سردار خوشونت سنگھ و علیکم السلام

عبدالقادر حسن  جمعـء 21 مارچ 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سردار خوشونت سنگھ اپنی صحافیانہ زندگی میں دھومیں مچا کر 99 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ میرے ہم ضلع تھے یعنی خوشاب کے قریب ہڈالی قصبہ کے۔ میں جب کبھی دلی گیا ان سے ملنے ضرور گیا۔ ان ملاقاتوں میں انھوں نے اپنے پیدائشی قصبے ہڈالی کا بار بار ذکر کیا۔ اس ذکر میں ہمیشہ ان کی آواز بھر آئی۔ ان کی تعلیمی اور ابتدائی پیشہ ورانہ زندگی زیادہ تر لاہور میں گزری وہ وکیل تھے  جناب منظور قادر کے معاون۔ مشہور ہے کہ وہ دلی میں قائداعظم کے ہمسائے تھے۔ 1935ء میں ان کی شادی میں قائد نے شرکت بھی کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ قائد نے انھیں پاکستان میں ججی کی پیش کش بھی کی تھی لیکن وہ بھارت چلے گئے۔ دلی میں ان کی بہت ساری جائداد تھی۔ ان کے والد جو سر کے خطاب یافتہ تھے تعمیرات کا کام کرتے تھے۔

دلی کا سب سے زیادہ مشہور چوک کناٹ پیلس ان کے والد نے تعمیر کیا تھا۔ دلی کے ایک پوش علاقے میں انھوں نے کچھ مکانات بھی تعمیر کیے خوشونت سنگھ ایسے ہی ایک مکان میں مقیم تھے۔ اس صحافی میں تعصب نام کا بھی نہیں تھا۔ ان کے گھر میں دروازوں کے پردوں پر اسلام علیکم جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ یہ پردے لائل پور سے خرید کر لائے تھے جو انھیں ہر وقت اپنے پرانے پیدائشی وطن کی یاد دلاتے ہیں۔ یہاں میں ایک عرض کر دوں کہ جو ہندو سکھ بھارت گئے ہیں اور پاکستان میں اپنی یادیں چھوڑ گئے ہیں ان کے ذہنوں اور دلوں میں پاکستان کے بارے میں ایک خاص تلخی پائی جاتی ہے اگر وہ صحافی ہیں تو ان کی تحریروں میں یہ بات نظر آتی ہے۔ لیکن خوشونت سنگھ کے دل و دماغ کسی ایسی تلخی سے محفوظ تھے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد وہ پاکستان آئے تو یہاں ایک تقریب میں انھوں نے اس سانحے کا ذکر کرتے ہوئے یہ مشہور شعر پڑھا

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

اور مجھے یاد ہے کہ یہ شعر پڑھ کر وہ چند لمحوں کے لیے چپ سے ہو گئے تھے۔ بھارت کو ان کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں تھا لیکن وہ برصغیر کو اپنے خوابوں کا مرکز دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ پاکستانیوں کے ساتھ بھی محبت کرتے تھے اور اپنے قصبے ہڈالی کے ساتھ بھی۔ وہ ایک کھلے ڈلہے سکھ تھے اور سکھوں کے لطیفوں کا خزانہ تھے انھوں نے ان لطیفوں کو کتابی صورت میں مرتب کیا تھا۔ اندرا گاندھی جب سکھوں کے خلاف ایکشن لینے والی تھیں تو خوشونت سنگھ نے ان کو بہت روکا اور کہا کہ سکھ اسے کبھی فراموش نہیں کریں گے لیکن بقول سردار خوشونت سنگھ کے عورت کی مت اس کی کھری میں ہوتی ہے۔ اندرا نے اس کی بات کی پروا نہ کی اور جو کرنا تھا وہ کر گزری۔ جواب میں خشونت نے وہ بڑا اعزاز واپس کر دیا جو انھیں ایک بھارتی بڑی شخصیت کی وجہ سے ملا تھا۔

خوشونت سنگھ کے اندر سکھ کلچر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک بڑے خوشحال سکھ خاندان کے وارث تھے۔ ان کے والد اور سسر دونوں کو انگریزوں نے خدمات کے سلسلے میں سر کا خطاب دیا تھا۔ ایک ملاقات میں انھوں نے اپنی والدہ محترمہ سے بھی ملایا اور بتایا کہ ان کے والد بھی میرے والد کی طرح ’سر‘ تھے۔ والدہ ماجدہ کہنے لگیں اب تو یہ ایک عیب سمجھا جاتا ہے مگر اپنے زمانے میں ہماری بات ہی اور تھی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کے صاحبزادے صرف بھارت کے نہیں پورے برصغیر کے نامور دانش ور ہیں اور انگریزی دور کے کسی ’سر‘ سے کم نہیں ہیں بلکہ اس سے بڑے ہیں۔ اسی ملاقات میں انھیں کسی جج کا فون آیا جو ان کی والدہ کی خیریت دریافت کر رہے تھے۔ خوشونت سنگھ نے ان سے کہا کہ قریب ہیں تو ذرا آ جائیں وہ آگئے تو خوشونت سنگھ نے کہا کہ میں نے ان کو اس لیے زحمت دی ہے کہ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے بھارت کی جمہوریت کو بچایا ہے۔ اندرا ایک الیکشن ہارنے کے بعد ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر مصر تھیں جو ضروری نہیں تھی بلکہ خطرناک تھی چنانچہ جج صاحب نے اندرا گاندھی کے حق میں نہیں بھارتی جمہوریت کے حق میں فیصلہ دیا جس کی اب تک تحسین کی جاتی ہے۔

میں اس نامور بھارتی سے تمہاری ملاقات کرانا چاہتا تھا۔ اس مختصر سی ملاقات سے مجھے اندازہ ہوا کہ بھارتی قوم نے جمہوریت کو بچانے کی شعوری کوشش کی ہے۔ ہماری طرح نہیں کہ ادھر کوئی فوجی آمر آیا اور ادھر پوری سیاسی برادری اس کی خوشامد میں لگ گئی۔ اس ملاقات میں جج صاحب نے اپنے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی، بس میرا پوچھا کہ کیسے آنا ہوا تھا۔ اس پر میزبان نے انھیں بتایا کہ ہمارا محکمہ اطلاعات ان کے ایک کالم پر ناراض ہو گیا اور ملک بھر کے اخبارات نے اس کی مذمت میں ادارئیے لکھے۔ جج صاحب نے کہا کہ میں نے بھی ایک ایسا اداریہ پڑھا ہے اور تعجب ظاہر کیا ہے کہ اس کالم میں ایسی کون سی بات تھی جس پر اس قدر برہمی دکھائی گئی۔ پھر پوچھا کہ اب کوئی پریشانی تو نہیں۔ خوشونت نے بتایا کہ میں نے سنبھال لیا ہے آپ فکر نہ کریں۔ اس طرح جج صاحب نے مجھ پر مہربانی کا اظہار کیا تھا افسوس کہ اب مجھے ان کا نام یاد نہیں آ رہا اس وقت یہ الہ آباد میں کسی اہم عہدے پر فائز تھے۔ جب ان کے سامنے اندرا کا مقدمہ پیش ہوا تھا۔

یوں تو جناب کلدیپ نئیر بھی تھے اور بعض دوسرے مہربان بھی لیکن سردار خوشونت سنگھ مجھے ہم ضلع سمجھ کر مہربانی کرتے تھے۔ دکھ ہے کہ بھارت میں ہمارا ایک مہربان اور بزرگ اب نہیں رہا لیکن یہ شخص ہمیں یاد رہے گا۔ خوشاب کے ضلع سے بھی ایسے بڑے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔