میں خود کو کیسے دریافت کروں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 30 ستمبر 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

آپ اگر اپنی زندگی سے ناخوش ہیں بے سکون ہیں تو آپ لازماً دماغ سے سوچتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں اس لیے دنیا کا کوئی بھی ڈاکٹر آپ کو اس کیفیت سے نجات نہیں دلوا سکتا کیونکہ آپ سرا سر غلط راستے کے مسافر ہیں اور یہ راستہ مکمل ناخوشی اور بے سکونی پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ آپ یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں ’’ کیسے‘‘ ، تو آئیں ہم آپ کو بتاتے ہیں ’’کیسے۔‘‘  Eckhart Tolleاپنی کتاب The Power of Now

میں لکھتا ہے کہ ’’ دماغ کو اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ایک زبردست چیز ہے ، تاہم غلط استعمال پر یہ بہت تباہ کن ثابت ہوتا ہے ، زیادہ مناسب انداز میں کیا جائے تو ایسا نہیں ہے کہ تم اپنے دماغ کو غلط استعمال کرتے ہو۔ تم عام طور پر اسے بالکل استعمال ہی نہیں کرتے بلکہ یہ تمہیں استعمال کرتا ہے۔

یہ ہی خرابی ہے تم سمجھتے ہوکہ تمہاری شناخت تمہارا دماغ ہے یہ ہی واہمہ ہے ۔ اصل میں دماغ نامی چیز نے تمہارے اوپر قبضہ کرلیا ہے ، یہ درست ہے کہ میں زیادہ تر لوگوں کی طرح ادھر ادھر کی سو چیں پالتا ہوں لیکن پھر بھی میں اپنے دماغ کو بہت چیزیں حاصل کرنے اور بہت سے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتاہوں ، صرف اس لیے کہ تم کوئی پہیلی حل کرلیتے ہو یا ایٹم بم بنا لیتے ہو یہ ظاہر نہیں کرتا کہ تم اپنا دماغ استعمال کرتے ہو جس طرح کتوں کو ہڈیاں چبانا پسند ہے اسی طرح دماغ کو مسئلوں میں دانت گھسیٹرنا پسند ہے۔

اس لیے یہ پہیلیاں سلجھاتا اور ایٹم بم بناتا ہے ، چاہے تمہیں اس میں چنداں دلچسپی نہ ہو ۔ چلو یہ بتاؤکیا تم اپنے دماغ سے جب چاہو آزادی حاصل کر پاتے ہو؟ کیا تم نے اس کا آف بٹن تلاش کرلیا ہے؟ یعنی سوچنا بالکل بند کردینا ؟ نہیں۔ میں یہ نہیں کرسکتا یا شاید کبھی کبھار ایک دو لمحے کے لیے ، پھر دماغ تمہیں استعمال کر رہا ہے تم لا شعوری طور پر اپنی شناخت اس کے ساتھ جوڑ چکے ہو۔ تمہیں علم بھی نہیں کہ تم اس کے غلام ہوچکے ہو۔

یہ تقریباً ایسا ہے کہ جیسے تم انجانے میں کسی کی ملکیت میں آجاؤ اور تم جس کی ملکیت میں آؤ اسی کو اپنا آپ قرار دینے لگ جاؤ۔ آزادی کی شروعات یہ جان جانا ہے کہ تم وہ مالک نہیں ہو یعنی ’’سوچنے والا دماغ ‘‘ جس لمحے تم ’’سوچنے والے ‘‘ کو دیکھنے لگتے ہو ایک اعلیٰ درجے کا شعور بیدار ہوجاتا ہے تب تم محسوس کرنے لگتے ہو کہ سوچ کی حد سے باہر ذہانت کی ایک بڑی سلطنت ہے اور سوچ ذہانت کا ایک چھوٹا سا پہلو ہے تم یہ بھی محسوس کرتے ہوکہ وہ ساری چیزیں جو اہمیت رکھتی ہیں جیسا کہ خوبصورتی ، محبت ، تخلیقات ، خوشی اور اندرونی سکون وغیرہ دماغ کی حد سے پر ے جنم لیتی ہیں اس احساس کے ساتھ تمہارا شعوری بیداری کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔‘‘

امریکی مورخ اور فلاسفر ڈاکٹر ٹامس کیون اپنی کتاب Structure of the scientific Revolutionsمیں کہتا ہے کہ ’’آپ اپنے ماحول اور دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ آپ اپنے ماحول اور اردگرد کی دنیا کو اپنے ذہن میں کیسا محسوس کرتے ہیں اور اس کی تشریح کیسے کرتے ہیں۔‘‘

آج سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ سوچ کا آغاز ہمارے دماغ سے ہوتا ہے لیکن مائنڈ سائینسز NLPنے ثابت کیا کہ انسانی سوچ کا تعلق دماغ کے ساتھ ساتھ دل سے بھی ہوتا ہے ۔ خیال دماغ میں پیدا ہوتا ہے اور دل اس کی تصدیق کرتا ہے۔

جدید نفسیات کے بانی پروفیسر ڈاکٹر ولیم جیمز نے سالہا سال کی تحقیق کے بعد یہ دریافت کیا کہ اس صدی کی سب سے بڑی دریافت یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنے خیالات اور رویے تبدیل کرکے اپنی زندگی تبدیل کرسکتے ہیں ، یعنی خود شناسائی اپنے آپ کوکھوجنے اور تلاش کرنے کی سیڑھی ہے۔ رومی نے کہا تھا ’’ تمہاری ذات ایک بحر بیکراں ہے، اپنی تلاش کے لیے تمہیں اس کی گہرائی میں اترنا ہوگا۔‘‘

ایک فوٹوگرافر نے اپنے اسٹوڈیو میں فوٹوکھنچوانے کا یہ ریٹ لکھا ہوا تھا (1) 5ڈالر میں ویسی فوٹو بنوائیں جیسے آپ ہیں (2) 7ڈالر میں ویسی فوٹو بنوائیں جیسا آپ اپنے متعلق سوچتے ہیں (3) 10ڈالر میں ویسی فوٹو بنوائیں جیسا آپ لوگوں کو نظر آنا چاہتے ہیں۔

اس فوٹو گرافر نے بتا یا کہ مجھ سے لوگوں نے ہمیشہ 10ڈالر والی فوٹو بنوائی ہے کیونکہ بیشتر لوگ اپنی ساری زندگی دوسروں کو دکھانے کے لیے گذار دیتے ہیں ، عمر بھر وہ دکھا ؤا ہی کرتے رہتے ہیں اور 5 ڈالر والی اوریجنل زندگی نہیں گذارتے۔ کیا مادی اشیا اور دولت و شہرت کی فراوانی خوشیوں، سکون اور طمانیت کی ضمانت بن سکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ڈاکٹر آرک بیٹک نے عالمی سطح پر معروف تین شخصیات (1) پاپ سنگر مائیکل جیکسن (2) ہالی ووڈ ایکٹر نکو لس گیج (3) عالمی باکسنگ چیمپئین مائیک ٹائسن کاحوالہ دیا جو دولت، شہرت اور مقبولیت کے اعتبار سے دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہیں لیکن بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ تینوں شخصیات قلاش اور دیوالیہ ہوئے ان کی وہ ساری دولت کہاں گئی؟ ان کی ساری دولت خوشیاں خریدنے میں ختم ہوگئی۔

یہ افراد ساری زندگی خوشیوں کے خریدار بنے رہے۔ عین ممکن ہے کہ ان افراد نے وقتی طور پر کچھ عارضی خوشیاں حاصل بھی کی ہوں لیکن ان کی زندگی دکھوں ، پریشانیوں اور تکالیف سے بھری ہوئی تھیں۔ مائیکل جیکسن ذہنی مریض بنا اور پراسرار موت کا شکار ہوا۔ نکولس گیج شراب کا رسیا بنا رہا اور اس کا طویل عرصہ کئی اسپتالوں اورRehab سینٹرز میں علاج ہوتا رہا اور مائیک ٹائسن کو اپنی پارٹیوں میں نشے کی حالت میں غلط حرکتوں کی وجہ سے تین سال جیل کی قید بامشقت بھگتنی پڑی ، جو زندگی اپنے لیے خوشیاں خریدنے تک محدود ہے وہ زندگی نہیں عمر کہلاتی ہے۔

ہم اپنے دماغ کے مطابق چیزوں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں اور اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ ہم شاندار فیصلے کرتے ہیں اور شاندار زندگی گذار رہے ہیں ، چاہے وہ فیصلے غلط ہی کیوں نہ ہوں ، لیکن انھیں پوری زندگی یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ انھوں نے صحیح فیصلے نہیں کیے تھے ، لیکن جب نا خوشی ، بے آرامی، بے سکونی ، پریشانیاں ، بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں تو وہ ہکا بکا رہ جاتے ہیں اور سارا الزام دنیا بھر کو دینا شروع کردیتے ہیں ۔

یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ وہ فیصلے انھوں نے نہیں بلکہ ان کے دماغ نے کیے ہوتے ہیں۔ ان کے دل نے نہیں ، وہ کبھی یہ جان ہی نہیں پاتے ہیں کہ ان کی سوچ کی حد سے باہر ذہانت کی ایک بڑی سلطنت ہے وہ کنویں کے مینڈک کی طرح کنویں کو ہی سب کچھ مان رہے ہوتے ہیں۔ زندگی چھوٹے چھوٹے ان گنت فیصلوں کا نام ہے۔ سکون یا بے سکونی ، خوشی یا نا خوشی ، آرام یا بے آرامی ان ہی فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہے جب آپ خود شناس نہیں ہوتے جب آپ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں ہیں۔

اپنے آپ کو دریافت نہیں کرتے ہیں تو پھر آپ کے فیصلے آپ نہیں بلکہ کوئی اورکررہے ہوتے ہیں تو پھر ظاہر ہے وہ فیصلے آپ کے لیے صحیح کیسے ہوسکتے ہیں۔ عقل مندی و دانش مندی اور سمجھ بوجھ علم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔

اپنی کھوج اور تلاش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آپ کی خوشیوں اور سکون کا سارا تعلق آپ کے دماغ سے نہیں بلکہ آپ کے دل سے ہے،آپ اگر آخری دم تک خوش سکون اور صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو اپنے دل کی مانیے اپنے دل سے سوچیے ،کیونکہ آپ کا دل آپ کا سب سے زیادہ وفادار دوست اور مخلص ساتھی ہے جو آپ کوکبھی بھی غلط فیصلے نہیں کرنے دے گا ، جو آپ کو ہمیشہ صحیح اور درست رستہ دکھلاتا رہے گا وہ راستہ جو خوشیوں ، سکون کی سلطنت میں آپ کو ہمیشہ کے لیے داخل کردے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔