بیرون ملک مقیم مٹھی بھر بد تمیزپاکستانی

مزمل سہروردی  بدھ 28 ستمبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست میں بدتمیزی کا کلچر دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کارکن سر عام پبلک مقامات پر اپنے سیاسی مخالفین اور مخالف سیاسی قیادت کے ساتھ بد تمیزی کرتے ہیں۔

حال ہی میں لندن میں مریم اورنگزیب کے ساتھ پیش آنے و الا واقعہ اسی کلچر کی نشاندہی کر رہا ہے، لیکن یہ کوئی پہلا واقعہ نہیںہے، ایک تسلسل کے ساتھ اس سیاسی جماعت کے کارکن یہ حرکتیں کر رہے ہیں۔ ویسے تو ہمیں پاکستان کے اندر بھی یہ کلچر نظر آرہا ہے لیکن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ایک مخصوص گروہ نے تو اس معاملے میں تمام حد یں پار کر لی ہیں۔

ان مٹھی بھر اوورسیز پاکستانیوں کی بد تمیز یاں حیران کن ہیں، ان کی بد تمیز یاں بتا رہی ہیں کہ یہ کوئی پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں، یہ اپنی زندگیوں میں ناکام لوگ ہیں۔ تہذیب یافتہ اور امیر ملک میں رہنے کے باجود تہذیب ان کے پاس سے نہیں گزری۔ اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں بد تمیزی کرنے والے یہ لوگ وہاں بھی کوئی کامیاب لوگ نہیں ہیں۔ یہ بیرون ملک میں پاکستان کا کوئی روشن چہرہ نہیں ہیں۔ ہمارے لیے کوئی باعث فخر نہیں ہیں۔ یہ وہاں جا کر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے بلکہ جیسے پاکستان میں ناکام تھے، ویسے ہی وہاں بھی ناکام ہی ہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی وہاں کی غریب ترین کمیونٹی ہے۔ کیا جو لوگ احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ،ان میں اکثریت وہاں بے روزگاری الاؤنس پر گزارا نہیں کرتی۔ اکثر لوگ ویلفیئر کونسل کے گھروں میں رہتے ہیں۔ یعنی برطانوی حکومت کو کہتے ہیں کہ ہم بے گھر ہیں ،یوں حکومت ان کو رہنے کے لیے گھر دیتی ہے۔ ایسی کہانیاں بھی سننے کو مل جاتی ہے کہ میاں بیوی جعلی علیحدگی ظاہر کرتے ہیں تا کہ حکومت سے مزید مراعات لی جا سکیں۔ دوسر اگھرا جا سکے ۔

اس طرح یہ وہاں کے غریب ترین لوگ ہیں جو سرکاری خرچ پر پل رہے ہیں۔بلکہ ایسے لوگ برطانوی حکومت پر بھی بوجھ ہیں کیونکہ برطانیہ کے ٹیکس پیئرز کی کمائی مفت خوروں پر خرچ ہوتی ہے، اس لیے انھیں وہاں بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ بے روزگار ہونے کی وجہ سے فارغ ہیں، اس لیے ہر جگہ نظر آتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہے۔انھوں نے ترقی یافتہ ملکوں میں رہ کر بھی کوئی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل نہیں کی، یہ وہاں رہ کر بھی جاہل رہ گئے ہیں، بس جین ، شرٹس اور جیکٹس پہنی آگئی ہے ورنہ وہاں جس کے پاس کام ہے اس کے پاس ایسے کاموں کے لیے فرصت ہی نہیں ہے۔

ان میں سے کوئی یہ بتا نہیں سکتا کہ وہ کیا کام کرتا یا کرتی ہے۔ اس کا ذریعہ معاش کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ لوگ پاکستان کی پاور پولیٹکس کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتے۔ ان کا پاکستان اور پاکستان کے مسائل کے بارے میں علم اور فہم بہت ناقص ہے۔

اگر یہ برطانیہ میں اتنے ہی با اثر اور کامیاب ہوتے تو عمران خان کے چار سالہ وزارت عظمیٰ کے دور میں عمران خان کو برطانیہ کے سرکاری دورے کی ایک دعوت ہی دلوا دیتے۔ عمران خان کے دور وزارت عظمیٰ میں انھیں برطانیہ اسے ایک بار بھی دورے کی دعوت نہیں ملی۔ اس لیے ان کا وہاں کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ کامیاب پاکستانی جنھوں نے برطانیہ میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے۔

وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں بالکل نظر نہیں آتے۔ وہ تو ان غریب، ان پڑھ اور بد تمیز پاکستانیوں سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے۔بلکہ ان سے دور ہی رہتے ہیں۔ ویسے تو یہ کوئی زیادہ تعداد میں نہیں ہیں۔ ہم نے دیکھاہے کہ بد تمیزی کے واقعات میں چند لوگ ہی بار بار آتے ہیں، لیکن پھر بھی ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ اوور سیز پاکستانی بد تمیز اور جاہل ہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ جنھوں نے کسی اور ملک کی شہریت لے لی ہے، ان کا پاکستان کی قسمت کے فیصلے کرنے میں کسی بھی قسم کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔

جب آپ نے کسی اور ملک سے وفاداری کا حلف اٹھا لیا تو آپ پاکستان کا فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ میں دہری شہریت کے قانون کے بھی خلاف ہوں۔ ان کی پہلی ترجیح پاکستان نہیں ہوتا۔ ان کی گفتگو میں بھی پاکستان کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ پاکستان کو برا بھلاکہنے کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ ان کے ساتھ بیٹھو اور پاکستان کی برائیاں سن لو۔ یہ پاکستان کا کیا فیصلہ کریں گے۔ اس لیے میں دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حق میں نہیںہوں۔

سڑکوں پر چوراہوں پر خواتین کو گالیاں نکالنا ہماری تہذیب نہیں۔ لوگوں کے گھروں کے باہر کھڑے ہو کر گالیاں نکالنا ہماری تہذیب نہیں۔ مسجد نبوی میں بھی ایسا ہی کیا گیا لیکن اب جب وہاں سزائیں دی گئی ہیں تو رانا ثناء اللہ کے جانے پر کسی کو کچھ کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ رانا ثناء االلہ اکیلے مسجد نبوی میں بیٹھے نظر آئے ، لوگ انھیں عزت سے مل رہے تھے۔بد تمیز گینگ اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔

میں یہ بھی نہیں مانتا کہ بیرون ملک مقیم یہ اوور سیز پاکستانی کوئی پاکستان کی خدمت کرتے ہیں، جو رقوم یہ بھیجتے ہیں وہ یہ اپنے عزیزوں کو بھیجتے ہیں۔پاکستان کو نہیں بھیجتے۔ آپ ان سے پاکستان کے لیے کچھ مانگیں اور نتیجہ دیکھ لیں۔ سابق چیف جسٹس ڈیم فنڈ کے لیے چندہ اکٹھا کرنے ان کے پاس گئے تھے، کیا ملا۔ یہ لوگ سیاستدانوں پر خرچ کرتے ہیں تا کہ ان کے ذریعے اپنے کام کرا سکیں۔ وہی پیسے انھیں پاکستان کو دینے کے لیے کہیں تو ان کے بہانے سننے والے ہوںگے۔ ویسے بھی بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات کا بڑا حصہ گلف اور عرب ممالک سے آتا ہے۔ ان کا گھر پیسے بھیجنا مجبوری ہے۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ ان بدتمیز اوور سیز پاکستانیوں کی حمایت کم ہے۔ لوگ ان کی بدتمیزیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ ہم اوور سیز کی بد تمیزیاں سوشل میڈیا پر بھی دیکھتے ہیں۔ یہ وہاں بھی گالیاں دینے کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔

یہ دلیل سے نہیں گالی سے بات کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بھی سنجیدہ لوگ ان کو پسند نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا کی گالم گلوچ نے بھی پاکستان کے معاشرہ اور سیاسی کلچر کو بہت آلودہ کیا ہے۔ یہ پاکستان کے کلچر کا عکاس نہیں ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ پاکستان کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔ سنجیدہ لوگ ان کو جواب نہیں دیتے۔ ہر کوئی ان سے اپنی عزت بچانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کے ڈان بن گئے ہیں، جن سے کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے۔

میری رائے میں بد تمیزی کے اس کلچر کے خلاف مضبوط آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، ان کی مذمت کرنا ضروری ہے۔ ایک سیاسی جماعت ان کو اپنے سیاسی مفاد میں ضرور استعمال کر رہی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں عوام میں ان کی حمایت کم ہے۔ عام پاکستانی ان کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ یہ پاکستان کا کلچر نہیں ہے۔ نئی نسل کو بدتمیز بنانے کی کوشش کوئی پاکستان کی خدمت نہیںہے اور ملک کے کسی مفاد میں نہیں، یہ پاکستان کے لیے باعث شرمندگی ہے۔سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی نہیں بنانا چاہیے۔

سیاسی اختلاف کو تہذیب کے دائرے میں رکھنا ہی سیاست ہے۔ گالی سے کوئی تبدیلی نہیں آتی بلکہ ووٹ کی طاقت سے تبدیلی آتی ہے۔ لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی گالیوں اور بد تمیزی سے تبدیلی آئے گی جو افسوسناک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔