- پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان اضافی ریونیو پر اتفاق
- والدین اور بھائیوں نے بہن کو قتل کرکے لاش تیزاب میں ڈال دی
- کبھی نہیں کہا الیکشن نہیں کروائیں گے، وزیر اطلاعات
- پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور
- ترکیہ کے المناک زلزلے پر بھی بھارت کا پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا
- راولپنڈی میں گیارہ سالہ بچی سے زیادتی
- امریکا؛ ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر گولی لگنے سے پاکستانی نژاد پولیس افسر جاں بحق
- اگر کوئی لڑکی محبت کا اظہار کرے تو میں کیا کرسکتا ہوں، نسیم شاہ
- پنجاب، خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کی معطلی کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
- حکومت کا پیٹرول کی قیمت بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ذخیرہ اندوز باز آجائیں، وزیر پیٹرولیم
- سعودی ولی عہد کا ترکیہ اور شام کو امداد پہنچانے کیلیے فضائی پُل بنانے کا حکم
- پی ٹی آئی کا 33 حلقوں پر ضمنی انتخابات کی تاریخ تبدیل کرنے کا مطالبہ
- انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی آگئی
- انڈے کھانے سے دل کو فائدہ ہوسکتا ہے
- گلیشیئر پگھلنے سے پاکستان اور بھارت میں 50 لاکھ افراد متاثر ہوسکتے ہیں
- کابینہ میں توسیع؛ وزیراعظم نے مزید 7 معاونین خصوصی مقرر کردیے
- ہالینڈ میں زیرِ آب سائیکلوں کی سب سے بڑی پارکنگ کی تعمیر کا منصوبہ
- فاسٹ بولر وہاب ریاض کی پی ایس ایل میں شرکت پر سوالیہ نشان لگ گیا
- اسلام آباد؛ شادی شدہ خاتون کی نازبیا تصاویر بنوانے والا پولیس اہلکار گرفتار
- الیکشن کمیشن ہنگامہ آرائی: تحریک انصاف کے عامر ڈوگر اور لیگی سینیٹر گرفتار
عطیہ کیے گئے گردوں کو محفوظ کرنے کے لیے نیا طریقہ کار وضع

ماہرین کے مطابق نیا طریقہ کارکااستعمال آئندہ تین سالوں میں شروع ہوسکے گا
سائنس دانوں نے عطیہ کیے گئے گردوں کو محفوظ رکھنے کے لیے نیا طریقہ کاروضع کیا ہے جو ان کے خراب ہونے تعداد میں کمی لاسکتا ہے۔
کِڈنی ریسرچ یو کے کے مطابق ڈونرز کی جانب سے ٹرانسپلانٹ کے لیے دیے جانے گردوں میں سے ہر سال تقریباً 100 گردوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
این ایچ ایس اینڈ ٹرانسپلانٹ کے تین سال کے ڈیٹا پر مبنی اعداد و شمار سے مذکورہ بالا ادارے نے یہ تخمینہ لگایا کہ کتنی تعداد میں گردے طبی لحاظ سے استعمال کے قابل نہیں تھے۔
لیکن سرجری سے قبل گردوں کو بہتر انداز میں محفوظ کرنے کے لیے نئی تکنیک عضو کو طویل مدت تک قابلِ استعمال رکھ سکتی ہے اور ٹرانسپلانٹ کے لیے دستیاب عضو کی تعداد میں اضافہ کرسکتی ہے۔
محققین کا ماننا ہے کہ ان کے نیاطریقہ کارکااستعمال آئندہ تین سالوں میں شروع ہوسکے گا جو براہ راست لاجسٹک اور آپریشنل مسائل کو حل کردے گا۔
وضع کیے گئے طریقے میں نورموتھرمک پرفیوشن کا استعمال کیا گیا جس میں آکسیجن والا خون گردوں سے گزارا گیا تاکہ عضو سے خون کے بہاؤ کا تسلسل برقرار رہے۔
گردے کو جمانے کا طریقہ فی الحال ایک اسٹنڈرڈ طریقہ کار ہے لیکن جنتا زیادہ وقت عضو برف میں رہتا ہے اتنے زیادہ اس کو نقصان پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
کڈنی ریسرچ یو کے کی چیف ایگزیکٹِو سینڈرا کیوری کا کہنا تھا کہ مریضوں کو کِڈنی ٹرانسپلانٹ کے لیے اوسطاً ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے، کچھ اس سے بھی زیادہ عرصہ انتظار کرتے ہیں اور جب ان کو بلایا جاتا ہے تو وہ انتہائی مشکل کا سامنا کرسکتے ہیں جس میں اسپتال جلدی پہنچنا شامل ہوتا ہے کہ کہیں ان سے یہ موقع ضائع نہ ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بہت سے مریضوں کو اس لیے متعدد بار اسپتال بلایا گیا کہ انہیں یہ بتایا جاسکے کہ عطیہ کیا گیا گردہ کسی کام کا نہیں ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔