امریکا پاکستان تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریب سے امریکی سفیر ڈونلڈ بلَوم کا اظہارِ خیال

روزنامہ ایکسپریس  اتوار 2 اکتوبر 2022
امریکی سفیر ڈونلڈ بلَوم۔ فوٹو: فائل

امریکی سفیر ڈونلڈ بلَوم۔ فوٹو: فائل

آج کی شام آپ سب کی آمد کا شکریہ۔ خاص طور پر وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کا خیرمقدم کرتے ہوئے مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے اور اس خصوصی تقریب میں پاکستان کے عوام اور حکومت کی نمائندگی کرنے پر میں اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

آج ہم یہاں پر امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی پچھترویں سالگرہ منانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ موقع ہمیں اپنے تعلقات پر غور کرنے اور ساتھ ہی کئی دہائیوں پر پھیلی ہماری حقیقی کامیابیوں کی یاد دلاتا ہے۔ ہماری شراکت داری نے پاکستان کو معاشی استحکام اور آزادی برقرار رکھنے میں معاونت فراہم کی اور بعض امور میں یہ دنیا کو تبدیل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوئی۔

تاہم یہ اس امر پر غور کرنے کا بھی موقع ہے کہ مستقبل میں ہماری شراکت داری کے کیا معنی ہونگے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ایک اہم موڑ پر ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں تک ہمارے تعلقات کو علاقائی زاویہ سے دیکھا جاتا رہا۔ سرد جنگ سے لیکر افغانستان میں گزشتہ چند دہائیوں تک سلامتی کی صورتحال ہمارے بیانیہ پر حاوی رہی اور اس نے تعلقات کے دیگر اہم پہلوؤں کو دھندلا دیا۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سیکیورٹی کے مسائل یقینی طور پر نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس بات کی اہمیت پاکستان کے عوام سے زیادہ کون جان سکتا ہے، کیونکہ انھوں نے دہشت گردی کی لعنت سے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ وہ ہمارے لوگوں کو مزید نہ دھمکا سکیں ہماری مشترکہ ذمے داری ہے اور ہم اس سے پہلو تہی نہیں کر سکتے۔

تاہم آج دنیا برق رفتاری سے تبدیل ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، بین الاقوامی صحت کے بحران، توانائی کی قلت، ٹیکنالوجی اور تیزی سے بدلتے ہوئے تجارتی اور سرمایہ کاری کے نمونوں نے حسبِ منشا تبدیلی، اختراع اور شراکت داری کے متقاضی ماحول کو جنم دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مشکلات کا یہ مجموعہ امریکا اور پاکستان کے اشتراک کو ازسرنو تشکیل دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارے مشترکہ مقاصد اور باہمی عزائم ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع ہیں۔

ہماری پچھتر برسوں پر مُحیط شراکت داری کے اثرات پورے پاکستان میں نمایاں ہیں۔ کئی دہائیوں سے فراہم کی جانے والی ترقیاتی امداد اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر میں معاون بنی اور ملک بھر میں شاہراہوں کی تعمیر ممکن ہوئی۔ ہزاروں پاکستانیوں نے امریکا میں تعلیم حاصل کی اور تجارتی شعبہ اور حکومت میں اہم عہدوں پر خدمات سرانجام دینے کے لیے پاکستان واپس آئے۔ امریکی کمپنیاں لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں اور ہم نے ذاتی اور پیشہ ورانہ رابطوں کا ایک ایسا نیٹ ورک بنایا ہے جس نے ہمارے تعلقات کا مضبوط سنگ بنیاد رکھا ہے۔

انسانی ہمدردی کی بنیاد پر خدمات کی ایک طویل تاریخ بھی ہمارے ممالک کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔ ہم2005 میں کشمیر میں آنے والے زلزلہ اور 2010 اور 2011 میں آنے والے سیلاب کے دوران پاکستان کی مدد کے لیے موجود تھے اور آج بھی ہم مُلک بھر میں حالیہ تباہ کْن سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد تک زندگی کے تحفظ کی ضامن معاونت کی ترسیل یقینی بنانے کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ زندگی، ذریعہ معاش اور گھروں کا بے تحاشا نقصان افسوسناک ہے۔ میں اجازت چاہوں گا کہ امریکی عوام کی جانب سے تعزیت پیش کروں اور پاکستان کی حمایت جاری رکھنے کا عزم دہراؤں۔

اب جبکہ پانی اترنا شروع ہوا ہے اور تعمیر نو کے کام کا آغاز ہوا چاہتا ہے، امریکا کے عوام پاکستان کے ساتھ مسلسل کھڑے رہیں گے۔ ہم اب تک امریکی حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کی امداد کی مد میں 6 کروڑ 60 لاکھ ڈالر سے زیادہ مالیت کی امداد فراہم کر چکے ہیں، جس میں سیکریٹری خارجہ بلنکن کی طرف سے رواں ہفتہ اعلان کردہ اضافی ایک کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں۔ اس معاونت میں ہنگامی طور پر درکار خوراک ، صاف پانی، بہتر صفائی ستھرائی،مالی مدد اورسر چھپانے کے لییا مداد شامل ہے۔

واضح رہے کہ ہنگامی طور پر امداد کی ترسیل یقینی بنانے کے لیے دبئی میں یو ایس ایڈ کے رسد کے گوداموں سے ایک فضائی پْل کے ذریعہ امریکی فوجی کے ہوائی جہاز استعمال کرتے ہوئے امداد پاکستان پہنچائی گئی تھی۔ پاکستانی حکام اور شراکت داروں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے ہماری معاونت انسانی زندگیوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ متاثرہ کمزور برادریوں کی تکلیف کو کم بھی کر رہی ہے۔ جیسا کہ پاکستان کو درپیش مسائل آنے والے مہینوں میں پھیلنے کے امکانات ہیں لہٰذا امریکا اور دیگر بین الاقوامی شراکت دار حکومتیں مزید اقدامات کریں گی۔

لیکن ضرورت کی اِس گھڑی میں صرف امریکا کی حکومت ہی پاکستان کی مدد کے لیے کوشاں نہیں ہے بلکہ عام امریکی شہری اور نجی کمپنیاں بھی مدد کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔ اب تک وہ دو کروڑ ستر لاکھ ڈالر سے زائد کا عطیہ دے چکے ہیں اور پاکستان کے عوام کو خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان فراہم کیا ہے۔موجودہ صورتحال میں ہم وہی کام کر رہے ہیں جو دوست اور شراکت دار کرتے ہیں یعنی ضرورت کی گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اچھا دوست بْرے وقت کو بھی اچھا بنا دیتا ہے۔

گزشتہ بیس سالوں کے دوران امریکا نے پاکستان کے عوام کو براہ راست بتیس ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی ہے۔ لیکن ہماری سرمایہ کاری اس سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ 1960 کی دہائی میں ہم نے پاکستان میں ’’سبز انقلاب‘‘ کی حمایت کرنے میں مدد کی، جس کے نتیجہ میں گندم اور چاول جیسی اہم فصلوں کی زیادہ پیداوار والی اقسام پیدا ہوئیں اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کے معاشی مواقع میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا جبکہ مُلک بھر میں لوگوں کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا۔

ہم نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ قبل پاکستان میں بجلی کی فراہمی میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے آبی ذخائر اور پن بجلی گھر تعمیر کیے تھے جو آج بھی قابل اعتماد، مؤثر اور صاف توانائی فراہم کر رہے ہیں اور وہ پاکستان کی بجلی کی پیداواری استعداد کار میں بڑے پیمانہ پر اضافہ کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں اور آج بھی پاکستان میں پانچ کروڑسے زیادہ لوگوں کے گھروں کو بجلی فراہم کر رہے ہیں۔

مذکورہ آبی ذخائر پانی کی تباہ کْن قلت کی روک تھام، سیلاب کے اثرات کو کم کرنے اور زرعی پیداوار کو بڑھانے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ صرف منگلا اور تربیلا ڈیم ہی پاکستان سے گزرنے والے پانی کا تقریباًدس فیصد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ گومل زم ڈیم کیتوسط سے آبپاشی نے قریبی علاقہ میں زرعی پیداوار کو دوگنا کردیا ، ہزاروں لوگوں کو خوراک اور معاشی مواقع فراہم کیے اور حالیہ سیلاب کے دوران زندگیوں اور معاش کو بچانے میں مدد ملی۔

بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر سے ہٹ کر ، ہمارے تال میل نے ہمارے دوطرفہ تعلقات کا شاید سب سے مضبوط حصہ بنانے میں مدد کی ہے اور وہ ہے دونوں ممالک کے عوام کے باہمی تعلقات۔ 1950 سے ہماری دونوں حکومتوں نے فلبرائٹ پروگرام جیسے اعلیٰ تعلیم کے تبادلہ پروگراموں کے ذریعہ باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دیا ہے۔

آج ہم کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلہ میں پاکستان میں فلبرائٹ پروگرام میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ہمارے لوگوں کے درمیان تعلقات کی طاقت کا اندازہ ہمارے تبادلہ پروگراموں کے سابقہ طلبہ پر مشتمل تنظیم کے 83 ہزارمتحرک ممبران سے لگایا جا سکتا ہے جو دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا سلسلہ ہے۔ آس پاس کی دنیا میں چاہے کچھ بھی ہو رہا ہو، یہ عوامی روابط ہمارے تعلقات کو مضبوط رکھتے ہیں۔

معیشت کو ہمارے تعلقات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ امریکا وسیع فرق سے پاکستان کی مصنوعات کے لیے سب سے بڑی واحد برآمدی منڈی ہے۔ ہم پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری میں اُس سے پچھلے سال کے مقابلہ میں پچاس فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ اب یہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ ہونے والی سرمایہ کاری ہے۔

امریکی کمپنیاں اور ان سے وابستہ مقامی ادارے پاکستان میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد بلاواسطہ ملازمین کے ساتھ سب سے بڑے آجروں میں شامل ہیں جبکہ وہ بالواسطہ طور پر لاکھوں لوگوں کی معاونت کرتے ہیں۔ ہماری کمپنیوں کا پاکستان کی مارکیٹ میں توانائی، زرعی آلات اور مصنوعات سے لیکر فرنچائزنگ، خوردہ تجارت اور ڈیجیٹل شعبہ سمیت اعلیٰ معیار کی مصنوعات کی تیاری اور خدمات کی فراہمی کا ایک طویل ریکارڈ موجود ہے۔

صحت کے شعبہ میں ہمارے تعاون نے پاکستان کو کووڈ19 وباکا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلہ میں بہتر طور پر تیار رہنے میں معاونت کی اور امریکا نے سات کروڑ اسّی لاکھ ڈالر سے زیادہ اعلیٰ معیار کی حامل اور مؤثر امریکی ویکسین کی خوراکیں پاکستان کو عطیہ کیں۔ ہم نے مستقبل میں ممکنہ وبائی ا مراض سے نمٹنے میں معاونت کی خاطر بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر اور استعداد کار میں اضافہ کے طور پر پاکستان میں آٹھ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔

اور یہ تعلقات یک طرفہ نہیں ہیں۔ امریکی کمپنیوں کو پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ شراکت داری سے فائدہ ہوتا ہے۔ ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ایک متحرک اور انتہائی کامیاب پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی ہمارے دونوں ممالک کے درمیان ایک پُل کا کام کرتی ہے اور ڈاکٹروں، تکنیکی ماہرین، انجینئرز اور فنکاروں کی حیثیت سے امریکا میں اپنا نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور ہم سائنس، ماحولیات اور سفارتکاری جیسے متنوع شعبوں میں بین الاقو امی کوششوں کے حوالے سے مِل جْل کر کام کرتے ہیں۔

میرے خیال میں یہ زرخیزتاریخ اس راہ کی جانب نشاندہی کرتی ہے جہاں مستقبل میں ہم اپنے تعلقات کولے جانا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ کس طرح سرد جنگ اور پھر افغانستان نے ہمارے تعلقات کے دیگر پہلوؤں کو بظاہر ماند کر دیا تھا، اِسی طرح ابھی حال ہی میں کچھ لوگوں نے ہمارے تعلقات کو چین یا بھارت کے محدود زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ ایک نا کافی اور غلط سمجھا جانے والا تصور ہے۔

پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات اپنے طور پر پر کھڑے ہونے کے قابل ہیں۔ یہ لازمی طور پر وسیع البنیاد ہیں اور ہمارے دونوں ممالک ،خطہ اور دنیا کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔یہ نہ تو علاقہ میں دیگر تعلقات سے امتیازی ہیں اور نہ ہی انہیں ایسا ہونا چاہیے۔ بڑی تبدیلی کے اس لمحہ میں امریکا اور پاکستان کو ایک ایسی شراکت داری کی توضیح کی ضرورت ہے جو ہمارے مشترکہ مفادات کو آگے بڑھائے اور ہمارے باہمی اور پُرجوش نصب العین کی تکمیل کرنے کے قابل ہو۔

ہمارے باہمی تعلقات کی مضبوط بنیادوں نے ہمیں اپنے سب سے اہم بین الاقوامی مشکلات سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے تیار کیا ہے۔

ہمیں درپیش سب سے اوّل چیلنج منصفانہ ، شفاف اور مستحکم تجارت اور سرمایہ کاری کی بنیاد پر مشترکہ معاشی ترقی کا حصول ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے وسیع اور غیر استفادہ شدہ امکانات واضح ہونے چاہئیں۔ اگر پاکستان معیشت کے لیے سرمایہ کار دوست ترجیحات کی ایک جامع ترتیب پر متفق ہوجائے تو اُس کے پاس بین الاقوامی ترسیلاتی سلسلوں کی منتقلی کی وجہ سے علاقائی انضمام کا پیش خیمہ بننے کا قوی امکان ہے۔

آج کی شام یہاں پر موجود آپ میں سے متعدد لوگوں کا اس حوالہ سے نقطہ نظر میری سماعتوں سے گزرا ہے اور میں اس ضمن میں حائل سیاسی رکاوٹوں کا ادراک بھی رکھتا ہوں تاہم یہ پاکستان کے کاروباری اور سیاسی رہنماؤں کے لیے دلیری سے سوچنے کا لمحہ ہے۔ پاکستان کو اپنے قابل اور کاروباری صلاحیتوں سے مالامال نوجوانوں بالخصوص خواتین، جن کو بہت کم مواقع میسر ہوئے ہیں، کی ذہانتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ جب پاکستان آگے بڑھے گا تو امریکی کمپنیاں بھی یہاں پر تجارتی مواقع کی تلاش میں معیاری اور شفاف سرمایہ کاری فراہم کرنے کی خواہاں ہوں گی جس سے پاکستان کے لوگ مستفید ہوں گے۔

دوسرا چیلنج موسم دوست توانائی پالیسی کی تشکیل ہے جو پائیدار ہونے کے ساتھ پاکستان کی اقتصادی ترقی کی تقویت کا باعث ہو اور معاشی آزادی کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہو۔ جیسا کہ سبز انقلاب کے سلسلہ میں ہمارے تعاون نے 1960 کی دہائی میں زندگیوں کو بہتر بنایا تھا موجودہ صورتحال میں امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک ’’سبز اتحاد‘‘ قائم کرنے سے ہم موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے نتائج کا سامنا کرنے اوراپنے معاشروں اور معیشتوں کوتبدیل ہوتے ہوئے مستقبل کے مطابق ڈھالنے کے قابل ہو سکیں گے۔

قدرتی ایندھن پر انحصار سے صرف آب و ہوا کو ہی کو خطرہ نہیں بلکہ جیسا کہ موجودہ دور میں ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ یہ توانائی کے ذخائر کے تحفظ کے لیے بھی ممکنہ خطرہ ہے۔ گزشتہ ہفتہ نیویارک میں صدر بائیڈن نے عالمی موسمیاتی اہداف کے نفاذ اور توانائی کی منصفانہ منتقلی میں بین الاقوامی کوششوں کی اعانت کے طور پر ریاستہائے متحدہ امریکا کی جانب سے سالانہ گیار ارب ڈالر عالمی موسمیاتی معاونت کے طور پر دینے کا اعلان کیا۔ اس میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ممالک میں نصف ارب لوگوں کو آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے حوالہ سے اقدامات اختیار کرنے اور ہمارے تیاری کے منصوبہ کے تحت برداشت پیدا کرنے میں معاونت بھی شامل ہے۔

پاکستان میں ہم2030 تک قابل تجدید توانائی کی پیداوار کا حصہ34 فیصد سے بڑھا کر 60 فیصدتک کرنے کے ہدف کی بھی حمایت کرتے ہیں، جس سے قابل تجدید توانائی میں مزید نجی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور سرمایہ تک رسائی فراہم کرنے میں مدد میسر ہو گی۔ ہم نے سندھ میں پاکستان کے پہلے ونڈ کوریڈور کی تشکیل میں مدد فراہم کی ہے جبکہ شمسی توانائی اور ہوا سے توانائی تیار کرنے کے منصوبوں کے معاہدوں کو حتمی شکل دی ہے اور اِن اقدامات کے نتیجہ میں اِن شعبوں میں پاکستان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے شعبہ میں دو اعشاریہ چار ارب ڈالر سے زیادہ کی نئی سرمایہ کاری ریکارڈ ہوئی ہے ، جو پاکستانیوں کے لیے مزید بہتری اور توانائی کے اخراجات میں کمی کا باعث بنے گی۔ ہم پاکستان کے زرعی شعبہ میں اصلاحات، استحکام اور پانی کے انتظام و انصرام میں بہتری میں بھی معاونت کر رہے ہیں جیسا کہ ہم نے گومل زم ڈیم کی تعمیر کے ذریعہ کیا ہے۔ نجی شعبہ کی سرمایہ کاری، مالی اعانت اور تکنیکی معاونت کے ذریعہ ہم اِن دشواریوں کا مقابلہ کرنے سمیت بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

تجارت اور سرمایہ کاری، صحت اور ماحول کے شعبوں میں شراکت داری ابھی صرف آغاز ہے۔ ہم پُرامید ہیں کہ اِن روابط میں اضافہ ہوگا اور یہ وسیع البنیاد متوازن تعلقات کی صورت اختیار کریں گے اور پاکستان بھر اسی نوعیت کی دیگر متحرک شراکت داری کی بھی ترغیب ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے سفارتخانہ کی چار دیواری سے نکل کر بہت زیادہ سفر کیا ہے اور معاشرہ کے تمام تر طبقوں سے گُفت و شنید کے ذریعہ آپ کے لوگوں اور مالامال ثقافت سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

جیسا کہ میں پُرامید ہوں کہ ہمارے تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات مسلسل بڑھتے رہیں گے اِسی طرح سے میں دونوں حکومتوں کے درمیان سیاسی تعلقات کو بھی آگے بڑھاتا رہوں گا۔ تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ باقی تمام تر تعلقات کی طرح ہمارے درمیان اختلافِ رائے ہوسکتا ہے۔ لیکن میں پاکستان کے رہنماؤں کے ساتھ ، خواہ اُن کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو اور کوئی بھی قیادت برسر اقتدار ہو، شفاف تعلقات برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہوں۔

آخر میں ایک اہم چیلنج کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہے آزادی اور جمہوریت کا تحفظ، جن کو دنیا بھر میں مختلف انداز سے خطرات لاحق ہیں۔ امریکا اور پاکستان، دونوں مُلک، آئینی جمہوریت کی مشترکہ بنیادوں پر قائم ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکا اظہار کی آزادی، سوچ کی آزادی اور شفاف اور منصفانہ انتخابات کو برقرار رکھنے کے لیے بے شمار پاکستانیوں کی قربانیوں کا معترف ہے۔ جمہوریت کے منصوبہ پر عمل پیرا ہر ایک مُلک کو بخوبی اس امر کا ادراک ہے کہ حقیقت ہمیشہ خوابوں سے مشابہت نہیں رکھتی، خود میرا اپنا مُلک بھی اس بات کا قائل ہے۔ لیکن جیسا کہ بانیء ِ پاکستان مْحمّد علی جناح نے کہا تھا کہ جمہوریت خُون میں ہوتی ہے۔

جمہوریت پاکستان کے بھی خون میں شامل ہے جس طرح جمہوریت امریکا کے خون میں دوڑ رہی ہے۔ لہٰذا دونوں ممالک کو جمہوریت کے اعلیٰ ترین آدرشوں کے حُصول کی خاطر مصروفِ عمل ہونا چاہیے۔ جیسا کہ صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتہ نیویارک میں کہا تھا کہ مستقبل میں فاتح وہ قومیں ہوں گی جو اپنے لوگوں کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار لا سکیں۔ اور وہ صلاحیتیں صرف اُس صورت میں اجاگر ہو سکتی ہیں جب تمام لوگوں کو اپنی آواز بلند کرنے کی آزادی میسّر ہو۔

دنیا کے پانچ سب سے بڑے مُمالک میں سے دو کی حیثیت سے، اور تعاون اور مشترکہ عزائم کی ہماری طویل تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ، یہ نوتشکیل شدہ تعلقات ہمیشہ کی نسبت اشد ضروری اوربیش بہا ہیں۔ اب جبکہ ہم اگلے 75 سالوں اور اس کے بعد کو دیکھ رہے ہیں، میں اُمید کرتا ہوں کہ آج آپ سب ایک نئے باب کے آغاز میں میرا ساتھ دیں گے۔ آپ کے وقت کا اور آج کی شام ہمارے ساتھ شامل ہونے کا بہت بہت شکریہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔