قوانین اور قاعدے

شہلا اعجاز  جمعـء 30 ستمبر 2022

اس بات کو برسوں گزرچکے ہیں لیکن اپنی مخصوص نوعیت کے باعث یہ بات، آج تک ذہن سے محو نہ ہو سکی، کسی اسکیم کے تحت پلاٹ، سرکاری نرخ پر درخواستوں کے ذریعے اخبارات میں منظر عام پر آئے۔

اس سلسلے میں درخواست گزار کے لیے چند شرائط بھی لاگو تھیں جن میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر میاں اور بیوی نے الگ الگ درخواستیں جمع کرائی ہوں اور دونوں کی درخواستیں قرعہ اندازی میں نکل آئیں تو ضوابط کے مطابق شوہر یا بیوی میں سے کسی بھی ایک شخص کو اپنی درخواست سرینڈر کرانا یا منسوخ کرانا ہوگی۔ اس صورت میں دونوں اشخاص کو میاں بیوی کی حیثیت سے پلاٹس نہیں دیے جاسکتے۔

اتفاق سے ایک جوڑے نے یعنی میاں صاحب نے بھی اور ان کی اہلیہ نے بھی درخواستیں جمع کرائیں اور دونوں کے نام قرعہ اندازی کے خوش نصیبوں میں شامل ہوگئے۔ دونوں مذکورہ ادارے کے دفتر پہنچے اور خوشی خوشی حق دار بننے کے مراحل مکمل کرنے کے منتظر تھے۔

اس شعبے کے افسر نے پہلے شوہر صاحب کے کاغذات چیک کیے اور پھر اہلیہ صاحبہ کے۔ لیکن جب انھیں پتا چلا کہ ان دونوں کا آپس میں رشتہ کیا ہے تو انھوں نے درخواست فارم انھیں پڑھوایا جس کے مطابق ان میں سے کسی ایک کے نام ہی یہ پلاٹ مل سکتا تھا۔ صاحب بضد تھے کہ کوئی صورت بتائیے کہ ہم دونوں کے ہاتھ یہ پلاٹ ضرور لگے۔

افسر صاحب نے انتہائی گرما گرمی کے بعد یہ کہہ دیا کہ ’’ صاحب ! صورت یہی ہے کہ اپ اپنی اہلیہ کو اگر طلاق دے دیں تو اس درخواست کے قانون کے تحت آپ دونوں کو پلاٹ مل سکتا ہے۔‘‘انتہا سے زیادہ حیرت کا مقام تب آیا جب ان صاحب نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنی بیگم صاحبہ کو طلاق دے دی اور فرمانے لگے ’’ لیجیے میں نے آپ کی شرط پوری کردی۔ اب آپ ہم دونوں کو پلاٹ دینے سے انکار نہیں کرسکتے۔ ‘‘ ظاہر ہے کہ اس کے بعد جو ہونا تھا وہ ہوا ہوگا لیکن اس لالچی انسان کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ قوانین انسانوں کی فلاح کے لیے بنائے جاتے ہیں اور جس قانون میں انسان کی فلاح نہ ہو شر ہو وہ قانون ہی کیا۔

ہم ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے بھی قوانین کا راگ الاپتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ڈھیروں قوانین صرف قانون کی کتابوں میں اور قانون کے پڑھنے والے طلبا کو پڑھانے سمجھانے کے لیے ہی استعمال ہوتے ہیں کیونکہ بہت سے قوانین کا احاطہ محض کتابی حد تک ہی محدود رہتا ہے ،کیونکہ ہمارے یہاں قوانین کو اپنی مرضی سے چلانے کا خاص فن یا حربہ بھی ہمارے ہی پاس ہے۔

زیادہ دور نہیں اپنے لاہور شہر کی بات ہے ایک بڑی قیمتی زمین کا مقدمہ حکومت کے کئی اداروں میں قائم تھا یعنی تاریخیں پڑتی تھیں اور گزر جاتی تھیں اور جن صاحبان کے پاس قبضہ تھا ان کے بارے میں سننے میں آیا کہ گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں کی زمین کوڑیوں کے مول فروخت کرکے خود آگے نکل گئے۔

یعنی مقدمہ بھی قابل فروخت ہے بہر حال بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ بات تو قوانین اور اس کی شرائط کی ہو رہی تھی جسے عوام الناس اپنی مرضی سے توڑ مروڑ کر فٹ کرلیتے ہیں۔ٹرانس جینڈر کے بارے میں اس قدر سننے میں آیا اور اس کے متعلق پڑھنے کو بھی ملا لیکن ہونے اور محسوس کرنے کے بارے میں شکوک و شبہات کہتے ہیں کہ ہم تو چھیڑیں گے، توڑیں گے اور مروڑ مروڑ کر اپنے مطابق فٹ کرلیں گے اور جب چیزوں کو اپنے مطابق قانوناً فٹ کرنے کی کوشش کی جائے تو شرارت تو ہوتی ہی ہے۔

یقینا قانون کو عوام الناس کی بہتری کے لیے بنانا اور عمل درآمد کرانا قابل تحسین کام ہے لیکن اس قانون قدرت کی جانب دیکھنا پہلا اصول ہے کہ کہیں ہم الجھتے الجھتے اس اعلیٰ ذات کے بنائے گئے فطری اصول زندگی سے مڈبھیڑ نہ کر بیٹھیں ، بالکل اسی طرح جیسے سانس ناک کے ذریعے لیا جاتا ہے، کھانا منہ کے ذریعے کھایا جاتا ہے، پیروں سے چلا جاتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ہم ہاتھوں سے سانس لیں، پیروں سے کھانا کھائیں اور زبان سے دیکھنا شروع کردیں۔

انسان اور جانوروں میں بہت واضح فرق ہے۔ ہاتھی کی بڑی سی سونڈ دراصل اس کی ناک ہے۔ مینڈک چلتا نہیں بلکہ چھلانگیں لگاتا ہے، جانوروں میں ڈھیر ساری مثالیں ہیں لیکن انسان دو پیر، دو ہاتھ، دو آنکھیں، دو کان رکھنے والا ہے، رنگت خطوں کے حوالے سے سفید، کالی، گندمی وغیرہ ہو سکتی ہے۔ قدرت نے جانوروں کے لیے قوانین نہیں رکھے پھر بھی ایک چڑیا اور چڑا اپنی فیملی کو ترتیب دیتے ہیں اور اسی طرح چڑیوں کی نسل چلتی ہے۔ یعنی ایک نر اور ایک مادہ۔ یہی اس دنیا کی خوبصورتی ہے۔

دنیا اب ایک عجیب کھیل میں داخل ہو رہی ہے۔ ایک ایسا شیطانی کھیل جسے انسان اپنی جدت پسندی، ترقی، شعور اور تعلیم کے اوزار سے کھیلتے یا نام استعمال کرتے بہت دور نکل جانا چاہتا ہے۔ عورت کے حقوق ہمارے مذہب نے بہت خوب صورتی سے رکھے ہیں اور ایسا کسی بھی مذہب میں نہیں ہے۔

وراثت کے حقوق میں طے کردیا گیا ہے کہ بیٹے کا حصہ، ماں کا حصہ، بہن کا حصہ، بھائی کا حصہ، بیٹی کا حصہ، بیوی کا حصہ، طلاق ہو جانے کی صورت میں بھی ناپ تول کا پرفیکٹ قانون کہ اس کے بعد زیادہ دماغ لگانے کی ضرورت نہیں کہ چودہ سو سال پہلے ہی ہمارے لیے آسانی کردی گئی تھی۔

جیسے اللہ نے انسان کی شکل میں پیدا کیا وہ ان کی محبت کا ثبوت ہے کیونکہ رب العزت تو بندے کو ستر ماؤں سے بھی زیادہ چاہتے ہیں۔ محبت میں عزت کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ، لیکن عزت کو ازحد بڑھا دیا جائے تو وہ وبال بن جاتا ہے۔ٹرانس جینڈر کے حوالے سے تحقیق کی تو پتا چلا کہ دنیا بھر میں اس کی آبادی ایک فیصد سے بھی کم ہے اور روایتی انداز میں اس کی تعریف میں جسم کی واضح مختلف ساخت ہے۔ مجھے یاد ہے میری امی کی کزن کے بیٹے کے ساتھ بچپن میں کچھ مسائل تھے وہ ایک بہت خوب صورت بچہ تھا۔

اب پوری باتیں تو یاد نہیں سوائے اس کے کہ آپریشن ہوں گے اور یہ لفظ ہی اپنی نوعیت میں خطرناک ہے۔ خالہ نے ہمت سے کام لیا اور آج ماشا اللہ سے وہ دو پیارے بچوں کا باپ ہے۔ چھوٹو ابھی سات آٹھ مہینے کا ہے اور ابھی تک وہ بچہ اپنے خاندان کا پہلا لڑکا ہے۔

اسی طرح سے ایک عزیزہ کا بیٹا پیدائشی بالکل نارمل تھا، ماں باپ نے پڑھایا لکھایا، نوکری کی اور شادی بھی کردی، اوپر والے نے بیٹے کی نعمت سے بھی نوازا، لیکن موصوف نے نہ جانے کیسے وہ صحبت اختیار کرلی۔

ایک بالکل نارمل مرد ابنارمل بننے کی کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ بیوی نے بدنامی کے ڈر سے علیحدگی اختیار کر لی، وہ اپنے گھر کا انتہائی ذمے دار شخص تھا، گھر بھرکی دیکھ بھال کے ساتھ بیمار ماں کا خیال اور نوکری الگ ۔ پھر ایک اچانک معمولی سے بخار سے بات گردوں کے فیل ہوجانے اور پھر اس جوان کی موت کا سبب بن گئی۔مثالیں بے شمار ہیں لیکن حقائق اپنی جگہ بدستور قائم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔