صوتی آلودگی آبی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ

 سمندروں کے شور کو کم کرکے نہ صرف سمندری حیات بلکہ اپنے ماحول کو بھی صحت مند بنایاجاسکتا ہے


ٹم شاؤئنبرگ September 29, 2022
فوٹو : فائل

بہت زیادہ شور نہ صرف زمین پر بسنے والے جانداروں کے لیے باعث تکلیف ہوتا ہے بلکہ یہ آبی حیات کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ انسان سمندروں کے اندر کے شور کو کم کر سکتا ہے، جو ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔

پانی کے اندر بسنے والے جاندار صرف آوازوں کی مدد سے ابلاغ کا کام لیتے ہیں، یا یوں کہہ لیجیے کہ گفتگو کرتے ہیں۔ سمندر کے پانیوں میں رہنے والے جاندار مخصوص آوازوں کو بطور نیویگیٹر استعمال کرتے ہیں۔ پانی کے اندر یہ مدھم اور سریلی آوازیں ہی ان جانداروں کو اپنے ساتھی تلاش کرنے، حملوں سے بچنے کے لیے اور شکار کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سمندری مخلوقات کی بقاء کے لیے یہ آوازیں انتہائی اہم ہوتی ہیں۔ لیکن زیادہ شور کی وجہ سے وہ یہ آوازیں سننے میں ناکام بھی ہو سکتے ہیں۔

امن کی تباہی

اگر سمندری جاندار آوازیں سننے سے قاصر یا ان کی درست شناخت میں مشکلات کا شکار ہو جائیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ ان کی زندگی معمول کے مطابق نہیں چل سکے گی، یہ پیش رفت ان کی موت کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ انسانی ترقی کی وجہ سے سمندروں میں آلودگی تو پیدا ہو ہی رہی ہے لیکن ساتھ ہی پانی کے اندر کا ایک مخصوص صوتی اثر (ساؤنڈ سسٹم) بھی متاثر ہو رہا ہے۔ سمندری حیاتیات کی ماہر لنڈے ویگارٹ کا کہنا ہے کہ پانی کے اندر غیر ضروری آوازوں کی آمیزش سے جو شور پیدا ہوتا ہے، وہ آبی حیات کے لیے قابل فہم نہیں ہوتا۔

کینیڈا کی ڈیلہاؤزی یونیورسٹی سے وابستہ لنڈے کے بقول '' یہ جاندار اس شور کی وجہ سے بعض اوقات حملہ آور جانوروں سے خود کو محفوظ بھی نہیں رکھ سکتے، کیونکہ وہ خطرے کی گھنٹی والی ان آوازوں کو سن ہی نہیں سکتے، جو وہ قدرے ساکت پانیوں میں پہلے بخوبی سن سکتے تھے''۔

جہاز رانی کی صنعت

بحری جہازوں سے پیدا ہونے والا شور سمندری خاموشی کو نقصان پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی تجارت کا نوے فیصد سامان بحرتی راستوں سے ہی ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔ بالخصوص شپنگ روٹس پر ان بحری جہازوں کا شور بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ پچاس برسوں کے دوران اس شور میں بتیس گنا اضافہ ہوا ہے۔ بحری جہازوں کو ماحول دوست بنانے اور ان سے پیدا ہونے والے شور کو کم کرنے کے ماہر ماکس شوسٹر نے بتایا کہ اگر کوشش کی جائے تو اس صوتی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ماکس کے مطابق بالخصوص کارگو بحری جہازوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرتے ہوئے ان مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس میں ابھی مزید ترقی کی بہت گنجائش ہے۔

کم مداخلت کم تباہی

یہ تو واضح ہے کہ انسان جتنا کم مداخلت کرے گا، ایکو سسٹم اتنا ہی کم متاثر ہو گا۔ یہ سب شور انسان کا ہی پیدا کردہ ہے۔ ونڈ ٹربائین کا شور بھی سمندری حیات کے لیے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ تاہم تحفظ ماحول کی خاطر توانائی کے متبادل ذرائع میں یہ ٹیکنالوجی کلیدی قرار دی جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے سن دو ہزار پچاس تک دنیا بھر میں ایسے ڈیرھ لاکھ ونڈ ٹربائین لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

یاد رہے کہ ایک ونڈ ٹربائین کا پانی کے اندر شور ویسا ہی ہوتا ہے، جیسا کہ کسی مسافر طیارے کا لینڈنگ یا اڑتے وقت ہوتا ہے۔ خود سوچ لیجیے کہ یہ شور آبی حیات کو کیا کیا نقصانات پہنچا سکتا ہے۔ ماہرین کا البتہ کہنا ہے کہ اس شور کو کم کرنے کی خاطر 'ببل کنٹینر' کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

تیل اور گیس کی تلاش

کارگو بحری جہاز ہوں یا قدرتی وسائل کی تلاش میں نکلے ہوئے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ بحری بیڑے۔ یہ سبھی قدرت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ تیل اور گیس کی ڈرلنگ کی وجہ سے سمندروں میں ہونے والا شور ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس سے نہ صرف حیاتیاتی تنوع متاثر ہو رہی ہے بلکہ عالمی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ اس عمل کو موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک اہم وجہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر سمندروں کی تہہ سے تیل اور گیس نکالنے کا کام روک دیا جائے تو سمندری پانیوں میں خود بخود ایک سکون آ جائے گا۔ یہ تو اب واضح ہے کہ ڈرلنگ کی وجہ سے سمندری تہوں میں زلزلے کی کیفیت برپا ہو جاتی ہے۔

لنڈے ویگارٹ کا اصرار ہے کہ اگر سمندروں میں قدرتی وسائل کی تلاش کا کام روکا نہیں جا سکتا تو کم ازکم ایسی ٹینکالوجی استعمال کی جائے، جس سے سمندری تہوں کو کم نقصان پہنچے۔ ان کے بقول مثال کے طور پر دھماکوں کے بجائے ایک مخصوص ایئر گن کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ قدرتی وسائل کے لیے سمندری تہوں کو کاٹنے کے لیے یہ ایئر گن مسلسل وائبریشن پیدا کرتی ہے، جس کی آواز انسانی کان کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے تاہم یہ ان بڑے دھماکوں کے مقابلے میں سمندری سکون کے لیے کم نقصان دہ ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں