روز لندن سے بذریعہ وڈیو لنک سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کے کاموں کا جائزہ لینے کے لیے بلائے گئے اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران عالمی رہنماؤں کو موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان پر تباہ کن اثرات اور اس حوالے سے پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ایکسپریس ٹریبیون میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ناموافق واقعات پاکستانی معیشت کی زبوں حالی میں مزید اضافہ کررہے ہیں جو پہلے غیر یقینی سیاسی حالات ، روس یوکرین جنگ ، کمزور انرجی مارکیٹوں ، ڈالرکی قدر میں اضافے اور پھر سیلاب سے ہونے والے 30ارب ڈالر کے نقصان کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی کاوشیں لائق تحسین ہیں کہ وہ عالمی فورمز پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کا نقطہ نظر بھرپور انداز میں اجاگرکررہے ہیں،بلاشبہ وہ عالمی ضمیر کو بیدارکرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں سیلاب زدگان کے لیے وسیع پیمانے پر ملک کو امداد مل رہی ہیں بلکہ ہمیں قرضہ کی ادائیگی میں بھی ریلیف ملنے کا قوی امکان ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہلاکت خیز سیلابوں اور بارشوں نے عالمی بے انصافی کے احساس کو مزید بڑھا دیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کا عالمی درجہ حرارت بڑھانے والی آلودہ گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ملکوں میں پاکستان سرِ فہرست ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین ہمیں بہت پہلے اس خطرے سے آگاہ کرچکے تھے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بین الاقوامی طور پر دنیا کا تیسرا خطرناک ترین ملک بن چکا ہے ، لیکن ہم نے اس بات کو نظر انداز کیا ، جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں ، اب جب سیلاب نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب ہم اپنی کوتاہیوں پر نظر ثانی کریں گے؟ خراب معاشی انتظام کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار تھا اور اب سیلاب کے بعد معاشی صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔

بدقسمتی سے ملک میں تمام اشیا خصوصاً یوٹیلیٹی بلز پر بھاری ٹیکسوں اور محصولات غیر معمولی طور پر بڑھنے کے باوجود معیشت میں گراوٹ کا رجحان برقرار ہے۔ زرعی معیشت ہونے کے باوجود اشیائے خورونوش 70 فیصد عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، مہنگائی ریکارڈ سطح پر ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابی صورتحال کے باعث زراعت ، اسمال انڈسٹریز اور دیگر ذاتی روزگار کرنے والے لوگوں کو براہ راست بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے اس کے علاوہ مہنگائی اور شہریوں کی قوت خرید کم ہونے کے باعث معاشی سرگرمیاں بھی سست پڑنے کا امکان ہے جس کا اثر روزگار کے مواقعے کم ہونے کی صورت میں نکلے گا اور ملک میں بے روزگاری مزید بڑھ سکتی ہے۔

حالیہ سیلاب کے بعد اب عوام اس سے بھی بدتر حالت میں ہیں۔ وبائی امراض کے پیچیدہ اثرات انسانی حقوق اور فلاح و بہبود کی تنظیموں کے لیے فوری طور پر متاثرہ افراد کی ضروریات کو پورا کرنا اور ان کا جواب دینا مشکل بنا رہے ہیں۔

پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے اشیاء کی سپلائی میں رکاوٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں حساس قیمتوں کا اشاریہ 44.58 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جو ملک میں آسمان کو چھوتی مہنگائی کی نشاندہی کرتا ہے۔

پاکستان کے جی ڈی پی کے ہر یونٹ پر اعشاریہ 52 فیصد نقصان صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ایک رپورٹ میں ماہرین یہ بھی بتا چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دیگر عوامل کے ساتھ سب سے زیادہ خطرہ سیلاب کی شکل میں رونما ہوتا ہے ، جس کی وجہ کرہ ارض پر تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت اور خلاف معمول گلیشیئرز کا پگھلنا ہے۔

مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے آنے والے حالیہ سیلاب نے اہم اور معمولی فصلوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جو زرعی کارکردگی کے ذریعے معاشی نقطہ نظر کو متاثرکر سکتی ہیں۔ سیلاب نے خریف کی اہم اور چھوٹی فصلوں کی ممکنہ پیداوار کو کم کر دیا ہے، جس سے زرعی شعبے کے مثبت نقطہ نظر کو نقصان پہنچا ہے۔بارش اور سیلاب کے سبب کپاس، چاول، کھجور اور خریف کی سبزیاں اور پھل بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

دوسری جانب جے ایس گلوبل نے اپنی ریسرچ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے کسانوں کے ٹیوب ویل اور دیگر انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے جب کہ کھاد کی قیمت پہلے ہی بلند سطح پر ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور آنے والی فصلیں بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔

مہنگائی اور عمومی طور پر ڈیمانڈ میں کمی کے باعث معاشی سرگرمیاں سست پڑنے کا امکان ہے جس کی وجہ سے بینکوں سے قرض لینے کے رجحان میں کمی کی توقع ہے، دوسری جانب بڑے نقصانات کے پیش نظر بینکوں کے غیر فعال قرضوں کا بوجھ بھی بڑھنے کا امکان ہے۔

شدید سیلاب کے اثرات میں زیادہ درآمدات، برآمدات پر سمجھوتہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی شامل ہو سکتی ہے اور یہ صورت حال حکومت کو 2.6 ارب امریکی ڈالر مالیت کی کپاس، 90 کروڑ امریکی ڈالر کی گندم کی اضافی درآمدات کرنے پر مجبور کر سکتی ہے اور ملک تقریباً 1 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات سے محروم ہو سکتا ہے۔موجودہ مالی سال 23-2022 میں تقریباً 4.5 ارب امریکی ڈالر (جی ڈی پی کا 1.08 فیصد) ہے۔

سیلاب کی وجہ سے صارفین کو پیاز، ٹماٹر اور مرچ جیسی گھریلو اشیا کی سپلائی میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، اس وقت سب سے زیادہ سیلاب سے متاثر ہونے والی فصل کپاس ہے۔ کسانوں نے گزشتہ مالی سال میں 80 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار لی، لیکن اب سندھ میں شدید بارشوں کے باعث گزشتہ سالوں کی طرح ان کی فصل دوبارہ خراب ہوگی۔

کپاس کی بوائی مبینہ طور پر (سندھ میں) کافی حد تک تباہ ہو چکی ہے، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ملک کو اس سال طلب کا 80 فیصد پورا کرنے کے لیے کپاس کی درآمد کی ضرورت ہے، مالی سال 23 میں امپورٹ بل 4.4 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ دوسری طرف درآمد شدہ خام کپاس یا دیگر غیر پراسیس شدہ ٹیکسٹائل کی عدم دستیابی سے ملک کی ٹیکسٹائل برآمدات پر منفی اثر پڑے گا۔ چاول ایک اور فصل ہے جس کے جاری سیلاب میں بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ ان چند فصلوں میں شامل ہے جہاں ماضی قریب میں زیر کاشت رقبہ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

چاول سالانہ برآمدات میں 2.5 ارب ڈالر کا حصہ ڈالتا ہے۔ اس کی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں جی ڈی پی کی نمو میں معمولی کمی اور اعلیٰ سی پی آئی افراط زر کے علاوہ برآمدات کو نقصان پہنچے گا۔ چونکہ سیلاب کا پانی غائب ہونے میں دو سے تین ماہ کا وقت لگتا ہے، اس کے نتیجے میں گندم اور خوردنی تیل کے بیجوں کی بوائی میں تاخیر کا امکان ہے۔

گندم کی کاشت میں تاخیر ملک کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ بہت سے کسان پہلے ہی گندم سے خوردنی تیل کے بیجوں کی کاشت کی طرف جا چکے ہیں۔ مزید یہ کہ سیلاب کے بعد کی صورتحال سے گندم کی آنے والی فصلوں کی پیداوار پر بھی منفی اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔ بوائی میں تاخیر اور گندم کی درآمدی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ، 3 کروڑ ٹن گندم کی طلب کا 15 فیصد درآمد ہونے سے مالی سال 2023 میں اس کا درآمدی بل 1.7 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

ایک بحرانی صورتحال میں جہاں سیلاب نے بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا، ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرین کی بحالی، بلا تفریق عوام کو ریلیف کی فراہمی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں کو دوبارہ جوڑنے اور ڈیموں اور پانی کے ذخیروں کی تعمیر کے ذریعے مستقبل میں سیلاب سے بچاؤ کے لیے حکمت عملی طے کرنے پر بھر پور توجہ مرکوز کی جائے۔

حکومت کو پاکستان کے معاشی انتظام کے لیے سنجیدہ اور انقلابی اصلاحات کے ذریعے ایسے اقدامات شروع کرنے چاہئیں کہ ملکی معیشت کا بیرونی ذرایع پر انحصار کم سے کم ہو۔ سرکاری افسران، اشرافیہ اور بیوروکریسی کے غیر ضروری اخراجات ومراعات پر پابندی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی جانی چاہیے چونکہ سیاسی بحران اور انتقامی کارروائیاں ملک کو درپیش موجودہ بحرانوں کی شدت میں اضافہ کر رہی ہیں، اس لیے اس سلسلے کو فوری طور پر ترک کیا جانا چاہیے۔

علاوہ ازیں سیاسی قیادت کو اپنے محدود سیاسی اور ذاتی مفادات پر دست و گریباں ہونے کے بجائے مل بیٹھ کر پاکستان کے قومی مفادات میں فیصلے کرنے چاہئیں۔ملک کے سماجی و اقتصادی شعبوں میں ترقی کا فقدان ہے۔ حکومت کی یہ بنیادی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ریاست اور معاشرے کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ترجیحات طے کرے۔ مسائل کی جلد از جلد نشاندہی، انھیں ہر ممکن طریقے سے حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنا اور بہتر معاشی انتظام کے ذریعے ہی پاکستان کو معاشی بحرانوں سے بچایا جا سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔