امدادی بدنظمی کے تدارک کی ضرورت

محمد سعید آرائیں  منگل 27 ستمبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

ملک بھر میں سیلاب متاثرین کے لیے حکومتوں سے زیادہ ملک کے فلاحی اداروں نے امدادی سامان پہنچایا جب کہ دنیا بھر سے بھی اچھی خاصی امداد مسلسل موصول ہو رہی ہے۔ حکومتیں بے شمار فلاحی ادارے اور ملنے والی امداد کے باوجود متاثرین سیلاب میڈیا میں آہ و بکا کر رہے ہیں اور امداد نہ ملنے پر متاثرین احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

بعض متاثرہ علاقوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان تک حکومتی اور فلاحی اداروں کی امداد نہیں پہنچی اور وہ بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے بے پناہ مشکلات میں مبتلا ہیں۔ بری، بحری اور فضائی افواج کی امدادی سرگرمیاں کامیابی سے جاری ہیں اور وہ عالمی معیار مثلاً صاف پانی اور ادویات و راشن کی دوسروں سے زائد بہتر طور پر فراہمی میں مصروف ہیں اور متاثرین فوجی امدادی سامان ملنے کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کے ہر متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خود پاکستان آ کر سیلاب کی تباہ کاریوں اور متاثرین کی حالت زار کا مشاہدہ کیا اور دنیا کی توجہ اس طرف مرکوز کرائی اور دنیا بھر سے پاکستانی متاثرین کے لیے امداد کی بھی اپیل کی۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین کے لیے خیر سگالی کی خصوصی سفیر انجلینا جولی نے بھی ملک کے سب سے متاثرہ علاقوں میں جا کر لوگوں کی حالت زار دیکھی۔ متعدد ممالک کے سفیر بھی امدادی سامان لے کر مختلف علاقوں میں گئے اور متاثرین سے ملے۔

دنیا بھر کی ممتاز شخصیات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے دورہ امریکا میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا۔ وزیر خارجہ بلاول زرداری نے نیویارک میں کہا کہ ’’موسمیاتی تبدیلی سے ایک تہائی پاکستان ڈوب چکا ہے ہمیں خیرات یا امداد نہیں انصاف چاہیے‘‘ دنیا بھر سے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور امدادی سامان کے جہاز دھڑا دھڑ آ رہے ہیں مگر یہ سامان جا کہاں رہا ہے اس کا جواب حکومت سمیت کسی کے پاس نہیں ہے اور متاثرین کے مطابق ان تک سرکاری امداد پہنچی ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر ملی اور وہ پانی میں محصور اب تک امداد ملنے کے منتظر ہیں اور میڈیا کے ذریعے اپنی حالت زار کی طرف اہل وطن اور دنیا کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے مالی بحران میں اضافہ ہو گیا ہے۔ متاثرین کی بحالی آسان نہیں ان پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب نے ہماری زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل دی ہیں۔ پاکستان میں لوگ غذائی قلت کا شکار اور بے گھر افراد کے لیے خیمے لگانے کے لیے خشک جگہ تک میسر نہیں۔ نقصان کا تخمینہ ہماری پہنچ سے باہر ہے۔

ایک کروڑ 11 لاکھ مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے ایسی صورت حال میں پاکستان دنیا سے انصاف کی توقع رکھتا ہے کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے ہماری وجہ سے نہیں ہوا۔ ملک میں سیلاب سے روزانہ جانی نقصان بڑھ رہا ہے متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے اور ایک ماہ سے موجود پانی میں اب بدبو پیدا ہو گئی ہے کیونکہ مرے ہوئے جانور اس پانی میں موجود ہیں۔ پانی سے سانپ، بچھو نکل کر متاثرین کو جانی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

متاثرہ علاقوں میں رات کو اندھیرا ہونے کی وجہ سے حشرات الارض نے متاثرین کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے مزید کسر ڈنگی بخار اور ملیریا نے کردی ہے۔ متاثرین کے پاس مچھروں سے بچنے کے لیے صرف ہاتھ کے پنکھے ہیں جو ناکافی اور بچاؤ کے لیے سودمند ثابت نہیں ہو رہے۔ متاثرین میڈیا پر بتا رہے ہیں کہ فوج اور فلاحی اداروں کے سوا حکومت، ارکان اسمبلی، وزیر، مشیر اور سرکاری افسران کہیں نظر نہیں آئے۔

سیلاب متاثرین کو امدادی سامان پہنچانے میں تمام بڑے فلاحی ادارے اور چھوٹی سماجی تنظیمیں کام تو کر رہی ہیں۔ بڑے اداروں کے پاس بھی متاثرین تک پہنچنے کا نیٹ ورک محدود ہے۔

انھیں میڈیا اور نجی ذرایع سے متاثرین کی حالت زار کی اطلاع ملتی ہے تو وہ کراچی سے سفر کرکے سندھ و بلوچستان کے دور دراز کے متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر امدادی سامان پہنچا رہے ہیں جب کہ متاثرین کو ہر بنیادی چیز کی ضرورت ہے کیونکہ بارشوں کا سامنا تو وہ ہر سال ہی کرتے ہیں مگر اس بار غیر متوقع طور پر بارشیں ہوئیں، بعد میں آنے والے ہولناک سیلاب نے متاثرین کو سنبھلنے کا موقعہ ہی نہیں دیا جس کی وجہ سے اپنی جانیں اور جانوروں کو بچانے کے لیے جو ضروری سامان اٹھا سکے وہ لے کر محفوظ مقامات پر آنے پر مجبور ہوئے۔

سیلاب سے سڑکیں ٹوٹ گئیں متاثرین تک جانے کے راستے بند ہوگئے۔ جہاں تک ممکن ہو سکا بڑے فلاحی اداروں نے ان تک امداد پہنچانا شروع کی مگر ان اداروں میں آپس میں کوئی رابطہ تھا نہ ان کے پاس متاثرین کی ضروریات سے معلومات تھیں اس لیے ہر ادارے نے جہاں تک ان کی پہنچ تھی متاثرین تک امداد اور پکے ہوئے کھانے پہنچائے اور متاثرین صبح شام چاول کھا کھا کر بے زار و بیمار ہوگئے ہیں۔ حکومت کے پاس ان فلاحی اداروں کی رہنمائی کا کوئی بھی انتظام نہیں تھا اور نہ امداد لانے والوں کو متاثرین تک پہنچانے میں سرکاری مدد ملی جس کی وجہ سے امدادی سامان کی گاڑیوں پر حملے، چھینا جھپٹی ہوئی اور حقیقی متاثرین محروم رہ گئے۔

صدر ایوب خان کے دور تک رضاکار ہوتے تھے جو انھی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ،انھیں اپنے علاقے کی معلومات تھیں اگر وہ رضاکار سسٹم آج ہوتا تو سیلاب میں مددگار ثابت ہوتا اور امدادی سامان کی منصفانہ تقسیم ممکن بنائی جاسکتی تھی۔

رضاکار نہ ہونے کی وجہ سے حقیقی متاثرین محروم رہ گئے اور غیر مستحقین نے موقع سے فائدہ اٹھا کر مال جمع کرنا شروع کردیا اور بدعنوان سرکاری افسر، پارٹی عہدیدار، منتخب نمایندوں نے بھی راشن ذخیرہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ بعض علاقوں میں ججز اور انتظامیہ نے چھاپے بھی مارے۔  امدادی سامان کی تقسیم میں بعض وزیروں اور ارکان اسمبلی کا کردار شرم ناک رہا۔ انھوں نے اپنوں کو راشن دلایا اور باقی خرد برد کرلیا اور حقیقی متاثرین احتجاج کرتے اور منہ دیکھتے رہ گئے مگر ظالموں کو ان پر ترس نہ آیا۔ امدادی سامان بہت مگر بدنظمی کے باعث ضرورت مندوں تک نہ پہنچ سکا۔

ضرورت ہے کہ آیندہ کے لیے حکومتیں بدنظمی روکنے کے لیے ابھی سے تدارک کریں۔ سابقہ رضاکار سسٹم بحال کرکے منصوبہ بندی اور متاثرین کی مکمل معلومات کے لیے ریکارڈ مرتب کیا جائے تاکہ ضرورت پر شکایات نہ ہوں اور حقیقی ضرورت مندوں کی مدد ہو سکے۔

ملک بھر میں سیلاب متاثرین کے لیے حکومتوں سے زیادہ ملک کے فلاحی اداروں نے امدادی سامان پہنچایا جب کہ دنیا بھر سے بھی اچھی خاصی امداد مسلسل موصول ہو رہی ہے۔ حکومتیں بے شمار فلاحی ادارے اور ملنے والی امداد کے باوجود متاثرین سیلاب میڈیا میں آہ و بکا کر رہے ہیں اور امداد نہ ملنے پر متاثرین احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

بعض متاثرہ علاقوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان تک حکومتی اور فلاحی اداروں کی امداد نہیں پہنچی اور وہ بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے بے پناہ مشکلات میں مبتلا ہیں۔ بری، بحری اور فضائی افواج کی امدادی سرگرمیاں کامیابی سے جاری ہیں اور وہ عالمی معیار مثلاً صاف پانی اور ادویات و راشن کی دوسروں سے زائد بہتر طور پر فراہمی میں مصروف ہیں اور متاثرین فوجی امدادی سامان ملنے کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کے ہر متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خود پاکستان آ کر سیلاب کی تباہ کاریوں اور متاثرین کی حالت زار کا مشاہدہ کیا اور دنیا کی توجہ اس طرف مرکوز کرائی اور دنیا بھر سے پاکستانی متاثرین کے لیے امداد کی بھی اپیل کی۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین کے لیے خیر سگالی کی خصوصی سفیر انجلینا جولی نے بھی ملک کے سب سے متاثرہ علاقوں میں جا کر لوگوں کی حالت زار دیکھی۔ متعدد ممالک کے سفیر بھی امدادی سامان لے کر مختلف علاقوں میں گئے اور متاثرین سے ملے۔

دنیا بھر کی ممتاز شخصیات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے دورہ امریکا میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا۔ وزیر خارجہ بلاول زرداری نے نیویارک میں کہا کہ ’’موسمیاتی تبدیلی سے ایک تہائی پاکستان ڈوب چکا ہے ہمیں خیرات یا امداد نہیں انصاف چاہیے‘‘ دنیا بھر سے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور امدادی سامان کے جہاز دھڑا دھڑ آ رہے ہیں مگر یہ سامان جا کہاں رہا ہے اس کا جواب حکومت سمیت کسی کے پاس نہیں ہے اور متاثرین کے مطابق ان تک سرکاری امداد پہنچی ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر ملی اور وہ پانی میں محصور اب تک امداد ملنے کے منتظر ہیں اور میڈیا کے ذریعے اپنی حالت زار کی طرف اہل وطن اور دنیا کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے مالی بحران میں اضافہ ہو گیا ہے۔ متاثرین کی بحالی آسان نہیں ان پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب نے ہماری زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل دی ہیں۔ پاکستان میں لوگ غذائی قلت کا شکار اور بے گھر افراد کے لیے خیمے لگانے کے لیے خشک جگہ تک میسر نہیں۔ نقصان کا تخمینہ ہماری پہنچ سے باہر ہے۔

ایک کروڑ 11 لاکھ مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے ایسی صورت حال میں پاکستان دنیا سے انصاف کی توقع رکھتا ہے کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے ہماری وجہ سے نہیں ہوا۔ ملک میں سیلاب سے روزانہ جانی نقصان بڑھ رہا ہے متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے اور ایک ماہ سے موجود پانی میں اب بدبو پیدا ہو گئی ہے کیونکہ مرے ہوئے جانور اس پانی میں موجود ہیں۔ پانی سے سانپ، بچھو نکل کر متاثرین کو جانی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

متاثرہ علاقوں میں رات کو اندھیرا ہونے کی وجہ سے حشرات الارض نے متاثرین کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے مزید کسر ڈنگی بخار اور ملیریا نے کردی ہے۔ متاثرین کے پاس مچھروں سے بچنے کے لیے صرف ہاتھ کے پنکھے ہیں جو ناکافی اور بچاؤ کے لیے سودمند ثابت نہیں ہو رہے۔ متاثرین میڈیا پر بتا رہے ہیں کہ فوج اور فلاحی اداروں کے سوا حکومت، ارکان اسمبلی، وزیر، مشیر اور سرکاری افسران کہیں نظر نہیں آئے۔

سیلاب متاثرین کو امدادی سامان پہنچانے میں تمام بڑے فلاحی ادارے اور چھوٹی سماجی تنظیمیں کام تو کر رہی ہیں۔ بڑے اداروں کے پاس بھی متاثرین تک پہنچنے کا نیٹ ورک محدود ہے۔

انھیں میڈیا اور نجی ذرایع سے متاثرین کی حالت زار کی اطلاع ملتی ہے تو وہ کراچی سے سفر کرکے سندھ و بلوچستان کے دور دراز کے متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر امدادی سامان پہنچا رہے ہیں جب کہ متاثرین کو ہر بنیادی چیز کی ضرورت ہے کیونکہ بارشوں کا سامنا تو وہ ہر سال ہی کرتے ہیں مگر اس بار غیر متوقع طور پر بارشیں ہوئیں، بعد میں آنے والے ہولناک سیلاب نے متاثرین کو سنبھلنے کا موقعہ ہی نہیں دیا جس کی وجہ سے اپنی جانیں اور جانوروں کو بچانے کے لیے جو ضروری سامان اٹھا سکے وہ لے کر محفوظ مقامات پر آنے پر مجبور ہوئے۔

سیلاب سے سڑکیں ٹوٹ گئیں متاثرین تک جانے کے راستے بند ہوگئے۔ جہاں تک ممکن ہو سکا بڑے فلاحی اداروں نے ان تک امداد پہنچانا شروع کی مگر ان اداروں میں آپس میں کوئی رابطہ تھا نہ ان کے پاس متاثرین کی ضروریات سے معلومات تھیں اس لیے ہر ادارے نے جہاں تک ان کی پہنچ تھی متاثرین تک امداد اور پکے ہوئے کھانے پہنچائے اور متاثرین صبح شام چاول کھا کھا کر بے زار و بیمار ہوگئے ہیں۔

حکومت کے پاس ان فلاحی اداروں کی رہنمائی کا کوئی بھی انتظام نہیں تھا اور نہ امداد لانے والوں کو متاثرین تک پہنچانے میں سرکاری مدد ملی جس کی وجہ سے امدادی سامان کی گاڑیوں پر حملے، چھینا جھپٹی ہوئی اور حقیقی متاثرین محروم رہ گئے۔

صدر ایوب خان کے دور تک رضاکار ہوتے تھے جو انھی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ،انھیں اپنے علاقے کی معلومات تھیں اگر وہ رضاکار سسٹم آج ہوتا تو سیلاب میں مددگار ثابت ہوتا اور امدادی سامان کی منصفانہ تقسیم ممکن بنائی جاسکتی تھی۔ رضاکار نہ ہونے کی وجہ سے حقیقی متاثرین محروم رہ گئے اور غیر مستحقین نے موقع سے فائدہ اٹھا کر مال جمع کرنا شروع کردیا اور بدعنوان سرکاری افسر، پارٹی عہدیدار، منتخب نمایندوں نے بھی راشن ذخیرہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ بعض علاقوں میں ججز اور انتظامیہ نے چھاپے بھی مارے۔  امدادی سامان کی تقسیم میں بعض وزیروں اور ارکان اسمبلی کا کردار شرم ناک رہا۔

انھوں نے اپنوں کو راشن دلایا اور باقی خرد برد کرلیا اور حقیقی متاثرین احتجاج کرتے اور منہ دیکھتے رہ گئے مگر ظالموں کو ان پر ترس نہ آیا۔ امدادی سامان بہت مگر بدنظمی کے باعث ضرورت مندوں تک نہ پہنچ سکا۔

ضرورت ہے کہ آیندہ کے لیے حکومتیں بدنظمی روکنے کے لیے ابھی سے تدارک کریں۔ سابقہ رضاکار سسٹم بحال کرکے منصوبہ بندی اور متاثرین کی مکمل معلومات کے لیے ریکارڈ مرتب کیا جائے تاکہ ضرورت پر شکایات نہ ہوں اور حقیقی ضرورت مندوں کی مدد ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔