وزیر اعلیٰ بادشاہ نہیں ہوتا جو کسی کو بھی زمینیں بانٹ دے، سپریم کورٹ، سندھ میں 15 نومبر تک بلدیاتی انتخاب مکمل کرنے کی ہدایت

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 21 مارچ 2014
افسران کی تقرریوں کا طریقہ کار ہمارے لیے دھچکا ہے، افسران بے بس ہونگے توامن کیسے ہوگا؟،چیف جسٹس۔فوٹو:فائل

افسران کی تقرریوں کا طریقہ کار ہمارے لیے دھچکا ہے، افسران بے بس ہونگے توامن کیسے ہوگا؟،چیف جسٹس۔فوٹو:فائل

کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے ڈی جی رینجرز سندھ کے رینجرز کے اختیارات سے متعلق بیان پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ قانون نافذکرنیوالے اداروںکے افسران بے بسی محسوس کریں تو امن کیسے ہوگا؟۔

رینجرز کا سربراہ اختیارات کو کاغذ کا ٹکڑا قراردیتا ہے اور انسپکٹر جنرل بھی مستقل بنیادوں پر تعینات نہیں ،یہ صورتحال ہمارے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں کہ شہر بد امنی کی لپیٹ میں ہے اور صوبے میں مستقل آئی جی موجود نہیں۔کوئی افسران کو کام سے روکتا ہے تو ہمیں بتایاجائے ، کھلی عدالت میں ہمت نہیں تو چیمبر میں آگاہ کردیا جائے۔ عدالت نے حکومت کو 24گھنٹے میں مستقل آئی جی تعینات کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ حکام اپنی کارکردگی کے قابل اطمینان ہونے کے بارے میں خود سے پوچھیں اور جواب دیں۔ عدالت نے ڈی جی رینجرز کو ہدایت کی وہ رینجرز کو تفویض کردہ اختیارات اور مسائل کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائیں۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جمعرات کو کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی، دیگر ارکان میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس امیر ہانی مسلم شامل تھے۔

اس موقع پر قائم مقام آئی جی سندھ اقبال محمود نے امن و امان کی صورت سے متعلق رپورٹ پیش کی تو عدالت نے استفسار کیا کہ اب تک آپ قائم مقام ہیں، حکومت مستقل آئی جی کیوں تعینات نہیں کرتی؟، اس موقع پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سرور خان نے بتایا کہ یہ وفاق کا معاملہ ہے،جس پر عدالت ریمارکس دیے کہ امن و امان کی صورت حال تشویشناک ہے مگر صوبے میں مستقل آئی جی بھی نہیں۔ اقبال محمود نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں جرائم میں کمی آئی ہے، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے انکی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گزشتہ دنوں لیاری میں کتنے لوگ مارے گئے ہیں ؟اتنے بڑے واقعات کیسے ہوگئے؟، اقبال محمود نے بتایا کہ گزشتہ دنوں عذیر بلوچ کے مخالف بابالاڈلاگروپ کے اہم کارندے غفار ذکری کے بھائی شیراززکری کے قتل کا بدلہ لینے کیلیے لیاری جھٹ پٹ مارکیٹ میں دستی بموں سے حملہ کیا گیا جس سے خواتین و بچوں سمیت 16افراد ہلاک اور 48زخمی ہوگئے تھے،ہولیس اور رینجرز نے کارروائی کرتے ہوئے 8ملزمان کو مقابلو ں میں ہلاک کیا اس طرح پولیس مقابلوں میں 19ملزمان جاں بحق ہوئے۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ ہمیں چھوڑیں عدالت میں موجود لوگوں سے پوچھیں، کیا یہ اس شہر میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ اگر صورتحال قابو میں ہے تو ڈی جی رینجرز نے یہ بیان کیسے دے دیا کہ وہ بے اختیار ہیں چیف جسٹس نے رینجرز کے وکیل سے استفسار کیا کہ آخر ڈی جی رینجرز نے یہ بیان کیوں دیا کہ انکے پاس اختیارات کاغذی ہیںرینجرز کے وکیل شاہد انور باجوہ اور لاء افسر میجر اشفاق احمد نے بتایا کہ رینجرز کو5 تھانے اور تفتیش کی نگرانی کا اختیار دینے کا کہا گیا لیکن پیش رفت نہیں ہوئی، اکتوبر 2013 میں انسداد دہشت گردی قوانین میں ترمیم کے باوجود رینجرز کو تفتیش کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ میجر اشفاق نے کہاکہ 6ماہ کے دوران رینجرز کے گرفتار شدہ 517 ملزمان کو سیشن کورٹ سے ضمانتیں مل گئیں، ہائی پروفائل کیسز میں ملوث ملزمان گرفتار کرتے ہیںلیکن اختیارات نہ ہونے کے باعث تفتیش نہیں کرسکتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈی جی رینجرز کے بیان سے لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے، سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ رینجرز اپنے تحفظات اور در پیش مسائل کے حوالے سے 3 ہفتوں میں تحریری رپورٹ پیش کرے۔

فاضل بینچ نے ایس ایس پی ملیر راو انوار سے متعلق ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کی رپورٹپر عدم اطمینان اور برہمی کااظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ رپورٹ عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عدالت نے راؤ انوار کی اے ایس آئی کے عہدے پر تقرری سے ایس ایس پی بننے تک کی سروس فائل طلب کی تھی، مگر گریڈ 17کے بعد کے سروس ریکارڈ کی رپورٹ پیش کی گئی۔ سپریم کورٹ نے ایس ایس پی راؤ انوار کی تقرری سے متعلق ایک ہفتے میں تفصیلی رپورٹ طلب کر نے کی ہدایت کی۔ فاضل بینچ نے سرکاری اراضی سے قبضہ چھڑانے سے متعلق انسدادتجاوزات فورس اورمحکمہ ریونیوکی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سرکاری زمینوں کے امین (ٹرسٹی )ہیں فروخت یا لیز نہیں کرسکتے، ہمارے حکمران ٹرسٹی کے بجائے بادشاہ سلامت بن گئے ہیں،بادشاہ بھی کچھ قوانین کا خیال کرلیتے تھے مگر یہاں قانون پر عمل درآمد کی روایت نہیں۔

اس موقع پر ایس پی اینٹی انکروچمنٹ سیل عارف عزیز نے بتایا کہ دو سال میں زمینوں پرقبضے سے متعلق 40مقدمات درج ہوئے جن میں سے 25مقدمات کا چالان پیش کیا گیا ہے۔ عدالت نے اینٹی انکروچمنٹ سیل کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیااور ریمارکس دیے کہ رپورٹ لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ زمینوں پر قبضے کے وہ کیس درج کیے گئے جن کی لیز کی مدت ختم ہوگئی۔ چیف جسٹس نے حکم دیاکہ لیز ختم ہونے والے اور لیز نہ ہونے والی زمینوں کے مقدمات علیحدہ کیے جائیں، عدالت نے ایس پی انکروچمنٹ کو قانون پڑھانے کیلیے استاد رکھنے کی ہدایت دی ،اس موقع پر ایڈیشنل ایدوکیٹ جنرل نے سرکاری زمین کی الاٹمنٹ سے متعلق مجوزہ پالیسی پیش کی ۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ ضروری قانون سازی کے بعد 45 روز میں حلقہ بندی مکمل کر کے،15 نومبر 2014 تک انتخابی عمل مکمل کرلیا جائے ، چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جمعرات کو کراچی رجسٹری میں یہ ہدایات بلدیاتی انتخابات سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت سندھ کی اپیل نمٹاتے ہوئے جاری کیں۔ عدالت عظمی نے حکومت کو 5 ماہ میں حلقہ بندی سے متعلق قانون سازی کی ہدایت کی ہے، عدالت نے قراردیا کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس سے حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو ملے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیاکہ کہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے اور حلقہ بندیاں کرنا بھی الیکشن کمیشن کاکام ہے۔

9 سال سے حلقہ بندی اور بلدیاتی انتخابات کا معاملہ التوا کا شکار ہے جس سے عوام کے حقوق متاثر ہورہے ہیں جو کہ آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔صوبے میں بلدیاتی انتخابات اور حلقہ بندی سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومت5 ماہ میں قانون سازی مکمل کریں۔اسکے بعد الیکشن کمیشن بلدیاتی حلقہ بندیاں کر کے انتخابات کا شیڈول جاری کرے، اور انتخابی عمل 15 نومبر 2014 تک مکمل کیاجائے،سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے سندھ حکومت کی بلدیاتی حلقہ بندیوں سے متعلق ترامیم کو کاالعدم قراردینے کا حکم برقرار رکھاہے۔جمعرات کو سپریم کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعدایم کیوا یم کے وکیل اور سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ میں اپنے دلائل میں انھوں نے غیر جانبدار باڈی سے حلقہ بندی کرانے کی دلیل دی تھی جسے فیصلے میں شامل کرلیا گیا۔اب ممکن نہیں رہاکہ حکومت جس علاقے کوچاہے دیہی علاقہ قرار دے یا شہری۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔