سمارٹ فون کے بغیر زندگی: ’ لگتا ہے جیسے میرے دماغ سے دباؤ اتر گیا ہو‘

سوزین بیرنی  جمعرات 29 ستمبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ایک ایسی دنیا میں جہاں ہم میں سے اکثر لوگ ہر وقت اپنے سمارٹ فون سے بندھے رہتے ہیں، وہیں ایک ایسی خاتون بھی ہیں جنھوں نے اپنے سمارٹ فون کو خیرباد کہہ دیا ہے۔

ہم بات کر رہے ہیں 36 سالہ ڈلسی کاؤلنگ کی جنھوں نے گزشتہ برس کے آخری دنوں میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنی ذہنی صحت بہتر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سمارٹ فون سے پیچھا چھڑا لیا جائے۔ چنانچہ کرسمس کے دن انھوں نے اپنے گھر والوں اور دوستوں کو بتا دیا کہ وہ واپس اپنے پرانے ’ نوکیا ‘ فون پر جا رہی ہیں، یعنی وہ فون جس سے آپ صرف کال اور ٹیکسٹ میسج بھیج یا وصول کر سکتے ہیں۔

ڈلسی کو وہ لمحہ اچھی طرح یاد ہے جب انھوں نے سمارٹ فون سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن وہ اپنے دونوں ( تین اور پانچ سالہ ) بیٹوں کے ساتھ ایک پارک میں بیٹھی اپنے فون پر کچھ دیکھ رہی تھیں۔ ’ میں پارک میں بچوں کے کھیل کود والے حصے میں بیٹھی تھی۔

فون استعمال کرنے کے دوران میں نے اوپر نظر اٹھا کے دیکھا تو وہاں تقریباً بیس مائیں یا بچوں کے والد موجود تھے اور یہ سب اپنے اپنے فون میں مصروف تھے۔ ہر کوئی بس یوں ہی اپنے سمارٹ فون کی سکرین پر مسلسل سکرول کر رہا تھا۔‘

’میں نے سوچا یہ کب سے ہونا شروع ہو گیا ؟ ہر کوئی حقیقی زندگی سے دور ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ جب آپ بستر مرگ پر ہوں گے تو یہ نہیں سوچ رہے ہوں گے کہ کاش ! میں ٹوئٹر پر مزید وقت گزار لیتا یا انٹرنیٹ پر کوئی اور مضمون پڑھ لیتا۔‘

ڈلسی کاؤلنگ لندن کی ایک اشتہاری کمپنی کے تخلیقی شعبے کی سربراہ ہیں۔ اْن کا مزید کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران اْن کے ذہن میں یہ خیال تقویت پکڑتا رہا کہ سمارٹ فون سے جان چھڑانا بہت ضروری ہے۔ میں نے سوچا کہ میں اپنے دن کا بیشتر حصہ سمارٹ فون پر ہی گزار رہی ہو اور یہ کہ اس کی بجائے میں اور کیا کر سکتی ہوں۔ سمارٹ فون پر دستیاب بہت سی سہولیات سے ہر وقت جڑے رہنے سے آپ کی توجہ بٹی رہتی ہے مگر اس کام میں خاصی ذہنی توانائی صرف ہو جاتی ہے۔‘

سمارٹ فون کو ترک کرنے کے بعد اب ڈلسی کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ زیادہ پڑھا کریں گی اور سویا کریں گی۔ اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں ہر دس میں سے نو افراد کے پاس سمارٹ فون موجود ہے، اور زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں سمارٹ فون استعمال کرنے والوں کا تناسب بھی یہی ہے۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ہم روزانہ اوسطاً 8.4 گھنٹے فون پر گزارتے ہیں لیکن کچھ لوگ ، جن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ اب بہت ہو چکا۔ مثلاً تعلیمی امور اور ٹیکنالوجی کے ماہر، ایلکس ڈنیڈن کو بھی اپنا سمارٹ فون پھینکے ہوئے دو برس ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سمارٹ فون کا رواج اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ ہمیں اس کی لت پڑ گئی ہے۔ سمارٹ فون ’ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو کمزور کر رہے ہیں اور ہمارے کام کاج کی صلاحیت کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔‘

تاہم سکاٹ لینڈ کے رہائشی، ایلکس ڈنیڈن کہتے ہیں کہ ان کے سمارٹ فون ترک کرنے کی وجہ یہ تھی کہ قدرتی ماحول پر اس کے بْرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ’ہم (سمارٹ فون ٹیکنالوجی) پر بے تحاشا توانائی خرچ کر رہے ہیں اور اس سے بے شمار کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہو رہی ہے۔‘

کیا سمارٹ فون ترک کر دینے کے بعد ایلکس زیادہ خوش ہیں اور وہ زیادہ کام کر رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اْن کا کہنا تھا کہ اب ان کے پاس پرانے زمانے کا موبائل فون بھی نہیں ہے اور انھوں نے گھر پر بھی فون نہیں لگوایا ہے۔

اس کی بجائے اب وہ دوسرے لوگوں سے رابطے کے لیے اپنے گھر پر رکھے ہوئے کمپیوٹر پر صرف ای میل استعمال کرتے ہیں۔ ’ اس سے میری زندگی بہتر ہو گئی ہے۔ اب میرا دماغ ہر وقت کسی مشین سے نہیں بندھا رہتا اور مجھے اس مشین پر نہ توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے اور نہ کوئی پیسہ۔ میرا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی کا نقصان یہ ہے کہ اس کے استعمال سے ہماری زندگیاں خالی ہوتی جا رہی ہیں۔‘

لیکن شعبہ تدریس سے منسلک برمنگھم سے تعلق رکھنے والی 53 سالہ لِن وائس نے چھ ماہ کے وقفے کے بعد اب دوبارہ سمارٹ فون استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دوبارہ سمارٹ فون خریدنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انھیں ہچکچاہٹ ہو رہی تھی لیکن انھوں نے اس کا استعمال اس لیے شروع کر دیا کیونکہ اب ریستورانوں وغیرہ میں آپ کو فون پر محکمہ صحت کی جانب سے بھیجا گیا پیغام دکھانا پڑتا ہے کہ آپ کو کووِڈ نہیں۔ اس کے علاوہ سمارٹ فون کے ذریعے اْن کے لیے پیرس میں مقیم اپنی بیٹی سے رابطہ رکھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔

لیکن لِن وائس کہتی ہیں کہ اگر ممکن ہوا تو وہ سمارٹ فون کو دوبارہ ترک کر دیں گی۔ ’جب یہ وبا ختم ہو جائے گی اور (میری سب سے بڑی بیٹی) ایلا واپس آ جائے گی تو ہو سکتا کہ میں سمارٹ فون استعمال کرنا پھر چھوڑ دوں۔ لگتا ہے کہ سمارٹ فون نشے کی لت جیسا ہے، ہے ناں۔‘

سنہ 2016 میں جب لِن وائس نے سمارٹ فون استعمال کرنا چھوڑا تھا تو اس کا مقصد اپنی بیٹیوں کو ترغیب دینا تھا کہ وہ بھی ہر وقت اپنے موبائل فونز سے نہ چمٹی رہا کریں۔ ’ میری بیٹیاں ہر وقت اپنے سمارٹ فونز سے چمٹی رہتی تھیں۔

میں نے سوچا کہ ان کی یہ عادت چھڑانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ میں اپنے فون سے جان چھڑا لوں۔ اس سے بہت فرق پڑا تھا۔ مثلاً جب بھی ہم ریستوران جاتے تھے تو میری بیٹیاں دیکھتی تھیں کہ میں نے اپنا فون نہیں اٹھایا ہوا۔ لِن وائس کے بقول سمارٹ فون پاس نہ ہونے سے ’مجھے لگتا تھا جیسے میرے دماغ سے دباؤ اتر گیا ہو۔ مجھے لگتا تھا کہ اب فوراً کسی کے پیغام کا جواب نہیں دینا اور گھر سے باہر ہوتے ہوئے بھی لوگوں کو دستیاب نہیں ہونا۔‘

اگرچہ کچھ لوگوں کو فکر ہے کہ وہ اپنے سمارٹ فون پر بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں، لیکن کروڑوں لوگ سمارٹ فون کو ایک نعمت سمجھتے ہیں۔ برطانیہ کی موبائل کمپنی ’ووڈا فون‘ کے ترجمان کے مطابق لاکھوں لوگوں کی زندگی اب سمارٹ فون کی ڈور سے بندھی ہوئی ہے، کیونکہ ماضی کی نسبت اب صحت کی سہولیات ، تعلیم ، حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی دیگر سہولیات، آپ کے دوست اور خاندان والے سب سمارٹ فونز کے ذریعے آپ سے جْڑے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ ہم لوگوں کے لیے ایسے ذرائع پیدا کر رہے ہیں جن کے ذریعے وہ ٹیکنالوجی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ہم یہ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ جب لوگ انٹرنیٹ پر آئیں تو وہ محفوظ رہیں۔ یہ چیز بہت زیادہ اہم ہے۔‘

تاہم، ماہر نفسیات اور موبائل فون کی عادت کے مضر اثرات پر ایک کتاب (فون ایڈکشن ورک بْک) کی مصنفہ، ہلڈا برک کے بقول موبائل فون کے بے دریغ استعمال اور آپ کے نجی تعلقات، آپ کی نیند، فون بند کر کے سکون حاصل کرنے اور کسی چیز پر توجہ مرکوز رکھنے جیسی چیزوں کے درمیان بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔

’ بہت سے لوگوں کو اپنے فون پر مسلسل پیغامات وصول کرنے اور ان کے جواب دینے کی عادت پڑ جاتی ہے، اور انھیں لگتا ہے کہ ہر پیغام کو دیکھنا اور جواب دینا ضروری ہوتا ہے، حالانکہ ان میں سے بہت سے پیغامات فوری نوعیت کے نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کے لیے حدود کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر رات سونے سے پہلے اور صبح جاگتے ہی ای میل دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘

اگر آپ کو لگتا ہے کہ سمارٹ فون سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے لیکن آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ فون پر بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں، تو آپ کچھ ایسی چیزیں کر سکتے ہیں جن سے سمارٹ فون کا استعمال کم ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ شروع میں آپ کو لگے کہ آپ نے ایک نئی مصیبت پال لی ہے، لیکن اب ایسی کئی ایپس آ گئی ہیں جن کی دولت آپ بغیر سوچے سمجھے فون پر سکرول کرنے کی عادت کو کم کر سکتے ہیں۔

مثلاً ’فریڈم‘ نامی ایپلیکیشن سے آپ عارضی طور پر اپنے سمارٹ فون کی ایپس اور ویب سائٹس کو روک سکتے ہیں اور اپنی توجہ کسی دوسری چیز پر لگا سکتے ہیں۔ اسی طرح ’آف دا گرِڈ‘ نامی ایپ سے آپ مخصوص وقت کے لیے اپنے فون کو آف کیے بغیر بند بھی کر سکتے ہیں۔

ہلڈا برک کہتی ہیں کہ اگر زیادہ سے زیادہ لوگ یہ دیکھنا شروع کر دیں کہ وہ موبائل فون پر کتنا وقت گزار رہے ہیں تو یہ ترکیب بھی خاصی مفید ہو سکتی ہے۔’ اگر ہمیں یہ احساس ہو جائے کہ ہم ہر روز کتنا وقت بلاوجہ فون پر انگلیاں گھماتے ضائع کر دیتے ہیں، تو یہی احساس ہمیں جگانے کے لیے کافی ہو گا اور ہمیں اپنی روش بدلنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘

اس کے علاوہ وہ یہ مشورہ بھی دیتی ہیں کہ آپ شروع شروع میں کچھ وقت کے لیے اپنا فون بند کریں یا اسے گھر چھوڑ جائیں، اور پھر آہستہ آہستہ اس وقفے میں اضافہ کرتے جائیں۔ اور آخر میں مِس برک کہتی ہیں کہ سمارٹ فون پر وقت ضائع کرنے سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے فون کی سکرین پر کوئی ایسا لفظ لکھیں یا تصویر لگائیں جو یہ ظاہر کرے کہ اگر آپ فون پر نہ ہوتے تو کیا کر رہے ہوتے۔

’ ہم میں سے اکثر لوگ روزانہ کم از کم 55 مرتبہ، اور کچھ لوگ ایک سو مرتبہ اپنا فون دیکھتے ہیں، تو ایسے میں یہ لفظ یا تصویر ہمیں یہ یاد دلانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے کہ ہمیں اپنا قیمتی وقت اس چیز پہ صرف کرنا چاہیے جو ہمارے لیے زیادہ قیمتی ہے۔‘

( بشکریہ بی بی سی )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔