دس ارب ڈالر کا سوال

جاوید چوہدری  اتوار 2 اکتوبر 2022
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

میں آپ کو چند لمحوں کے لیے ایک بار پھر ماضی میں لے جاتا ہوں‘ مارچ 2022 تک اسد مجید امریکا میں ہمارے سفیر تھے‘ ان کی مدت ملازمت ختم ہو رہی تھی‘ انھوں نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیں۔

7 مارچ کو امریکا کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو کے ساتھ ان کا الوداعی لنچ تھا‘لنچ پر اسد مجید نے شکوہ کیا ’’میری مدت ختم ہو گئی لیکن آپ نے صدر جوبائیڈن کی ہمارے وزیراعظم سے بات نہیں کرائی‘‘ یہ سنتے ہی ڈونلڈ لو نے شکوؤں کی پٹاری کھول دی‘ ان کا کہنا تھا‘ عمران خان نے2020 کے امریکن صدارتی الیکشنز میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سپورٹ کیا تھا۔

آپ لوگوں کی طرف سے امریکا مخالف ٹویٹس بھی آتی رہیں اور عمران خان نے فلاں جگہ پر یہ کہہ دیا اور یہ فلاں جگہ پر یہ کہتے رہے لہٰذا میں صدر کو کس منہ سے فون کرنے کا کہتا وغیرہ وغیرہ‘ بہرحال یہ میٹنگ ختم ہو گئی‘ سفیر اسد مجید نے واپسی پر ملاقات کا احوال لکھا اور سائفر سیکریٹری خارجہ سہیل محمود کو بھجوا دیا۔

سفیر نے مراسلے کے آخر میں لکھا ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہو رہے ہیں‘ امریکی انتظامیہ ہم سے ناراض ہے‘ ہمیں اپنی سفارت کاری پر توجہ دینی ہو گی‘ پروٹوکول کے مطابق ہمارے سفارت خانوں کے زیادہ تر مراسلے سیکریٹری خارجہ‘ ڈی جی آئی ایس آئی اورجی ایچ کیو جاتے ہیں‘آرمی چیف کا اسٹاف مراسلے پڑھ کر اہم ترین کی سمری بناتا ہے اور یہ سمری بعدازاں آرمی چیف کو بھجوا دی جاتی ہے‘ یہ مراسلہ بھی پراسیس سے گزر کر آرمی چیف تک پہنچ گیا‘11 مارچ 2022 کو کامرہ ائیربیس میں جے10سی لڑاکا طیاروں کی لانچنگ تھی۔

وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں اس تقریب میں مدعو تھے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ نے وہاں یہ مراسلہ وزیراعظم کو دیا اور ان سے کہا ’’سر میں آپ کو بار بار عرض کر رہا تھا آپ ٹویٹس اور بیانات میں احتیاط کیا کریں‘ آپ اپنی مرضی کیا کریں لیکن اوپنلی بات نہ کیا کریں‘ آپ اب اس کا نتیجہ دیکھ لیں‘‘۔

وزیراعظم نے مراسلہ کھولا‘ پڑھا‘ مسکرائے اور آرمی چیف سے کہا ’’جنرل صاحب اس قسم کے مراسلے آتے رہتے ہیں‘ آپ اسے سیریس نہ لیں‘‘ اور ساتھ ہی کاغذ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا‘ عمران خان نے بعدازاں27مارچ کوپریڈ گراؤنڈکے جلسے میں ایک کاغذ لہرا کر کہا ’’باہر سے حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے‘ لکھ کر دھمکی دی گئی‘‘ وزیراعظم کی وہ تقریر حیران کن تھی۔

وزارت خارجہ سے لے کر جی ایچ کیو تک افراتفری مچ گئی اور ’’دھمکی اور سازش‘‘ کی تلاش شروع ہو گئی‘ تحقیق کے بعد پتا چلا یہ کاغذ وہی تھا جو آرمی چیف نے کامرہ میں وزیراعظم کو دیا تھا اور یہ سائفر یا مراسلہ نہیں تھا‘ یہ محض سمری تھی اور یہ مختلف دفتروں اور میزوں سے ہوتی ہوئی آرمی چیف تک پہنچی تھی اور آرمی چیف نے وہ گڈ فیتھ میں وزیراعظم کو دکھائی تھی مگر عمران خان نے اسے سیاسی کارڈ بنا دیا۔

یہ کہانی کا ایک حصہ تھا‘ آپ اب دوسرا حصہ بھی ملاحطہ کر لیجیے‘ 28 ستمبر 2022 کو عمران خان اور پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور 30 ستمبر کو عمران خان‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی آڈیو ریکارڈنگز لیک ہوئیں۔

یہ آڈیوز وزیراعظم آفس میں ریکارڈ ہوئی تھیں اور ان میں وزیراعظم عمران خان پرنسپل سیکریٹری سے کہہ رہے ہیں ’’اب ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر‘ نام نہیں لینا امریکا کا‘ صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر‘‘ اور اس کے بعد پرنسپل سیکریٹری وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہیں آپ میٹنگ بلائیں‘ اس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فارن سیکریٹری سہیل محمود یہ خط پڑھ دیں‘ میں اسے ریکارڈ پر لے آئوں گا‘ منٹس میرے ہاتھ میں ہیں‘ میں خط کو دھمکی بنا دوں گا‘ عمران خان میٹنگ کی وجہ پوچھتے ہیں تو پرنسپل سیکریٹری بتاتے ہیں ہمارے پاس خط کی آفیشل کاپی نہیں ہے‘ ہمیں اسے آفیشل بنانے کے لیے میٹنگ کرنی چاہیے وغیرہ وغیرہ‘ آپ اب اگر کامرہ اور خط کی بیگ گرائونڈ کو ذہن میں رکھ کر اس گفتگو کا تجزیہ کریں تو آپ کو محسوس ہوگا وزیراعظم کو جوں ہی سمری ملی انھوں نے اسی وقت اس پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ انھوں نے اس کھیل میں اپنے پرنسپل سیکریٹری کو شامل کیا اور اعظم خان نے انھیں سمری کو آفیشل بنانے کا مشورہ دینا شروع کر دیا تھا۔

دوسری آڈیو میں عمران خان شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو اعتماد میں لیتے ہیں اور اسد عمر کہتے ہیں یہ تو میٹنگ کی ٹرانسکرپشن ہے‘ یہ لیٹر نہیں اور عمران خان کہتے ہیں آپ اسے چھوڑ دو‘ پبلک کو لیٹر اور ٹرانسپکرپشن کا فرق پتا نہیں‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا اس کے بعد میٹنگ ہوئی تھی اور کیا اس میں سیکریٹری خارجہ نے وہ سائفر پڑھا تھا؟ میری معلومات کے مطابق میٹنگ ہوئی تھی لیکن سیکریٹری خارجہ نے سائفر پڑھنے سے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہنا تھا میں سرکاری حیثیت میں یہ نہیں کر سکتا‘ سفارت خانوں کے سائفر سیکریٹری خارجہ کے لیے ہوتے ہیں‘ ہم صرف سائفرز کی سمریاں بنا کر متعلقہ محکموں کو بھجواتے ہیں‘ ہم اپنا سسٹم کسی کے لیے بھی اوپن نہیں کر سکتے۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بعدازاں سیکریٹری خارجہ پر دبائو ڈالا اور سیکریٹری خارجہ نے آفیشل چینل سے سائفر کی سمری وزیراعظم آفس بھجوا دی اور یہ سمری اب ریکارڈسے غائب ہے‘ بہرحال قصہ مختصر وزیراعظم نے پریڈ گرائونڈ کے جلسے میں سمری لہرائی اور اسے لیٹر قرار دے دیا تاہم اصل سائفر31 مارچ2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آیا تھا‘ یہ اجلاس عمران خان کے مطالبے پر بلایا گیا تھا۔

سائفر کی کاپی تمام شرکاء کے سامنے رکھی گئی تھی لیکن وہ کاپی ساتھ لے جا سکتے تھے اور نہ اس کے نوٹس بنا سکتے تھے‘ اسے صرف پڑھا جا سکتا تھا اور وہ پڑھا گیا اور آخر میں ایک متفقہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں یہ ڈکلیئر کیا گیا ’’پاکستان کے خلاف کوئی غیرملکی سازش نہیں ہوئی‘‘ اس میٹنگ کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات بھی ہوئی تھی اور عمران خان نے آرمی چیف سے کہا تھا ’’جنرل صاحب بس ڈیمارش ہو گیا‘ یہ بات اب یہاں ختم ہو جائے گی‘‘ اور تمام لوگ خوشی خوشی گھروں کو واپس لوٹ گئے لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی‘ وہ خط‘ مراسلہ یا سائفر آگے بڑھتا چلا گیااور اس میں سے نیوٹرلز کا طعنہ بھی نکلا‘ امپورٹڈ حکومت کے ہیش ٹیگ نے بھی جنم لیا‘ میر صادق اور میرجعفر بھی پیدا ہوئے‘ غدار اور سازشی کا بیانیہ بھی بنا اور آخر میں اس سے گیدڑ اور شیر بھی نکل گیا اور آپ دیکھیے گا اب دسمبر میں چار لوگوں کے نام بھی لیے جائیں گے۔

یہ تھی سائفر کم سمری کم خط کی کہانی لیکن ہم اگر یہ ایشو وزیراعظم ہائوس کی آڈیو لیکس کے سامنے رکھ کر دیکھیں تو ہمیں چیونٹی اور ہاتھی کا تناسب محسوس ہو گا‘ وزیراعظم کا آفس اور ہائوس دونوں ملک کی اہم ترین جگہیں ہیں‘ وہاں بگنگ ہونا اور پھر اس کا یوں لیک ہو جانا یہ ملکی تاریخ کا خوف ناک ترین واقعہ ہے۔

افریقہ کے انتہائی پس ماندہ ممالک میں بھی ایسے واقعات نہیں ہوتے جب کہ ہم دنیا کی واحد اسلامی نیو کلیئر پاور ہیں اور ان آڈیوز کی لیکس نے ثابت کر دیا ہمارے ملک کا کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی دفتر محفوظ نہیں‘ ہمارے اہم ترین دفتروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ریکارڈ بھی ہو تا ہے اور اس کی ریکارڈنگز پوری دنیا کے سامنے بھی آ سکتی ہیں‘ یہ بھی ثابت ہو گیا ملک دشمن لوگ اور ٹیکنالوجی ہمارے وزیراعظم تک بھی پہنچ جاتی ہے اور ہم لیکس کے بعد بھی انھیں پکڑ نہیں سکتے چناں چہ پریشانی کی اصل بات عمران خان کی گفتگو نہیں۔

وزیراعظم ہاؤس اور آفس کی سیکیورٹی ہے اور اس واقعے نے ثابت کر دیا ہم اس معاملے میں بہت کم زور ہیں‘ اب سوال یہ ہے یہ ریکارڈنگز کس نے کیں اور کیسے کیں؟ اس میں چند امکانات پیش کیے جا سکتے ہیں‘ پہلا امکان یہ ہے یہ ہمارے اپنے لوگوں کا کام ہو‘ ہمارے اداروں نے بگنگ کے آلات لگائے‘ ریکارڈنگز کیں اور یہ ریکارڈنگز بعدازاں سائبر اٹیک یا ہیکنگ کے ذریعے چوری ہو گئیں یا پھر سیاسی اختلافات اداروں کے اندر پہنچ چکے ہیں اور اندر موجود کسی شخص نے ریکارڈنگز اوپن کر دیں۔

دوسرا امکان یہ کام کسی بیرونی طاقت یا ادارے نے کیا‘ آج کے دور میں وزٹنگ کارڈز‘ خطوں‘ برتنوں اور دھاگوں کے ذریعے بھی ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے‘ وزٹنگ کارڈز میں بھی مائیکرو چپ لگ جاتے ہیں اور دھاگے کی شکل میں بھی چپس آ گئے ہیں اور آپ ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے سے لیزر گن کے ذریعے بھی ریکارڈنگ کر سکتے ہیں‘ دور سے کوئی شخص لیزر بیم مارتا ہے‘ لیزر کھڑکی کے شیشے سے اندر جاتا ہے اور سامنے موجود لوگوں کی گفتگو ریکارڈ ہو جاتی ہے اور تازہ ترین ٹیکنالوجی سیٹلائیٹ بھی ہے۔

آپ سیٹلائیٹ کے ذریعے کسی بھی ایسی ڈیوائس کو ریکارڈنگ مشین میں تبدیل کر سکتے ہیں جس میں چپ لگی ہو لہٰذا آج کے زمانے میں ریکارڈنگز زیادہ مشکل کام نہیں لیکن وی وی آئی پی عمارتوں اور شخصیات کو ریکارڈنگ سے بچانا یہ کمال ہوتا ہے اور ہم بحیثیت قوم اس میں مار کھا رہے ہیں‘ دنیا بھر میں سرکاری عمارتوں یا دفتروں میں موبائل فون نہیں جا سکتے‘ صدر اور وزیراعظم بھی موبائل فون کیری نہیں کر سکتے لیکن پاکستان میں ویٹرز اور سویپرز بھی جیب میں موبائل فون رکھ کر صدر اور وزیراعظم کے دفتر میں گھس جاتے ہیں۔

ہماری پوری سرکار موبائل فونز پر چل رہی ہے لہٰذا پھر سیکیورٹی کہاں ہو گی؟ معلومات کو خفیہ کہاں رکھا جا سکے گا اور تیسرا امکان پاکستان تحریک انصاف نے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوتے ہوتے وزیراعظم آفس میں ریکارڈنگ ڈیوائسز لگا دیں‘ وزیراعظم کی ریکارڈنگز کیں اور وہ نشر کر دیں اور حکومت نے جواب میں عمران خان اور اعظم خان کی آڈیو ریلیز کر دی۔

یہ تین امکانات ہیں‘ حقیقت کیا ہے؟ ہم دعوے سے نہیں کہہ سکتے لیکن یہ چیز طے ہے ان آڈیو لیکس نے ملک کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیااور یہ ثابت کر دیا پاکستان ایک غیرمحفوظ ملک ہے‘ اس میں صدر‘ وزیراعظم اور آرمی چیف کی گفتگو بھی محفوظ نہیں لہٰذا سوال یہ ہے کیا ہم ان حالات میں قائم رہ سکتے ہیں؟ یہ دس ارب ڈالر کا سوال ہے!۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔