معیشت کے لیے مثبت اشارے

ایڈیٹوریل  جمعرات 29 ستمبر 2022

پاکستان میں سیلاب اور بارشوں سے جو تباہی ہوئی ہے، اس کے حوالے سے عالمی برادری کا کردار خاصا بہتر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اچھا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے اقوام عالم پاکستان میں ہونے والی تباہی سے آگاہ ہوئی اور انھیں یہ بھی پتہ چلا کہ یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث رونما ہوا، انھیں اس حقیقت کا بھی پتہ چلا کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی ذمے داری صنعتی ترقی یافتہ ملکوں کی وجہ سے ہوا ہے ۔ ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک ماحولیاتی آلودگی اور زہریلی گیسز کے اخراج کے ذمے دار ہیں اور وہ اس حوالے کوئی معاہدہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہ حقائق اپنی جگہ رہے ، لیکن دنیا نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا اور پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔عالمی مالیاتی اداروں نے بھی مثبت کردار ادا کیا، امریکا ، یورپی یونین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عوامی جمہوریہ چین، ترکی اور قطر نے بھی پاکستان کی بھر پور مدد کی ہے۔

پاکستان اور امریکا کے درمیان سرد مہری بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں لیکن یہ تعلقات ختم نہیں ہوئے،آج بھی امریکا اور پاکستان میں تعلقات موجود ہیں اور جو سرد مہری گزشتہ کچھ عرصے سے چل رہی تھی، وہ بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔

امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پاکستان اور امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ منانے کی تقریب ہوئی۔ میڈیا کے مطابق اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے پاکستان میں سیلاب زدگان کے لیے 56 کروڑ ڈالر کے علاوہ اضافی ایک کروڑ ڈالر کا اعلان کیا ہے، پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس پر امریکا کا شکریہ ادا کیا۔

واشنگٹن میں بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں انتھونی بلنکن نے کہا کہ ہم ایک سادہ پیغام بھیجتے ہیں کہ ہم پاکستان کے لیے اسی طرح ہیں جیسے ماضی کی قدرتی آفات کے دوران تھے اور دوبارہ تعمیر کے منتظر ہیں۔

انھوں نے اپنے ساتھیوں پر قرضوں میں ریلیف اور تنظیم نو کے کچھ اہم معاملات پر چین کو شامل کرنے کے لیے زور دیا تاکہ پاکستان زیادہ تیزی سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نکل سکے۔ پاکستان کے وزیر خارجہبلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی انصاف کا خواہاں ہے ، پاکستان آبپاشی، مواصلات، توانائی، زرعی ٹیکنالوجی اور صحت جیسے شعبوں میں بہتر، سرسبز اور موسمیاتی لچکدار انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے پرعزم ہے۔

ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی بحران کا موثر طریقے سے سامنا کرنے میں مدد کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے،بلاول بھٹو زرداری نے خطے میں امن، سلامتی اور اقتصادی خوشحالی کے فروغ کے لیے پاکستان امریکا تعلقات کی تاریخی اور بڑھتی ہوئی اہمیت پر زور دیا۔ انٹونی بلنکن نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کا افغانستان کے مستقبل میں مشترکہ مفاد ہے، جس میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ آزادی بھی شامل ہے، جن کے حقوق طالبان نے ایک بار پھر بڑی حد تک سلب کرلیے ہیں۔

افغانستان کے حوالے سے امریکا کا موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت چلانے والوں کو بھی اس موقف کا اچھی طرح معلوم ہے، افغان طالبان نے ہی دوہا میں امریکا کے ساتھ معاملات طے کیے ہیں، اس حوالے سے افغانستان کی حکومت کو ہی اپنا موقف دینا چاہیے، پاکستان تو اتنا ہی کرسکتا ہے کہ وہ افغانستان کے جائز عالمی مطالبات کی حمایت کرے اور پاکستان کی حکومت ایسا کررہی ہے۔

اب یہ افغانستان کی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ امریکا اور دیگر ملکوں تک اپنا موقف پہنچائے اور اپنی اصلاحات و اقدامات کے حوالے سے انھیں اعتماد میں لے۔ اسی طرح امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ افغانستان کی حکومت کا بھی موقف سنیں اور ان کی مجبوریوں اور تحفظات پر غور کرے کیونکہ دوہا مذاکرات میں امریکا نے ہی طالبان کے ساتھ معاملات طے کیے ہیں۔

ادھر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن سے پریس کانفرنس کے دوران سوال کیا گیاکہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کو چین سے قرضوں میں ریلیف لینے کاکہا ہے،کیا چین سیلاب زدہ پاکستان کے لیے ریلیف کا کوئی منصوبہ بنا رہا ہے، جس پر ترجمان نے جواب دیا کہ سیلاب آتے ہی چین حقیقی دوست اور بھائی کے طور پر پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھا، چینی حکومت نے 40 کروڑ یوآن مالیت کی انسانی امداد فراہم کی ، پاکستانی عوام کی سیلاب پر قابو پانے اور گھروں کی تعمیر نو کے لیے بھی بھرپور کوشش جاری رکھیں گے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عوامی جمہوریہ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے ‘ حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے حوالے سے بھی چین مسلسل پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے ‘ ویسے بھی امریکی انتظامیہ کو چین اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے بخوبی علم ہے اور چین کی وزارت خارجہ نے بھی اس حوالے سے اپنا ردعمل دے کر واضح کیا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے اور آیندہ بھی کرتا رہے گا۔

جب کرونا کی عالمی وباء پھیلی تو اس وقت بھی عوامی جمہوریہ چین نے پاکستان کی بہت مدد کی ‘ چین کی ویکسین پاکستان پہنچی جس کی وجہ سے پاکستان میں لوگوں کو کورونا ویکسین ملنا شروع ہوئی ‘ بہرحال چینی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے بہتر کردار ادا کیا ہے اور پاکستان کے عوام کو امید ہے کہ چین کی حکومت پاکستان کی مدد کرتی رہے گی ۔

پاکستان کو درپیش معاشی بحران کے دوران یہ ایک مثبت خبر ہے کہ خام تیل کی عالمی قیمت 80ڈالر فی بیرل سے نیچے آنے سے درآمدی بل کے حجم میں نمایاں کمی کے امکانات اور امریکا یورپ ودیگر ممالک سے سیلاب ریلیف فنڈ کی آمد زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہتر ہونے جیسے عوامل کے باعث ڈالر تنزلی سے دوچار رہا۔ڈالرکی قدر میں گزشتہ تین روز سے کمی ہو رہی ہے‘ اگر یہ سلسلہ مزید جاری رہا اور روپے کی قدر مستحکم ہو گئی تو پاکستان کی معیشت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کے فنڈامینٹلز (بنیاد) اگرچہ کمزور ہیں لیکن اسحاق ڈار کی بطور وزیرخزانہ نامزدگی سے کاروباری طبقے کی سوچ میںتبدیلی ہوئی ہے جس نے ڈالر کی اڑان کو خودکار بریک لگادیے ہیں۔کاروباری طبقے کا اطمینان معیشت کے لیے اچھی خبر ہے۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کا مقدمہ موثر انداز میں پیش ہونے سے بیرونی دنیا سے فلڈ فنڈ کا حجم بڑھنے اور ڈالر کی تنزلی کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں منگل کو بھی تیزی کا تسلسل قائم رہا۔مقامی صرافہ مارکیٹوں میں بھی منگل کو بھی فی تولہ اور دس گرام سونے کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منگل کو سینیٹر کا حلف اٹھالیا اور اگلے روز وزیر خزانہ کا حلف اٹھا لیا ہے۔

ان کے ماضی کے تجربے، کارکردگی اور ماضی میں اسی پوزیشن پر ہونے والے ٹریک ریکارڈ کودیکھتے ہوئے کاروباری برادری کو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں تاہم اس بار تھوڑا سا ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ معیشت کو بہت زیادہ چیلنجز درپیش ہیں،خوش قسمتی سے اس کی واپسی کا وقت اس کے لیے سازگار ہے۔ دنیا سیلاب کی تباہ کاریوں کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی مدد کے لیے کھڑی ہے۔ دوم عالمی اجناس کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔

چار برسوں سے عالمی معیشت بھی بحران کا شکار چلی آ رہی ہے۔ پاکستان کی معیشت بھی اس کی زد میں آئی ہے‘ اب پاکستان کے لیے بہتری کے اشارے سامنے آ رہے ہیں‘ ملک میں سیاسی عدم استحکام ابھی تک موجود ہے تاہم اس کی شدت میں کمی ہوتی نظر آ رہی ہے ‘ پاکستان میں اگر سیاسی استحکام آ جائے تو اس کے معیشت پر مزید اچھے اثرات پڑیں گے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہتر ہوتا جائے گا۔ پاکستان کے لیے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔

ان مواقع سے فائدہ اٹھانا ارباب اختیار کی ذہانت پر منحصر ہے ‘ اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور حکومت کے اکنامک منیجرز انتہائی ذمے داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ‘ملک کے اندر مالیاتی ڈسپلن پیدا کریں ‘ سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے تو اس کے واضح اثرات معیشت پر نظر آئیں گے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ذاتیات سے نکل کر جمہوری اصولوں کو اپنائے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے متفق ہو تو پاکستان ایک دو برس میں ہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔