انسانی رنگ اور زبان میں فرق: اعتراضات اور ان کے جواب (آخری حصہ)

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  جمعـء 30 ستمبر 2022
’’ارتقاء تو ہوا ہے لیکن جیسا ڈارون کہہ رہا ہے ویسا نہیں...‘‘۔ (فوٹو: فائل)

’’ارتقاء تو ہوا ہے لیکن جیسا ڈارون کہہ رہا ہے ویسا نہیں...‘‘۔ (فوٹو: فائل)

مضمون کے پچھلے حصے میں ہم بات کررہے تھے مرحلہ وار انسان کی تخلیق کی۔ آگے بڑھنے سے پہلے چند اعتراضات پر بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلا اعتراض جو کیا جاتا ہے کہ ہم بطورِ انسان اشرف المخلوقات ہیں، ہم کیسے گوریلا اور بن مانس کے رشتے دار ہوسکتے ہیں۔ آئیے اس معاملے میں قرآنِ حکیم سے رہنمائی لیتے ہیں۔

سورۃ بقرہ میں جہاں اللہ تعالیٰ فرشتوں سے زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کی بات کرتے ہیں تو فرشتے اعتراض کرتے ہیں کہ انسان زمین پر خون خرابہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر حضرت آدمؑ کی تخلیق ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں تمام چیزوں کے ناموں کا علم دیتے ہیں۔ جب ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو فرشتے اپنے محدود علم کی وجہ سے ان تمام چیزوں کے نام بتانے سے قاصر ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت آدمؑ کو کہتے ہیں کہ ان چیزوں کے نام بتاؤ، جو وہ بتا دیتے ہیں۔ جب حضرت آدمؑ نام بتا دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تمام فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ حضرت آدمؑ کو سجدہ کریں۔ اور یوں شیطان کے علاوہ تمام تر فرشتے سجدہ کرتے ہیں۔ پھر وہ شیطان والا قصہ آجاتا ہے جب وہ حضرت آدمؑ اور اماں حوا سے گناہ کرواتا ہے، جس کی پاداش میں حضرت آدمؑ، اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کے ساتھ جنت سے اتار دیے جاتے ہیں کہ رہو زمین پہ قیامت تک اور جب تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی پیروی کرنا تاکہ تمہیں کوئی خوف و غم نہ ہو۔ (سورۃ بقرہ 34-39)

یہ پورا واقعہ ہم سے تھوڑے غور و فکر کا متقاضی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اشرف المخلوقات والے درجے کو ’سیمبولائز‘ کرتا ہے۔ فرشتوں کا سجدہ حضرت آدمؑ کی پیدائش یا تخلیق کے فوراً بعد نہیں ہوا، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یعنی علومِ شریعیہ آنے کے بعد۔ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم اس وقت ملا جب حضرت آدمؑ نے (مادی) اشیاء کے ناموں کے علم میں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کیا جو فرشتے نہیں کرپائے تھے اور یہی وجہ تھی کہ جس کے باعث انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے۔

بلاگ کے ابتدائی حصے یہاں سے پڑھیے:

 انسانی رنگ اور زبان میں فرق: جینیاتی ٹائم مشین … (پہلا حصہ)

انسانی رنگ اور زبان میں فرق: رقیبِ رو سیاہ … (دوسرا حصہ)

انسانی رنگ اور زبان میں فرق: قدرت کی نشانی… (تیسرا حصہ)

انسانی رنگ اور زبان میں فرق: ڈارون کا نظریہ… (چوتھا حصہ)

اردو کا بڑا مشہور محاورہ ہے ’’عقل بڑی یا بھینس‘‘۔ یہ محاورہ درحقیقت اس امر کا غماز ہے کہ اس کرۂ ارضی پر انسان سے زیادہ بڑے، زیادہ طاقتور، زیادہ خونخوار، زیادہ تیز رفتار اور بھی کئی طرح کی خوبیوں کے مالک جاندار موجود ہیں۔ ہم نہ تو چیتے سے تیز دوڑ سکتے ہیں، نہ ہاتھی جتنی طاقت رکھتے ہیں، نہ وہیل مچھلی جیسی جسامت، نہ عقاب جیسی نظر ہے ہماری، اور نہ ہی پودوں کی طرح بغیر ہاتھ پیر ہلائے سورج کی روشنی سے اپنی خوراک خود بناسکتے ہیں۔ جسمانی یا مادی اعتبار سے تو ہم کسی بھی لحاظ سے اشرف المخلوقات نہیں ہوسکتے۔ ہمارے پاس صرف ایک چیز ہے، ہماری عقل، اور اس کی مدد سے حاصل کیا گیا علم، جس کو استعمال کرتے ہوئے ہم شیر، چیتے کو سرکس کےلیے سدھا لیتے ہیں، ہاتھی کی سواری کرتے ہیں، وہیل کا شکار کرتے ہیں، عقاب کو شکار کےلیے استعمال کرتے ہیں، اور اگر پودوں کی بات کریں تو محض اپنے باغیچوں کی خوصورتی کےلیے صرف گلاب ہی کی سیکڑوں اقسام تیار کرچکے ہیں۔

ایک اور اہم اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو قرآنِ حکیم میں کہتے ہیں کہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہوجا اور وہ کام ہوجاتا ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی تخلیق کا فیصلہ کیا تو یہاں پر بھی ’’کن فیکون‘‘ والا ہی اصول لاگو ہونا چاہیے کہ فوری طور پر انسان کی تخلیق ہو، نہ کہ مرحلہ وار اور بتدریج۔ یہاں میں اپنی ناقص رائے سے احتراز برتتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی ایک بات پیش کرتا ہوں۔

ڈاکٹر صاحب کے تقریباً تمام ہی لیکچرز اور تقاریر یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ ایک لیکچر میں انھوں نے اس حوالے سے ایک بات کی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم ہوتا ہے تو اس کی تعمیل دو درجوں میں ہوتی ہے، ایک ہے عالمِ امر، جہاں جیسے ہی حکم صادر ہوا فوراً اس کی تعمیل ہوگئی، اور دوسرا ہے عالمِ خلق، یہاں پر حکم کی تعمیل اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے حساب سے ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ سمجھ لیجئے کہ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کہتے ہیں جو قوم میرے احکامات پر عمل کرے گی تو اسے دنیا میں اختیار دیا جائے گا، اور اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گی تو اس کے اوپر دوسری اقوام کو مسلط کردیا جائے گا۔ یہ تو ہے اللہ تعالیٰ کا واضح قانون، اب دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اس پر عمل کس طرح ہوتا ہے۔

حضرت سلیمانؑ کے بعد جب یہودی علماء، حکمرانوں اور عوام نے تورات کو پسِ پشت ڈال دیا تو ان پر بابل سے بخت نصر کی شکل میں اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا۔ اب ایسا نہیں ہوا کہ لوگ رات کو سوئے اور جب صبح اٹھے تو یکایک وہ بخت نصر کے غلام بن چکے تھے۔ جی نہیں، باقاعدہ جنگیں ہوئی، یروشلم کا 30 مہینے تک محاصرہ کیا گیا اور اس کے بعد ہی بخت نصر یہودیوں کو غلام بنا کر عراق لے گیا اور حضرت سلیمانؑ کے تعمیر کردہ ہیکلِ سلیمانی کو تباہ و برباد کرگیا۔ اس طرح کی کئی مثالیں اسلامی تاریخ سے بھی ہمیں مل جائیں گی۔ ان سب سے واضح ہوتا ہے کہ عام طور پر اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ نظام کو ہی چلاتے ہیں، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ معاذ اللہ اس نظام کے پابند ہیں اور اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔ جی نہیں اللہ تعالیٰ جب چاہیں جیسے چاہیں اپنے بنائے نظام کو توڑ کر خرقِ عادت کام کرسکتے ہیں، جسے عرفِ عام میں معجزہ کہا جاتا ہے۔ اب مجھے معجزے کی تعریف بتانے کی ضرورت ہونی تو نہیں چاہیے کہ یہ وہ کام ہوتا ہے کہ جو خلافِ قوانینِ فطرت ہو، جو کسی صورت بھی ممکن نہ ہوسکے۔

اس سلسلے کا آخری اہم اعتراض انسان کی مرحلہ وار تخلیق کے حوالے سے ہے کہ آخر کیسے تخلیق اور ارتقا ایک ساتھ ہوسکتے ہیں۔ ہمارا عام تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سارے مٹی کے پتلے بنا کر زمین پر ان کی مقرر کردہ جگہوں پر رکھ دیے ہیں، جیسے کینگرو صرف آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے، زرافہ اور زیبرا افریقہ میں وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی تخلیق کیا اور زمین پر پھیلا دیا۔
قرآنِ حکیم میں تخلیقِ بشر کے ضمن میں مٹی کے پانچ مختلف نام استعمال ہوئے ہیں۔
تراب (مٹی)، آل عمران 59، الکھف 37، الحج 5،
طین (پانی ملی ہوئی مٹی یعنی گارا یا کیچڑ)، الانعام 9 2، الاعراف 12، السجدہ 7،
طین لازب ( گارا جب پڑا رہے تو اس میں موجود نامیاتی مادوں کی وجہ سے عمل تخمیر ہوتا ہے جس کی وجہ سے گارے میں لیس یا چپچپاہٹ پیدا ہوتی ہے)، الصافات 11،
صلصٰل من حما مسنون (جب لیس دار گارا سڑنے لگے اور اس میں بدبو پیدا ہوجائےاور پھر وہ سوکھ جائے)، الحجر 26، 28، 33
صلصٰل کالفخار (جب لیس دار گارا سوکھ جائے اور اس کی پپڑی سی بن جائے جو کھنکنے لگے ) الرحمٰن 14

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے سورۃ الحجر کی تفسیر کے دوران آیت 28 کی تشریح کرتے ہوئے ان تمام اصطلاحات کی تفصیل بیان کی ہے، آپ یوٹیوب پر سن سکتے ہیں۔

یہ محض مختلف نام نہیں ہیں کہ ایک بات بار بار انداز بدل کر کی جارہی ہے بلکہ ان کے مطلب بھی مختلف ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اصطلاحات مٹی کی مختلف حالتوں کی نشاندہی کرتی ہیں، یعنی خشک مٹی، پھر اس میں پانی پڑگیا، پھر اس میں چپچپاہٹ پیدا ہوئی، پھر اس کا رنگ کالا ہوا اور بدبو پیدا ہوئی، اور پھر سوکھ کر پپڑی بن گئی اور کھنکنے لگی۔ میں یہاں اپنی کوئی رائے دینے کے بجائے آپ کو سوچنے کی دعوت دیتا ہوں کہ کیا ایک ہی اصطلاح سے بات کا مفہوم واضح نہیں ہوسکتا تھا؟ کیا معاذ اللہ ثمہ معاذ اللہ، ان اصطلاحات کا استعمال صرف لفاظی ہے یا اس سے بڑھ کر کوئی بات ہے۔

سورۃ الحجر کی اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ:
فَإِذَا سَوَّيْتُهُۥ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُوا لَهُۥ سَٰجِدِينَ (الحجر-29)
ترجمہ: اور جب میں اسے پورا بنا چکوں اوراس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کےلیے سجدے میں گر پڑنا۔
اس آیت میں لفظ سویتہ آتا ہے۔ اس لفظ کے معنی میں نے سات مختلف ترجموں میں دیکھے ہیں اور وہ سب میں یہاں نقل کر رہا ہوں:
پورا بنا چکوں (مولانا محمد جوناگڑھی)،
پوری طرح بنا لوں (مفتی تقی عثمانی)،
ٹھیک کرلوں (کنز الایمان)،
ٹھیک کرکے پورا بنا چکوں (علامہ حسن رضوی)،
مکمل کرلوں (امین اصلاحی)،
تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں (علامہ طاہرالقادری)،
پورا بناچکوں (مودودی)

ان تمام کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے، یعنی نوک پلک سنوارنا، جو کمی ہو اسے پورا کرنا وغیرہ۔ اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو قادرِ مطلق ہیں، وہ جو حکم دیں جیسا دیں، ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ حکم دے کر انسان کی تخلیق ایک بار میں ہی کیوں مکمل نہ کروائی، اور بعد میں اس کو ٹھیک کرنے، پورا کرنے یا مکمل کرنے کی بات کی جارہی ہے۔

اسی طرح سورہ المومنون میں ارشاد ہوا:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِن سُلَٰلَةٍ مِّن طِينٍ (المومنون 12)
ترجمہ: یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (مولانا محمد جوناگڑھی)،
اور ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے پیدا کیا (مفتی تقی عثمانی)،
اور بیشک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی (انتخاب کی) مٹی سے بنایا (کنز الایمان)،
اور بہ تحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے، جوہر یا نچوڑ (ایسینس) سے بنایا (علامہ حسن رضوی)،
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا (امین اصلاحی)،
اور بیشک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتدا) مٹی (کے کیمیائی اجزا) کے خلاصہ سے فرمائی (علامہ طاہرالقادری)،
ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا (مودودی)

قرآنِ حکیم کی اس آیت کے اوپر دیے گئے تمام تراجم سے تو یہ بات واضح ہوتی کے کہ مٹی سے بنانے کا مطلب مٹی میں موجود کیمیائی اجزا یا عناصر ہیں جن میں کاربن، نائیٹروجن، آکسیجن، ہائیڈروجن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب زمین کی مٹی میں موجود ہیں اور اس کرۂ ارضی پر موجود ہر جاندار کا جسم انہی عناصر کا مجموعہ ہے۔ اردو کا ایک مشہور شعر
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
شاید اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ایک اور اہم بات قرآنِ حکیم میں جتنی بار بھی انسان کی تخلیق کی بات کی گئی ہے سوائے ایک جگہ کے، ہر بار لفظ بشر کا ہی ذکر آیا ہے۔ اور وہ ایک مقام جہاں تخلیقِ آدم کی بات ہوئی ہے وہاں بنیادی طور پر حضرت عیسیٰؑ اور حضرت آدمؑ کا تقابل ہے:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ ٱللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَ ۖ خَلَقَهُۥ مِن تُرَابٍۢ ثُمَّ قَالَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ (آل عمران 59)
ترجمہ: بلاشبہ اللہ کے ہاں عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے، جسے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے حکم دیا کہ ہوجا تو وہ ہوگیا۔

اب یہاں سوچنے کی بات ہے کہ اگر ان دونوں کی پیدائش ایک جیسے ہوئی تو جیسے ہم روایتی طور پر سمجھتے ہیں کہ حضرت آدمؑ کا پہلے مٹی کا پتلا بنایا گیا، اس پتلے کو بنانے کےلیے زمین کے مختلف مقامات سے مٹی چنی گئی، اور پھر اس میں بعد میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی۔ تو کیا حضرت مریم کے پاس حضرت جبرائیل کوئی مٹی کا پتلا لے کر آئے تھے؟ ہرگز نہیں۔ قرآنِ حکیم میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کا پورا عمل عین انسانی فطرت کے مطابق ہوا سوائے باپ کی موجودگی کے۔ یعنی باپ کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم پر حمل ٹھہرا لیکن اس کے بعد کوئی ایسی قرآنی یا تاریخی شہادت ہمیں نہیں ملتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کا حمل کا دورانیہ، ان کی پیدائش انسانی فطرت سے ہٹ کر ہوئی ہو۔ اگر دونوں کی تخلیق ایک جیسی ہے جو کہ قرآنِ حکیم کے مطابق ہے تو پھر یہ فرق کیوں؟ اس کا صاف مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ دونوں میں سے ایک کو سمجھنے میں ہم غلطی کر رہے ہیں۔ یہاں آپ کہہ سکتےہیں کہ بھئی یہ تو صرف ایک مثال ہے اور اس سے حقیقی طور پر ایک جیسا ہونا مراد نہیں ہے۔

یہاں میں آپ کی توجہ خلافتِ عباسیہ کے مسلمان سائنسدانوں جنھیں عرفِ عام میں معتزلہ کہہ کر ان کی گمراہی کے فتوے دیے جاتے ہیں، پر اٹھائے جانے والے سب سے بڑے اعتراض کی جانب دلانا چاہتا ہوں کہ ان کے بارے میں کہا ہی یہ جاتا تھا کہ وہ قرآنی آیات کی تشریح ان کے ظاہری مطلب سے ہٹ کر کرتے تھے۔ خیر جب دو چیزیں ایک جیسی ہوں تو معلوم چیز کو اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات کو ہمیشہ نامعلوم پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ معلوم کو ہی سند سمجھا جاتا ہے اور اس کی مدد سے نامعلوم کو پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ ہمیں حضرت عیسیٰؑ کا پتہ ہے، آسمانی کتب اور تاریخی حوالوں دونوں سے ہی جبکہ حضرت آدمؑ کا ذکر صرف ابراہیمی مذاہب کی کتب میں ملتا ہے، جن میں قرآن کے علاوہ باقی سب تحریف شدہ ہیں تو یہاں ہمارے لیے استدلال کی حیثیت حضرت عیسیٰؑ والے معاملے کو حاصل ہوگی۔ میں کوئی مفسر یا شارح نہیں ہوں کہ ان آیاتِ مبین کی اپنی جانب سے نئی تشریح یا تفسیر آپ کے سامنے پیش کروں۔ مجھے تو جو سیدھا سادہ سا مطلب اپنی محدود عقل کے مطابق سمجھ میں آتا ہے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ آپ اختلاف کا حق رکھتے ہیں لیکن منطق اور دلیل کے ساتھ خواہ وہ عقلی ہو یا نقلی۔

اس سلسلہِ مضمون کو لکھنے کے دوران میں نے جہاں بہت سارے قرآنی حوالے ڈھونڈے وہیں مجھے بہت سارے مفسرین اور شارحین کے لیکچرز اور تحاریر کو ارتقاء کے تناظر میں سننا اور پڑھنا پڑا۔ ان سب کی اکثریت اوپر دیے گئے حوالوں پر غور و فکر کرنے کے بعد اس بات پر تو قائل اور مائل نظر آئی کہ ارتقا ہوا ہے لیکن ان سب کےلیے اس بات کو تسلیم کرنا کہ انسان اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے حضرت آدمؑ کے بجائے کسی بندر کو اپنا جدِامجد مانے ناممکن تھا، لہٰذا کسی نے اس پہلو کو زیادہ چھیڑا نہیں تو کوئی مکمل طور پر پہلو تہی کرگیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا مودودی مرحوم دونوں کو جدید زمانے کے قرآن کے مفسر کے طور پر جانا جاتا ہے، جو کہ بہت زیادہ متنازع نہیں ہیں۔ ان کے ہاں بھی ارتقا کے حوالے سے مجھے یہی رائے ملی کہ
’’ارتقاء تو ہوا ہے لیکن جیسا ڈارون کہہ رہا ہے ویسا نہیں…‘‘

اصل بات تو یہ ہے کہ ڈارون نے کبھی انسان کو بندر کی نسل نہیں کہا تو پھر اب کیا اعتراض رہ جاتا ہے؟ ہم سب کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات قادرِ مطلق ہے، وہ جو چاہے جیسے چاہے کرنے پر قادر ہے، تو پھر ہم انسان کی تخلیق کو صرف اپنی محدود عقل اور علم کی بنیاد پر ایک ہی طریقہ پر پابند کرنے پر کیوں مُصر ہیں؟

چلیے اس بات کو سمیٹتے ہیں۔ ہم نے آغاز کیا تھا کہ کیسے جینیات اور ڈی این اے کی مدد سے ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانک سکتے ہیں، اور بیماریوں اور کروموسومز کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ پھر ہم نے جانا کہ کس طرح انسانوں کی جلد کی رنگت میں تنوع اور اختلاف کیسے پیدا ہوا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانی کہا ہے۔ اس کے بعد ہم نے بات کی کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا درحقیقت ہے کیا اور وہ کیسے عمل پذیر ہوتا ہے۔ اور آخر میں ہم نے مرحلہ وار انسانی ارتقاء اور اس کے حوالے سے کچھ اہم اعتراضات اور ان کے جوابات پر سیر حاصل بحث کی۔

میں اس حصے میں اٹھائے گئے سوالات آپ کے سامنے رکھتے ہوئے قرآنِ حکیم کی اس آیت کے بموجب آپ کو سوچنے کی دعوت دیتا ہوں
اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ القُراٰنَ اَم عَلٰى قُلُوبٍ اَقفَالُهَا‏ (محمد24)
ترجمہ: بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر قفل لگ رہے ہیں۔
اور اس دعا کے ساتھ ختم کروں گا کہ اللہ تعالیٰ سچائی تک پہنچنے میں ہماری مدد اور رہنمائی کریں، آمین۔
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔