عوام اور عوامی منتخب نمائندوں میں امتیاز کیوں؟

محمد سعید آرائیں  جمعرات 29 ستمبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں رائج نام نہاد جمہوریت میں عوام ہر پانچ سال بعد اپنے نمایندوں کو منتخب کرکے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں۔1989 میں میرے شہر شکار پور میں مولانا فضل الرحمن اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو کے درمیان راقم کی موجودگی میں یہ بات ہو رہی تھی کہ اب قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا آسان نہیں رہا اور اخراجات ایک کروڑ تک پہنچ گئے ہیں۔

اس بات کو 33 برس ہوگئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اب قومی اسمبلی کے الیکشن پر پچیس تیس کروڑ روپے تک اخراجات ہو سکتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے ارب پتی امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں اور پارٹی کی انتخابی مہم کے لیے بھاری رقم کا چندہ وصول کرتی ہیں جب کہ پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر ارب پتی سیاسی رہنما آزادانہ الیکشن لڑتے ہیں جو اپنے علاقے میں ذاتی اثر و رسوخ اور اپنی دولت کے باعث الیکٹ ایبل قرار دیے جاتے ہیں۔

ہر سیاسی پارٹی میں ایسے ارب پتی موجود ہیں جو الیکشن جیتنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں اور حکومتوں میں شامل ہو کر انتخابی اخراجات سے ڈبل رقم وصول کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ، اس لیے ان کے لیے الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کردینا کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ یہ مسئلہ دینی سیاسی پارٹیوں کے لیے ضرور ہے مگر وہ انتخابی اخراجات عوام سے مانگ لیتی ہیں۔

یوں تو ارکان اسمبلی و سینیٹ کو عوام کے دیے گئے ٹیکسوں کی رقم سے بے شمار مراعات حاصل ہیں اور اب انھیں موٹرویز اور ہائی ویز پر وصول کیے جانے والے ٹول ٹیکس کی ادائیگی سے بھی استثنیٰ دیا جا رہا ہے کیونکہ عوام کے یہ نام نہاد نمایندے ٹول ٹیکس کی ادائیگی کو خود پر مالی بوجھ اور توہین سمجھتے ہیں جب کہ چند لاکھ کی گاڑی پر سفر کرنے والوں کے لیے کوئی چھوٹ یا کمی نہیں مگر عوامی نمایندے اپنی جیب سے ٹول ٹیکس دینے کے بھی روادار نہیں ہیں۔

2020 کے پارلیمانی اصلاحات ایکٹ کے تحت ارکان اسمبلی کو پنشن دی جاتی ہے جب کہ یہ سرکاری ملازم نہیں ہیں جو تیس چالیس سال کی سرکاری ملازمت کرکے پنشن کے حق دار بنتے ہیں اور ان کی تنخواہ سے ہر ماہ کٹوتی بھی ہوتی ہے جس کی رقم انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد ملتی ہے جب کہ ارکان اسمبلی مقررہ مدت کے لیے عوام کی خدمت کے نام پر منتخب ہوتے ہیں اور اکثر اسمبلیوں سے غیر حاضر رہ کر بھی وہ پنشن کے حق دار بنا دیے گئے ہیں۔

حقیقت میں ارکان اسمبلی تنخواہ کے بھی حق دار نہیں ہیں، یہ منتخب ہو کر اپنے اثاثے بڑھاتے رہتے ہیں، ان کے لیے الاؤنسز ہی کافی ہونے چاہئیں۔ ارکان اسمبلی خود ہی اپنی تنخواہ اور مراعات بڑھاتے ہیں اور اپنے مالی و ذاتی مفادات کے لیے سب ایک ہو جاتے ہیں۔

ارکان اسمبلی کو صرف سرکاری اسپتالوں میں علاج کرانے کی سہولت ہونی چاہیے جس طرح ان کے ووٹر کراتے ہیں، اس طرح ان اسپتالوں کی حالت زار بھی بہتر ہوگی، ارکان اسمبلی کو مفت سفر، راشن، بجلی، گیس اور فون کی سرکاری سہولیات ختم کی جائیں کیونکہ عام شہریوں کو یہ سہولیات حاصل نہیں۔ ارکان اسمبلی نہ صرف خود یہ سرکاری مراعات حاصل کر رہے ہیں بلکہ ان کے خاندان بھی انھیں دی رعایت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ارکان اسمبلی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر قسم کے جرائم سے پاک ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ عام لوگوں کے لیے مثالی بنیں اور اسمبلیوں میں گونگوں کی طرح بیٹے رہنے اور محض خوشامد میں ڈیسک بجانے کی بجائے عوام کی اپنی تقاریر میں موثر ترجمانی کریں اور عوام کے مسائل پر آواز اٹھائیں اور ان میں حق بات کہنے کی جرأت ہونی چاہیے کیونکہ یہ عوام کے منتخب نمایندے ہوتے ہیں انھیں سیاسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر عوام کی حقیقی ترجمانی کا حق ادا کرنا چاہیے ، مگر اسمبلیوں میں سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ ارکان اسمبلی اور عوام کے لیے قانون یکساں ہونا چاہیے۔

سرکاری دفاتر میں عوام دھکے کھا رہے ہیں اور اگر کوئی سرکاری افسر رکن اسمبلی کی غلط بات نہ مانے تو ان کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے۔ الیکشن لڑنے کے لیے امیدوار کاNTS ٹیسٹ اور میڈیکلی فٹ ہونا بھی ضروری قرار دیا جانا چاہیے۔ ملک بھر میں عوام بے یار و مددگار جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں غیر محفوظ اور ان کے نمایندے سرکاری گارڈز کے جھرمٹ میں رہنے اور مفت سفر کے عادی ہو چکے ہیں۔

خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے اسمبلیوں میں آتے ہی کیوں ہیں اگر انھیں گارڈ رکھنے کا شوق ہے تو اپنی جیب سے خرچ کرکے پرائیویٹ گارڈ رکھیں۔ہماری اسمبلیاں سرکاری وسائل ہتھیانے، ذاتی مفادات کے حصول، جائیدادیں اور مال بنانے کا ذریعہ ہیں۔ بہت کم ارکان عوام کی خدمت کا حق ادا کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔