اکتوبر کے بعد

جاوید قاضی  اتوار 2 اکتوبر 2022
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اکتوبر کا مہینہ ہے، ڈار صاحب بھی آگئے ہیں۔ آپ کو بھلے یہ گھمسان کی جنگ بظاہر نظر آتی ہو لیکن جنگ ٹھہر گئی ہے، نہ تین وکٹیں گرتی نظر آرہی ہیں، نہ کامیاب لانگ مارچ ، نہ ڈی چوک کی فتح، نہ جلد انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں، میرے حساب سے جنگ ٹھہر گئی ہے، لیکن آپ چونکہ آج کل ان آڈیو لیکس پر اپنا خیال ترتیب دے رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایک طوفان ہے جو بہت کچھ اپنے ساتھ لپیٹ لے گا، میرے خیال میں ایسی کوئی بات نہیں۔

خان اکتوبر میں ایک انقلاب لانے کے چکر میں ہیں اور یہ سچ ہے کہ ان کے پاس ایک ہی ذریعہ ہے جس کے ذریعے وہ اقتدار پر پھر سے اپنی مہر لگا سکتے ہیں، وہ ہے گھمسان کی جنگ ، سول نافرمانی اور پھر انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ، وہ نہیںجانتے کہ کرنل قذافی کی طرح اب اقتدار پر قبضہ یا جنرل مشرف کی طرح کیوں نہ ہو یہ کل کی باتیں ہیں۔ باقی انتخابات میں اکثریت لے جانا خان صاحب یہ بھول جائیں۔ اب کی بار خان صاحب کو یہ سہولت میسر نہیں جو 2018 میں تھی۔

لگ بھگ چھ مہینے ہوگئے اس حکومت کو، جس معاشی تباہی سے خان صاحب نے اس ملک ہمکنار کیا، جس ناکام خارجہ پالیسی کی شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں خان صاحب نے بنیاد رکھی۔ بلاول بھٹو اور مفتاح اسماعیل ان دونوں محاذوں پر بھرپور محنت سے اس ملک کو نہ صرف دیوالیہ سے بچایا بلکہ بلاول بھٹو اس مرتبہ اقوام متحدہ کے حوالے سے دو ہفتوں سے نیویارک میں جو مختلف فورم پر پاکستان کا موقف رکھا، ڈپلومیٹ حلقوں میں جو ملاقاتیں کیں وہ بہت کارگر ثابت ہوئیں۔ جیسے ایک جمود تھا جوٹوٹ گیا۔

بلاول بھٹو اپنے خطابات اور انٹرویوز میں پہلی بار بہت کھل کے سامنے آئے اور ہم جیسے لوگوں کو پہلی مرتبہ ان کی ذہانت کو پرکھنے کا موقع ملا، وہ بہت ہی capable نظر آئے۔ ایک بلاول بھٹو وہ تھے جو قومی اسمبلی میں یا جلسوں میں شعلہ بیاں تقاریر کرتے ہیں اور ایک بلاول بھٹو یہ ہیں جو فصیح وبلیغ انگریزی میں پاکستان کا موقف امریکا میں رکھتے نظر آئے کہ یوں لگتا ہے پاکستان کی خارجہ محاذ پر پاکستان کا بہت بڑا سرمایہ ہے اور اس کا کوئی بھی نعم البدل اس موجودہ پاکستان میں نہیں ہے۔ بلاول بھٹو پر جو کل تک ٹٹولیاں کرتے تھے، ان کو منہ کی کھانی پڑی، وہ اپنی ماں اور نانا کی شان ہے اور کچھ پہلوئوں میں ان سے بھی آگے۔

لیکن ہمارے معاشی محاذ پر ہمیں بہت چیلنجز ہیں۔ بات ڈالر کا اوپر جانا یا نیچے جا نا نہیں ہے۔ بات ہے واپس پاکستان کو چھ سے سات فیصد کی شرح نمو پر لے جانے کی، جس بربادی کا خان صاحب اس موجودہ حکومت کے زمانے میں اندازہ لگا رہے تھے اور خود اس حکومت کو ناکام کرنے کے لیے جو انھوں نے کام کیے وہ نہیں ہو پایا اور وہ اپنی سیاست کو جارحانہ رکھ کر اب کے تو وہ خود اپنے خلاف مخالفین سے چو کے اور چھکے لگوارہے ہیں۔ ان کے مداحوں تک یہ بات اپنا اثر چھوڑے گی کہ ’’امریکی سازش‘‘ کا جو بیانیہ تھا وہ جھوٹا تھا۔ وہ تو صرف اس پر کھیلنا چاہتے تھے۔

خان صاحب کے پاس بھی آڈیوز ہیں تو حکومت کے پاس بھی خان صاحب کی جو آڈیوز ہیں۔ ان آڈیوز سے بہرحال حکومت نہیں گر رہی، لیکن خان صاحب کے خلاف جو آڈیوز کام کررہی ہیں ان سے خان صاحب کی اخلاقی حیثیت بہت کمزور ہورہی ہے۔ یہ بات اب سچی بنتی جارہی ہے کہ خان صاحب جھوٹ بہت بولتے ہیں۔ ان کے ارد گرد لوگوں نے کرپشن کی۔ توشہ خانہ ، رنگ روڈ، لندن سے رقوم پاکستان کے لیے آئیں اور گئیں کسی اور کے اکائونٹ میں ۔ شہزاد اکبر اور فرح گوگی ملک سے فرار ہوگئے۔

اکتوبر کے ڈھلتے ہی بہت سے لوگ معافی اور تلافی پر چلے جائیں گے، اپنا قبلہ درست کریں گے، آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک۔ لیکن جو خاص چیز خان صاحب کے سیاسی افق پر ابھرنے سے ہوئی ہے کہ جو بڑی محنت سے ہم نے ایک بیانیہ ترتیب دیا تھا ، جو جنگ کے طبل بجائے تھے جو پاکستان کو نظریاتی ریاست بنایا تھا، اس بیانیے سے بڑے بڑے لوگوں کا ذریعہ معاش جڑا ہوا تھا، وہ سب کے سب اب خان صاحب کی جھولی میں آن گرے، جو ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی جھولی میںرہتے تھے۔

اسٹبلیشمنٹ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ لوگ liabilityتھے، ان درباریوں نے اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا ۔ خود پاکستان کو اب نظریاتی ریاست کی سوچ سے نکال کر عوامی، جمہوری اور معاشی مستحکم پاکستان کے بیانیے سے ہمکنار کرنا ہوگا۔ خان صاحب ان لوگوں سے اور اس بیانیہ سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے اور یہ لوگ جو خان صاحب کے ساتھ لگے ہوئے ہیں وہ بے روزگار ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

اور اگر اس طرح نہیں ہے تو یوں سمجھیے خان صاحب فرض کرلیں اقتدار میں آگئے۔ تو پھر کیا ہوگا؟ ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں برقرار رہیں گے۔ سعودی عرب سے دبئی سے ہمارے تعلقات خراب ، امریکا اور یورپی یونین سے خراب ۔ طالبان کا اثر بڑھ جائے گا اور دنیا پاکستان کے نیوکلیئر ہونے کا خطرناک محسوس کرے گی۔ آئی ایم ایف سے ہمارے معاہدے معطل ہوجائیں گے،یہاں جو بھی خان صاحب کے مخالفین ہیں، وہ جیلوں میں اور خان صاحب دوبارہ کارکردگی دینے کے برعکس بڑی بڑی باتیں کرتے رہیں گے اور جو پھر اس ملک کے ساتھ بلاخر ہوگا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔

بحیثیت ملک ہم existential crisis سے گزر رہے ہیں، ہم نے اگر پاکستان کی سیاست میں اس طرح انجینئر نگ نہیں کی ہوتی، جمہوریت کو پپنے دیا ہوتا تو آج اس ملک کی معاشی حالات اتنے برے نہ ہوتے۔ پاکستان کے لیے اب صرف ایک ہی راستہ ہے وہ ہے اس بیانیے کو رد کرنا جس کی پرورش خصوصا جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوئی اور ان کی رحلت کے بعد یہ اور بھی مضبوط ہوا، اس بیانیہ نے ایک ذہنی طور پر دیوالیہ اور موقع پرست اشرافیہ کی نسل کو پروان چڑھایا۔

ہم نے سیاستدانوں کو بدنام کیا ، سیاست کرنا جرم سمجھا، لیکن جتنی سزا اس ملک میں ان سیاستدانوں نے کاٹی ہے شاید ہی یہ سزا کسی جنرل کے نصیب میں آئی ہوگی۔ بھٹو، بے نظیر جان ہار گئے جب کہ نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف، فریال تالپور، مریم نواز جیلوں میں رہے۔ اکتوبر کے پورے مہینے میں آپ کو سیاسی ماحول بہت گرم تو نظر آئے گا لیکن یہ آخری رائونڈ ہے جو اب تک کی صورتحال میں یہی بتا رہا ہے کہ فیصلے ہوچکے ہیں، اب صرف رسم باقی ہے۔

اکتوبر کے اختتام پر یہ ملک ایک نئی سمت کو چل پڑے گا جو انجینئرنگ کرکے 2002 کے بعد ایک مصنوعی لیڈر بنایا گیا جمہوریت کو ختم کرنے کے لیے ہائبرڈ سسٹم کو پیدا کیا 2012 کے بعد اور 2014 اس کو ڈی چوک پر اتارا گیا ، وہ اپنے منطقی انجام کے قریب پہنچ گیا ہے۔

ہاں اگر خان صاحب کو اس ملک کی سیاست میں اپنے آپ کو زندہ رکھنا ہے تو جس طرح ان کو ہمارے معزز چیف جسٹس پاکستان نے مشورہ دیا کہ وہ اسمبلی میں واپس جائیں ۔ کچھ انتظار کریں، کچھ سیلاب کے حوالے سے حکومت سے تعاون کریں اور ان کے بارے میں مجموعی طور پے جو رائے بنی ہے اس کو غلط ثابت کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔