گردش ایام (دوسرا اور آخری حصہ)

رئیس فاطمہ  جمعـء 30 ستمبر 2022
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

78میرا یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد بہت سے ساتھیوں سے ملنا جلنا رہا، لیکن ان صاحب کا کچھ پتا نہ چلا۔ پھر کسی نے بتایا کہ موصوف ایک معروف بینک میں ملازم ہیں۔ جب میرا پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلاب زخموں کے‘‘ شایع ہوا تو ان سے بھی ملاقات ہوئی۔

انھوں نے بحیثیت ایک مقرر ہماری کتاب کی رسم اجرا میں شرکت کی۔ پھر ایک دو دفعہ ہمارے گھر بھی آئے اور میری کتاب کے لیے ایک اشتہار بھی دلوایا ،لیکن مجھے بہت حیرت ہوئی کہ اختر کی وفات پر نہ ان کا کوئی فون آیا نہ وہ گھر تعزیت کے لیے آئے ۔

ایک روز جب کہ میرے پاس خیریت پوچھنے ایک صاحب تشریف لائے ہوئے تھے، جو ایکسپریس میں کالم بھی لکھتے ہیں،ہم لوگ چائے پی رہے تھے کہ میرے پاس انھی صاحب کا فون آیا کہ وہ میری طرف آ رہے ہیں۔

مجھے حیرت ہوئی کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد انھیں تعزیت کا خیال آیا۔ جب میں نے اپنے مہمان کو ان کی آمد کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے کہ وہ ان کو جانتے ہیں۔ لہٰذا میرے کہنے سے وہ ٹھہر گئے۔ تقریباً شام سات بجے وہ صاحب آئے۔ دونوں گرم جوشی سے ملے۔ میں نے چائے پیش کی، پھر سب باتیں کرنے لگے۔ زیادہ تر اختر کی باتیں۔

اچانک میرے دوسرے مہمان یعنی میرے یونیورسٹی فیلو نے ہمیشہ کی طرح بے تکلفی سے پوچھا ’’ارے بھئی! آج کھانا نہیں کھلاؤ گی؟ تمہارے ہاتھ کے کھانوں کی لذت تو میں کبھی نہیں بھولتا۔ واقعی اختر بھائی بہت خوش قسمت انسان تھے۔‘‘ تب میں نے شرمندگی سے بتایا کہ ’’بھائی! اختر کے جانے کے بعد میری بھوک بھی ختم ہو گئی ہے۔

بس کارن فلیکس کھا لیتی ہوں۔‘‘ یہ سن کر بولے۔ ’’لو یہ بھی بھلا کوئی بات ہے۔ میں تو کھانا آج یہیں کھاؤں گا۔‘‘ پھر وہ میرے پہلے مہمان سے بولے۔ ’’چلو بھئی! نہاری لے کر آتے ہیں، آج رئیس بھی ہمارے ساتھ بد پرہیزی کریں گی۔‘‘ جس پر وہ صاحب بولے۔ ’’آپ بیٹھیے میں لے آتا ہوں۔‘‘ میں نے ان کے ہاتھ میں پیسے تھمانے چاہے۔ تو وہ عاجزی سے بولے۔ ’’نہیں بہن! مجھے شرمندہ نہ کریں، آپ کو بہن کہا ہے اور مانتا بھی ہوں۔ بہن سے پیسے کیسے لے سکتا ہوں۔‘‘

وہ نہاری روٹی لینے چلے گئے۔ آدھے گھنٹے بعد لدے پھندے آئے۔ ساتھ میں کولڈ ڈرنک اور کھیر بھی لے آئے۔ میں نے کھانا لگایا، تینوں نے کھایا، جب میں اپنے دوسرے مہمان کی فرمائش پر کافی بنانے اٹھی تو جو نہاری لائے تھے، ان کے گھر سے فون آگیا، وہاں کوئی مہمان آگئے تھے۔

وہ اجازت لے کر جانے لگے تو میں نے سوچا کہ اب دوسرے بھی چلے جائیں گے بلکہ ان صاحب نے پوچھا بھی کہ ’’بھائی! آپ بھی چلیں گے؟‘‘ تو وہ بولے ’’نہیں بھئی! میں تو کافی پی کر جاؤں گا۔‘‘ خیر وہ تو چلے گئے اور میں نے کافی بنا کر اپنے مہمان کو دی۔ وہ کافی پیتے جاتے اور میرے بیٹے اور اختر سے متعلق باتیں کرتے جاتے۔ تقریباً دس بج چکے تھے۔ لیکن وہ کافی پینے کے بعد بھی نہایت آرام سے بیٹھے رہے۔ پھر کچھ توقف کے بعد بولے ’’میں آج تمہارے پاس ایک کام سے آیا ہوں۔

دیکھو منع مت کرنا۔ میں بہت پریشان ہوں۔‘‘’’جی فرمائیے! میں کیا مدد کرسکتی ہوں؟‘‘ میں نے تعجب سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’بھئی! مجھے کچھ رقم چاہیے۔ دیکھو میری گاڑی میں پٹرول نہیں ہے۔

میں سیدھا تمہارے پاس اسی لیے آیا ہوں۔‘‘ وہ ترنت بولے۔ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا، اتنی بڑی پوسٹ سے ریٹائر ہونے والا مجھ سے پٹرول کے لیے پیسے مانگ رہا ہے۔’’لیکن آپ تو ایک اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ پھر یہ نوبت؟‘‘ میں نے سوال ادھورا چھوڑ کر ان کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔

’’ارے بھئی! بہت کچھ تھا، لیکن سب کچھ ختم ہو گیا، بس اس وقت جتنا بھی کیش تمہارے پاس ہو، دے دو، اگر نہ ہو تو چیک کاٹ دو، تقریباً ایک لاکھ روپے کا۔ میں تمہیں تھوڑے تھوڑے کرکے دے دوں گا۔‘‘ وہ جلدی سے بولے۔ میں کچھ سٹ پٹا گئی، ان کا یہ روپ بہت عجیب تھا۔

’’لیکن آپ کے بہن بھائی بھی تو اچھے عہدوں پر ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ارے بھئی! میں اپنی پریشان کسی سے نہیں کہتا، بس تم جلدی کرو۔‘‘ وہ بولے۔’’لیکن میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں۔ بس ضرورت کے دو تین ہزار ہوں گے اور چیک بک ابھی بنی نہیں ہے۔ پرانی ختم ہو گئی ہے، ایک دو دن میں مل جائے گی۔‘‘ میں نے صورت حال انھیں بتائی۔

’’اچھا ٹھیک ہے، جو رقم گھر میں ہے وہ تو تم مجھے دو، تاکہ میں واپسی کے لیے پٹرول ڈلوا سکوں۔‘‘ وہ بے چینی سے بولے۔ اور میں نہ جانے کیسے فوراً اٹھی اور اپنا بیگ الماری سے اٹھا لائی۔ زپ کھولی اور پورے تین ہزار روپے نکال کر ان کی طرف بڑھا دیے۔ انھوں نے فوراً انھیں میرے ہاتھ سے لیا، جیب میں رکھا اور بولے۔’’دیکھو بھئی! مجھے تو پورے پانچ لاکھ کی ضرورت ہے۔ تم ایک ہفتے میں اس کا انتظام کرو اور کل شام تک مجھے فوری طور پر ایک لاکھ کا چیک دے دو۔ میں رفتہ رفتہ سب واپس کردوں گا۔‘‘

اب میں کچھ گھبرا گئی تھی، ان کا یہ روپ میرے لیے بالکل نیا اور ناقابل یقین تھا۔ میں چاہ رہی تھی کہ وہ جلد ازجلد یہاں سے چلے جائیں، لیکن وہ ایک لاکھ کی یقین دہانی کروانا چاہتے تھے اور میں ان سے جلد ازجلد پیچھا چھڑانا چاہتی تھی۔ میں نے انشا اللہ کہا اور یہ بھی کہا کہ میں جلد سو جاتی ہوں، کیوں کہ میری کام والی صبح 9 بجے آ جاتی ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر اپنا مطالبہ دہرایا۔ اسی اثنا میں، میں نے اپنے نہایت شریف النفس چوکیدار صدام کو بلایا، جو اختر کے انتقال پر حد درجہ غم گین تھا، اور میرا ہر کام خوشی خوشی کردیتا تھا۔

صدام اوپر آیا تو میں نے دروازہ کھول کر اندر بلایا اور اپنے مہمان کا تعارف کراتے ہوئے اس سے کہا کہ۔’’دیکھو صدام! یہ ہمارے بھائی ہیں، سمجھو قاضی صاحب کے بھائی ہیں۔ آیندہ یہ آئیں تو ان کی گاڑی کا ذرا خیال رکھنا۔‘‘ اس نے اثبات میں گردن ہلائی، تو میں نے مہمان کے لیے دروازہ کھول دیا، وہ عجلت میں باہر نکلے یہ کہتے ہوئے کہ وہ کل دوبارہ آئیں گے شام کو۔

صدام انھیں لے کر لفٹ سے نیچے گیا تو میری ذہنی کیفیت بہت ڈسٹرب تھی۔ واپس آتے ہی نجانے کیوں مجھے خیال آیا کہ صرف پٹرول کے لیے میں نے تین ہزار دے دیے، جب کہ یہ بات ہے چند برس پہلے کی ہے۔ اس وقت تو پٹرول اتنا مہنگا بھی نہیں تھا۔ بہرحال میں نے فوراً ہی صدام کو بلایا اور اسے بتایا کہ اگر آیندہ یہ صاحب آئیں تو انھیں اوپر نہ آنے دینا اور اگر وہ بضد ہوں تو وہ خود بھی ساتھ اوپر آئے۔

اگلی صبح ہی صبح میرا موبائل بجنے لگا، دوسری طرف وہی موصوف تھے، بولے۔’’دیکھو شام کو میری رقم یا چیک تیار رکھنا۔‘‘ میں نے نہایت شائستگی سے کہا کہ ’’میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ہم نے زندگی میں نہ تو کبھی کسی سے ادھار لیا نہ کسی کو دیا، اس لیے میری طرف سے معذرت قبول کرلیں، لیکن وہ مصر تھے کہ انھیں میں رقم دوں۔ اس دن انھوں نے تین بار فون کرکے تقاضا کیا، تب میں نے سب سے پہلے تو ان کا فون بلاک کیا اور پھر اپنے بھائی جنید اشرف کو گھر بلا کر سارا معاملہ بتایا۔ انھوں نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ میں نے کیسے ان کی ڈیمانڈ پر پٹرول ڈلوانے کے لیے تین ہزار کی رقم انھیں دے دی۔ بہرحال جنید نے مجھے تسلی دی اور کہا کہ اگر آیندہ وہ اچانک گھر آجائیں تو میں بس ایک مس کال انھیں دے دوں اور پھر اس دن وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئے۔

رات کو جب میں واپس آئی تو صدام نے بتایا کہ وہی صاحب آئے تھے۔ تصدیق کرنے وہ خود اوپر گئے اور واپس جاتے ہوئے اسے میسج دے گئے کہ دوبارہ آئیں گے۔ اس کے بعد انھوں نے کسی دوسرے نمبر سے فون کیا اور اپنا مطالبہ دہرایا تو میں نے انھیں کھری کھری سنا دیں اور یہ بھی کہا کہ میں تو سمجھی تھی کہ آپ مجھ سے میرے مرحوم شوہر کی تعزیت کرنے آئے ہیں، لیکن آپ کا مقصد تو مجھے لوٹنا تھا۔ وہ میرے اس لب و لہجے پہ حیران رہ گئے اور جلد ہی اختر کا واسطہ دے کر غلط فہمی دور کرنے کو کہا۔ لیکن میں نے فون بند کردیا۔

دل تو چاہا کہ جو جو لوگ ان موصوف کو جانتے ہیں انھیں بتاؤں، لیکن جنید نے ایسا کرنے سے منع کردیا تھا۔ آج یہ واقعہ درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کیسے دھوکا دیتے ہیں اور دکھ اور تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔