سیلاب اورگلوبل وارمنگ (تیسرا اور آخری حصہ)

سعد اللہ جان برق  اتوار 2 اکتوبر 2022
barq@email.com

[email protected]

لیکن کچھ مخلوقات نے ارتقاء کرکے خشکی پر زندہ رہنے کی صلاحیت یااستعداد پیداکرلی۔پھر ارتقاء کے ایک طویل دورمیں بات انسان تک پہنچی اوریہاں سے چاروں اطراف میں خروج ہوتے رہے، وجہ وہی کثرت آبادی اورقلت خوراک تھی۔

اس پورے سلسلے کے واقعات اورٹائمنگ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس باریک اورانتظام سے یہ سارا پروگرام چلتارہا ہے۔ جب تک کھیت تیارنہیں ہوتایاموسم سازگار نہیں ہوتا ہے تو کسان بعض فصلوں کی پنیری کسی خاص محفوظ جگہ اگاتے ہیں، ادھر کھیت تیارکرتاہے اورادھر پنیری کی حفاظت اورپرداخت کرتاہے اورجب کھیت تیار اورموسم سازگار ہوجاتاہے تو کیاری سے پنیری نکال کر کھیت میں پھیلا دیتاہے، یوں ہم اس پہاڑی کیاری کو بھی دیکھتے ہیں کس کمال ہنرمندی سے ٹیکٹانک مومنٹ ہوئی اوراتھلے پانی میں سے یہ سلسلہ کوہ ابھرآیا،اس وقت زمین پر زیادہ تر پانی ہی پانی تھا،کہیں زیادہ ،کہیں کم اورخشکی کے ٹکڑے بہت کم تھے ،یہ جو ہموار میدانی زمینیں ہم اب دیکھ رہے ہیں، اس وقت پانی کے نیچے یاسیلابوں کی زد میں تھیں ،اکثرریگستان اورچھوٹے سمندراور جھیل بھی نہ تھے، مطلب یہ کہ کھیت تیارنہیں تھا تو پنیری اس محفوظ پہاڑی سلسلے میں پنپ رہی تھی۔

برفانی دور ختم ہواتو سیلابی اوربارانی دورچلا اور کروڑوں ٹن کے ملبے سیلابوں کے ذریعے لے جاکر ان ہموار زمینوں میں بچھائے جس سے سیلابوں نے بھی ندی نالوں اوردریائوں کی شکل اختیار کرکے اپنی گزرگاہیں بنائیں اورپانی پیچھے ہٹ کر سمندروں میں جمع ہوگیا،میدانی علاقے ابھر آئے، ریگستان بن گئے اوراس کے ساتھ ایک اورعمل بھی باقاعدہ چل رہاتھا، یہ پہاڑی دیواراس وقت اتنی اونچی نہیں تھی، موجودہ بلند سے آدھی بھی نہیں ہوگی۔

ارضیات والے جانتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ چالیس کروڑ سال گزرنے پر بھی یہ پہاڑی سلسلہ اب بھی دوسنٹی میٹرسالانہ اوپراٹھ رہاہے اوراتنا ہی ہند کا ٹکڑا ایشیا میں گھس رہا چنانچہ وہ ایک دور تھا جس میں یہ وادیاں اورچوٹیاں سرسبزباغ ہواکرتی تھیں، آبادی کم خوراک وافرتھی ،آدمی ہاتھ بڑھا کرجو چاہتا کھالیتا لیکن آہستہ یہ ہلالی دیوار اتنی اونچی ہوگئی کہ سمندری مرطوب ہوائوں اوربارشوں کے لیے روگ بن گئیں اورنتیجہ یہ نکلا کہ خود ہی چوٹیاں اوپر اٹھ کر برف زاروں میں بدل گئیں اورپیچھے قطب شمالی تک وسطی ایشیا کے جنگل اورباغ جیسی سرسبزی جل کر ریگستانوں میں بدل گئیں اوراسی باعث یہاں سے وہ خروج شروع ہوگئے جن کاذکر کرچکا ہوں ،دس سال میں ایک خروج یہاں سے نکل کر پھیلتارہا ،پنیری کیاری سے نکل کر کھیت میں پھیلتی گئی۔

موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایک اورتبدیلی بھی چلتی رہی، انسانوں میں سے کچھ گروہ ایسے بن گئے جو قبضے کا رحجان رکھتے تھے، اس گروہ کے ہاتھ پتھرتراشتے ہوئے ’’آگ ‘‘ جیسی زبردست چیزلگ گئی تھی، انھوں نے موجودہ وسائل پرقبضہ کرلیا تو کمزورں کو مجبورہوکر دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کرنا پڑی ،آج بھی ایسا ہی چل رہا ہے، کیا سوات، دیر،چترال اورکشمیرکے لوگ پاگل ہیں جو اپنے جنت نظیروطن کو چھوڑکر کوئلے کی کانوں میں مرتے ہیں، کارخانوں میں جلتے ہیں اورپردیس بھوگتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک لطیفہ نما واقعہ بھی بیان کیاجاتاہے، کہتے ہیں کہ کراچی میں ایک شخص سڑک کنارے بیٹھے ایک پالشی لڑکے سے جوتے پالش کرارہا تھا، اس نے لڑکے سے پوچھا کہ تم کہاں سے ہو، اس لڑکے نے اپناوطن بتادیاجو ان ہی جنت نظیرمقامات میں سے ایک تھا، اس پر ان صاحب نے کہا، تم اتنی دورآکر پالش کرتے ہو،یہ کام تو تم اپنے وطن میں بھی کرسکتے ہو، لڑکے نے کہا ،ہاں کرسکتاہوں لیکن وہاں کسی کے پیروں میں جوتے ہوں تو پالش کروں،یہ بتادوں کہ ان پہاڑی خطوں میں کچھ عرصہ پہلے تک لوگ گھاس کے جوتے بناکر پہنتے تھے جو اب پلاسٹک کے ہوتے ہیں۔

بات گلوبل وارمنگ سے شروع ہوئی تھی، یہ تمام پانی انسان کی غلاظتوں کو لے کر سمندروں میں پہنچ جاتاہے، وہاں سورج کی تمازت سے بھاپ، پھر بادل اورپھروہی بارش۔اورغلاظتیں قدرت کے بنائے ہوئے فلٹرسمندر میں رہ جاتی ہیں، کیاخود بخود ایسا نظام بن گیا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔