شائستہ اکرام اللہ : خواتین رکن اسمبلی کے لیے ایک مثال

زاہدہ حنا  بدھ 28 ستمبر 2022
zahedahina@gmail.com

[email protected]

بیگم شائستہ اختر بانو سہروردی اکرام اللہ نے اپنی خود نوشت کی پہلی سطر میں لکھا ہے کہ وہ کلکتے میں اپنے نانا نواب سید محمد کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ تاریخ 22 جولائی 1915 تھی۔ نواب سید محمد کا خاندان کئی پشت پہلے مغل بادشاہ فرخ سیر کے دور سلطنت میں مشہد سے ہندوستان آیا اور مغلیہ خاندان سے وابستہ ہوا۔ کئی پشت تک اس خاندان کی بودو باش ڈھاکا میں رہی لیکن جب خاندانی دولت پر زوال آیا تو وہ کلکتے چلے آئے جہاں کی ایک معزز اور بااثر شخصیت نواب عبداللطیف کی تھی۔

نواب صاحب کی سرپرستی میں نواب سید محمد نے برطانوی ملازمت اختیار کی اور ڈپٹی مجسٹریٹ ہوئے جو اس زمانے میں ہندوستانیوں کے لیے سب سے اعلیٰ عہدہ سمجھا جاتا تھا۔ نواب عبداللطیف کی بیٹی شائستہ سہروردی کی نانی ہوئیں۔

یہ خاندان ایک قدامت پرست خاندان تھا اور اسے اپنی قدامت پرستی پر ناز تھا۔ ان کے خاندان میں لڑکوں کی انگریزی تعلیم کو بھی ناپسند کیاجاتا تھا ، ایسے میں  لڑکیوں کی جدید تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ انھیں گھر پر اردو اور فارسی کے ساتھ عربی کی تعلیم دی جاتی تھی۔

شائستہ سہروردی کی والدہ کی شادی حسان سہروردی سے ہوئی جو بنگال کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور جن کے والد جدید تعلیم کو ترقی کا ذریعہ جانتے تھے۔ حسان سہروردی بعد میں لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر حسان سہروردی کے نام سے مشہور ہوئے اور برطانوی سرکار سے انھیں ’’سر‘‘ کا خطاب بھی ملا۔ قدامت پرست نانا، جدید خیالات رکھنے والے دادا اور ولایت پلٹ والد نے شائستہ سہروردی کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

ان کے ددھیال میں لڑکیوں کی تعلیم کا آغاز انیسویں صدی کے آخر سے ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پھوپھی خجستہ بانو سہروردی کا نام اردو کی اولین مستند لکھنے والیوں میں ہوتا ہے۔ خاندان میں خجستہ بانو کے احترام و تکریم کے سبب ان کے بعد پیدا ہونے والی لڑکیوں کے نام میں ’’ عرصۂ دراز تک’ اختر بانو ‘ ایک لازمی جزو رہا۔

شائستہ اختر بانو سہروردی کی ابتدائی تعلیم کلکتہ کے ایک پرائیویٹ کنڈر گارٹن اسکول میں ہوئی جہاں ان کے اور ان کے بھائی کے سوا سب بچے انگریز یا اینگلو انڈین تھے۔ والد کے زیر اثر انگریزی اور والدہ شہر بانو بیگم کی وجہ سے فارسی اور اردو کے ساتھ مذہبی تعلیم انھیں ابتداء سے ملی۔ انھوں نے اپنے گھر کے ماحول کو مشرق و مغرب کا پُر اثر امتزاج لکھا ہے۔

ان کی تعلیم کلکتہ یونیورسٹی کے لوریٹو ہاؤس کونونٹ میں ہوئی جہاں سے انھوں نے بی اے آنرز کیا۔ اس کے فوراً بعد ان کی شادی 1933 میں ایک آئی سی ایس افسر محمد اکرام اللہ سے ہوگئی جنھیں اپنی سرکاری مصروفیات کے سبب انگلستان جانا پڑا۔

بیگم شائستہ اپنے بچوں کے ساتھ 1937 میں لندن گئیں۔ وہاں انھوں نے اسکول آف اروینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز میں داخلہ لیا اور پھر لندن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پہلی ہندوستان مسلمان خاتون تھیں جنھیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔

انھوںنے اپنی تحریری زندگی کی ابتداء دلی سے شایع ہونے والے مشہور رسالے ’’ عصمت ‘‘ سے کی اور گزشتہ دنوں ماہانہ ’’عصمت‘‘ میں 1934سے 1988 کے درمیان شایع ہونے والے ان کے مضامین کا ایک انتخاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شایع ہوچکا ہے۔ یہ انتخاب احمد سلیم نے کیا ہے۔

ان کا پی ایچ ڈی مقالہ A Critical Survey of the Development of the Urdu Novel and Short Story 1945 میں انگلستان سے شایع ہوا تھا اور عرصے سے نایاب تھا لیکن اب ایک بار پھر شایع ہوا ہے۔ ان کی خود نوشت From Purdah to Parliament کے نام سے شایع ہوئی ہے۔ یہ کتاب اردو میں ’’ پردے سے پارلیمنٹ تک ‘‘کے عنوان سے سامنے آئی۔ اس کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابیں ہیں جن میںاپنے چچا زاد بھائی اور اس عہد کے اہم سیاستدان حسین شہید سہروردی کی زندگی پر بھی ایک کتاب شامل ہے۔ یہ وہی حسین شہید سہروردی ہیں جو پاکستان کے وزیر اعظم بھی رہے۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ 1940 میں جب ہندوستان واپس آئیں تو ہندوستان کی دنیا بدل چکی تھی۔ سیاست کے میدان میں گرما گرمی تھی، انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان تناؤ بڑھ رہا تھا برطانوی سرکار دوسری جنگ عظیم کے عذاب میں گرفتار تھی۔ سیاست کے اسٹیج پر گاندھی جی، محمد علی جناح، پنڈت نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد اور دوسرے مسلمان اور ہندو رہنما سر گرم عمل تھے۔ شائستہ کے گھر میں دہائیوں سے سیاست کا چرچا تھا۔

اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ وہ جب ہندوستان پہنچیں تو اس کے کچھ دنوں بعد اکتوبر 1941میں اپنے والد کے ساتھ ان کی ملاقات جناح صاحب سے ہوئی۔ یہ ملاقات ان کی زندگی کا دھارا بدل گئی۔ اس کے فوراً بعدانھوں نے مسلم لیگ کی رکنیت اختیارکی۔ مس فاطمہ جناح کی مدد سے مسلم ویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی اور مسلم لیگ کی سیاست میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔اپنے خاندانی پس منظر، اعلیٰ تعلیم اور سیاست پر گہری نظر کے سبب وہ فوراً ہی مسلم لیگ کے اہم اراکین میں شمار ہونے لگیں۔

1946 میں ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، لیکن پارٹی کی ہدایت پر جلد ہی انھوں نے اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔ تقسیم کے بعد وہ 17ستمبر 1947 کو پاکستان آئیں۔ کراچی میں لٹے پٹے پناہ گزینوں کا سیلاب امڈا ہوا تھا۔ مس فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کی سرکردگی میں بیگم شائستہ اور دوسری خواتین نے ان پناہ گزینوں کی آباد کاری کے لیے جی جان سے کام کیا۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے ۔

’’حکومت پاکستان کو بنے مشکل سے ایک مہینہ ہوا تھا اور وہ جو کچھ کرسکتی تھی کررہی تھی۔ اس کام میں عورتوں نے بڑا حصہ لیا۔ ہزاروں پناہ گزینوں کے کھانے پینے اور ہرطرح کی دیکھ بھال کا ذمے لیا۔ ان میں سے بڑی تعداد کو دوبارہ بسایا گیا۔ سوسائٹی کی خواتین جنھوں نے کبھی کسی قسم کا کام نہیں کیا تھا۔

اب پناہ گزینوں کے کیمپوں میں دن رات کام کررہی تھیں۔ وہ انفرادی طور پر اور مل کر بھی کام کرتی تھیں۔ اپنے دوپٹے پھاڑ کر زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں۔ گھروں سے صابن ، آیوڈین اور کھانا لاتیں۔ کوشش یہ تھی کہ ان جگہوں کو صاف رکھا جائے تاکہ بیماری نہ پھیلنے پائے۔ ادھر ایک اور مصیبت آنے والی تھی یعنی سردی اور ان بیچاروں کے پاس گرم کپڑے نام کو بھی نہ تھے۔ ہم لوگوں نے گھر گھرجاکر کمبل جمع کیے۔ میں بلامبالغہ کہہ سکتی ہوں کہ کوئی گھر چاہے کیسا ہی متمول کیوں نہ ہو ایسا نہیںرہا جہاں ضرورت سے زیادہ گرم کپڑا باقی رہا ہو۔‘‘

فروری 1948 میں وہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی رکن ہوئیں۔ 79 اراکین کی اسمبلی میں صرف دو خواتین تھیں جن میں سے ایک بیگم جہاں آراء شاہنواز تھیں اور دوسری بیگم شائستہ اکرام اللہ۔ وہ لگ بھگ سات برس تک رکن اسمبلی کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں۔ اس کی تفصیل ہمیں ان کی کتاب ’’ پردے سے پارلیمنٹ‘‘ تک میں ملتی ہے۔

32 برس کی شائستہ ہماری آج کی بعض خواتین اراکین اسمبلی کی طرح چپ کا روزہ رکھنے والیوں میں سے نہیں تھیں۔ انھوں نے 24 فروری 1948 سے اسمبلی میں اپنی اختلافی رائے کو کھل کر بیان کیا اور اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کامباحثہ رہا۔ اسمبلی میں ان کی پہلی تقریر مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان اراکین کی حمایت میں تھی جنھوں نے تجویز رکھی تھی کہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ایک مرتبہ کراچی اور ایک مرتبہ ڈھاکا میں ہو تاکہ دونوں طرف کے لوگوں کو آئین ساز ی اور قانون سازی میں شراکت داری کا احساس ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈھاکا ایک بڑا شہر ہے اگر مغربی پاکستان کے نمایندے سال میں ایک مرتبہ وہاں جائیں گے تو ان کو سفر میں بس اتنی ہی زحمت ہوگی جتنی مشرقی پاکستان والوں کو دارالحکومت کراچی کے سفر میں ہوتی ہے۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔