ڈار اور ڈالر کے درمیان دنگل شروع، پنجاب میں تبدیلی کی کوششیں جاری

رضوان آصف  بدھ 28 ستمبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 لاہور:  وزیر اعظم ہاوس کی آڈیو لیکس اور اسحاق ڈار کی وطن واپسی نے ملکی سیاست میں ہیجان خیز طلاطم پیدا کر دیا ہے۔

ہر کوئی اپنے زاویہ سے اس پیش رفت کی تشریح کر رہا ہے ۔ وزیر اعظم ہاوس کو انتہائی محفوظ عمارت تصور کیا جاتا ہے،آئی بی اور آئی ایس آئی اس عمارت کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتی ہے، خفیہ آلات کی تنصیب روکنے کیلئے جدید ترین سکیننگ مشینوں سے تلاشی لی جاتی ہے جبکہ وزیر اعظم ہاوس کے ہر سطح کے ملازمین اور افسروں کا بیک گراونڈ چیک کیا جاتا ہے۔

ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس تمام کے باوجود وزیر اعظم ہاوس میں اہم اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ اور اس کی ڈارک ویب پر نیلامی ملکی سلامتی کیلئے بہت سے سوالات اٹھا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے معاملے کی سنگینی کے پیش نظر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں اس سکیورٹی لیپس کی وجوہات اور ذمہ داروں کی نشاندہی کے حوالے سے جائزہ لیا جائے گا۔

تحریک انصاف سمیت بعض حلقے اس آڈیو لیک کے بارے میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ شاید مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ نے یہ لیکس کروائی ہیں تاکہ حکومت پر دباو بڑھا کر کوئی مطالبہ منظور کروایا جا سکے تاہم اسٹیبشلشمنٹ اور حکومت کے کلیدی ذرائع اس تاثر کو بے بنیاد اور ذہنی اختراع قرار دے رہے ہیں،غیر جانبدار حلقوں کا بھی یہی اندازہ ہے کہ ان آڈیو لیکس کے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ حرکت وزیر اعظم آفس کے کسی انفرادی اہلکار کی ہو سکتی ہے۔

بعض لوگ دور کی کوڑی لاتے ہوئے یہ اندازہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ممکن ہے کہ مبینہ طور پر تحریک انصاف کے ساتھ قربت رکھنے والی اور اسی قربت کی وجہ سے پی ڈی ایم کی تنقید کا شکار ہونے والی کسی سرکاری شخصیت نے یہ کام کروایا ہو ۔آج ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی اس معاملے پر تفصیلی غور کیا جائے گا۔

عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے ان کی مقبولیت میں کمی لانا شروع کیا تھا، اسی کو دیکھتے ہوئے پی ڈی ایم نے مہنگائی کو اپنا مرکزی بیانیہ بنایا۔ جس وقت عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروائی گئی تب عمران خان اپنی مقبولیت کی سب سے نچلی سطح پر تھے اور اگر اس وقت عام انتخابات کا انعقاد ہو جاتا تو تحریک انصاف کسی صورت زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔

اسی لئے میاں نواز شریف کا موقف یہی تھا کہ ہمیں فوری طور پر الیکشن میں جانا چاہیے لیکن واقفان حال کا دعوی ہے کہ عمران خان کے دور حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پہنچ چکا تھا اور اگر اس وقت ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا تو ملک یقینی طور پر دیوالیہ ہو جاتا کیونکہ تب تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی نہیں ہوا تھا۔

اسٹیبلشمنٹ کی خواہش بھی یہی تھی کہ انتخابات کی بجائے نئی حکومت آکر معیشت کو ’’آئی سی یو‘‘ سے باہر نکالے جبکہ میاں شہباز شریف بھی چاہتے تھے کہ وزیر اعظم بننے کی ان کی طویل عرصہ سے چلی آ رہی خواہش پوری ہو جائے لہذا ایک مخلوط حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم حکومت کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ انہیں مکمل ’’سپورٹ‘‘ فراہم کی جائے گی۔

عمران خان کی ’’یلغار‘‘ سے بچایا جائے گا اور معیشت کے حوالے سے مشکل فیصلوں کے منفی اثرات ان تک نہیں پہنچنے نہیں دیئے جائیں گے۔ لیکن ’’یقین دہانیاں‘‘ محض کہنے کی حد تک ہی ثابت ہوئیں ۔ غیر ملکی مداخلت کے بیانیہ کو لیکر عمران خان نے حکومت اور ریاستی اداروں پر چڑھائی کر دی اور کوئی بھی ادارہ انہیں پیچھے دھکیلنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیا۔

اس پراسرار ’’خاموشی‘‘ کے نتیجے میں عمران خان مزید طاقتور ہوئے اور انہوں نے اداروں کی قیادت کو نام لئے بغیر اپنی جارحانہ تقریروں کے نشانے پر لے لیا۔’’نیوٹرل‘‘  اور’’مسٹر ایکس، مسٹر وائی‘‘کے الفاظ استعمال کر کے جو کچھ کہا گیا وہ کسی اور نے کہا ہوتا تو شاید ابتک وہ جیل میں چکی پیس رہا ہوتا ۔ موجودہ وفاقی حکومت نے مفتاح اسماعیل کو وفاقی وزیر خزانہ اس امید سے بنایا تھا کہ وہ مہنگائی میں کمی لا سکیں گے لیکن مفتاح اسماعیل توقعات سے زیادہ برے طریقہ سے ناکام ثابت ہوئے۔

گزشتہ چند مہینوں میں بطور وفاقی وزیر خزانہ ان کے فیصلوں نے عوام کو عمران خان کی ساڑھے تین سالہ مہنگائی بھلا دی، مسلم لیگ(ن) کو مفتاح اسماعیل کے معاشی فیصلوں کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ۔ ڈالر250 روپے تک جا پہنچا جس نے ملکی معیشت کو منجمد کردیا۔

دیوالیہ ہونے کے خطرات اور افواہوں کی وجہ سے اربوں ڈالر کا کیپیٹل سرمایہ ملک سے باہر چلا گیا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکے بعد دیگرے ہوشربا اضافہ نے عوام کو معاشی قبر میں لٹا دیا جبکہ بجلی بلز میں ٹیکس عائد ہونے نے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ۔ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف عوامی غیض وغضب انتہا تک پہنچ چکا ہے اور اس کا فائدہ عمران خان کو ہوا۔

جنہوں نے موجودہ حکومت کی مہنگائی کو بطور سیاسی ہتھیار کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ مفتاح اسماعیل کے معاشی فیصلوں پر ملک کے نامی گرامی سرمایہ کار بھی پریشان تھے جبکہ ن لیگ کے اندر بھی مفتاح کی مخالفت بڑھ چکی تھی، بعض مواقع پر تو مریم نواز کو بھی چند معاشی فیصلوں پر تنقید کرنا پڑی۔ مفتاح اسماعیل اب ’’راندہ درگاہ‘‘ قرار دیئے جا چکے ہیں اور اسحاق ڈار اکھاڑے میں واپس آ چکے ہیں۔

آج وہ وفاقی وزیر خزانہ کا حلف اٹھالیں گے۔ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے اعلان سے وطن پہنچنے تک ڈالر کی قدر می11 روپے سے زیادہ کی کمی آ چکی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ’’ڈار‘‘ اور ’’ڈالر‘‘ کے درمیان دنگل میں ڈار مزید کامیابی سمیٹتے ہوئے ڈالر کی قد رکو200 روپے کے لگ بھگ لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسحاق ڈار نے ماضی میں بھی بطور وفاقی وزیر خزانہ ڈالر کی قیمت کو قابو میں رکھا تھا، ان پر یہ تنقید بھی ہوئی کہ انہوں نے ڈالر کو نیچا رکھنے کیلئے مصنوعی طریقے استعمال کئے تھے۔ اس وقت معیشت جس پستی میں گری ہوئی ہے اسے نکالنے کیلئے مصنوعی یا حقیقی جو بھی طریقہ ہو اسے اپنانا چاہئے۔

شنید ہے کہ آئندہ چند روز میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15سے20 روپے فی لیٹر کمی ہونے جا رہی ہے۔ پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ(ن) کو بخوبی احساس ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کا مقابلہ کرنا ہے تو مہنگائی میں نمایاں کمی لانا ہو گی۔ ہمارے عوام کی یادداشت بہت کمزور ہے،انہیں تھوڑا سا بھی مالی ریلیف مل جائے تو یہ حکومت کی پرانی غلطیاں بھول جاتی ہے ،اب اگر اسحاق ڈار مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے تو پی ڈی ایم حکومت بالعموم اور ن لیگ بالخصوص سیاسی طور پر بھی مضبوط اور طاقتور ہو جائے گی۔

پنجاب میں حکومتی تبدیلی کیلئے ’’باریک کام ‘‘ جاری ہے، چوہدری پرویز الہی اور مونس الہی آج بھی پر اعتماد ہیں کہ ان کی ’’کرسی‘‘ مضبوط ہے لیکن سیاسی آثار یکسر مختلف منظر نامہ بنتا پیش کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت بہت پر امید ہے کہ چند ہفتوں کے اندر پنجاب میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے، نمبر گیم مکمل کر لی گئی ہے اور اب صرف طریقہ کار طے ہونا باقی ہے۔ یہ طے ہوچکا ہے کہ حمزہ شہباز وزیر اعلی نہیں بنیں گے۔

نئے وزیر اعلی کیلئے ملک احمد خان ’’ہارٹ فیورٹ‘‘ قرار دیئے جا رہے ہیں۔ ملک احمد خان بہت زیرک اور دور اندیش سیاستدان ہیں، قانون اور سیاست کو سمجھتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ مسلم لیگ(ن) کے اندر انہیں پسند کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے سابق رہنما عبدالعلیم خان بھی مسلم لیگ(ن) کے اندر بہت مضبوط مقام بنا چکے ہیں، گو کہ علیم خان نے مسلم لیگ(ن) میں باضابطہ شمولیت اختیار نہیں کی ہے لیکن میاں نوا ز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز علیم خان کو اہم ساتھی تصور کرتے ہیں ،علیم خان کے قریبی ساتھی شعیب صدیقی لاہور میں ن لیگ کی سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شریک ہو رہے ہیں۔

گزشتہ چند روز سے سیاسی حلقوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ عمران خان کے حالیہ دورہ لاہور میں بعض وزراء کو مبینہ طور پر یہ ٹاسک سونپا گیا ہے کہ وہ علیم خان کو ’’سبق‘ ‘سکھائیں شاید اسی وجہ سے کپتان کے دورہ لاہور کے فوری بعد علیم خان کے کاروبار کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ علیم خان پنجاب بالخصوص لاہور کی سیاست میں بڑا نام ہے اس کے ساتھ اگر کوئی حکومتی جبر یا زیادتی ہوتی ہے تو تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا، تحریک انصاف کے اندر آج بھی درجنوں اراکین اسمبلی اور اہم رہنما علیم خان کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔