کیا آپ کو بھی اپنے عورت ہونے پر شرمندگی ہے؟

خوشبو غوری  منگل 4 اکتوبر 2022
’صنف نازک‘ تو اس سماج کی ایک پروقار اور اہم ترین کڑی ہے ۔ فوٹو : فائل

’صنف نازک‘ تو اس سماج کی ایک پروقار اور اہم ترین کڑی ہے ۔ فوٹو : فائل

آپ نے بہت سی خواتین کو یہ کہتے ہوئے ضرور سنا ہوگا کہ اگر انھیں دوبارہ زندگی ملی، تو ہم ‘لڑکا’ پیدا ہونا پسند کریں گے!

مانا کہ ہمارے معامشرے میں مردوں کو جتنا مقام، رتبہ، آزادی یا پھر زندگی جینے کے مواقع حاصل ہیں، اس کے برعکس خواتین کو بے جا روک ٹوک، پابندیوں، متعصبانہ رویوں اور دیگر مسائل کا سامناہمیشہ سے رہا ہے، لیکن کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ فطری طور پر عورت بچے کی پیدائش اور تربیت سے لے کر معاشرے کے کون کون اہم ترین امور سنبھالے ہوئے ہے، جو شاید اکیلے حضرات کے بس کی بات بالکل بھی نہیں۔ یہاں کسی صنف کا ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا مقصود نہیں۔ یقیناً مرد اور عورت دونوں ہی کا معاشرے کی تشکیل اور تکمیل میں اپنا کردار ہے۔

اس لیے ہماری اس بات سے مراد خواتین یا حضرات کا موازنہ کرنا بالکل نہیں ہے، بلکہ خواتین کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ معاشرے کا نہ صرف اہم ترین حصہ ہیں، بلکہ معاشرہ خواتین کے بغیر ادھورا بھی ہے، بلکہ بقول شاعر ’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘۔ عورت کو اپنے وجود کی اہمیت اور حقوق جاننے کے ساتھ خود پر ترس کھانے، اپنی ذات کو بوجھ سمجھنے کے بہ جائے خود سے محبت کرنے اور اپنی شخصیت میں اعتماد لانے کی ضرورت ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے میں عورت کو صف نازک ہونے کے باعث ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عورت کی اہمیت، مقام اور قدرومنزلت کو نہ صرف معاشرے بلکہ خود خواتین نے بھی نظرانداز کیا۔

جس کا نتیجہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی، ظلم اور متعصبانہ رویوں کے شکل میں ہمیشہ عورت ذات کو تکلیف پہنچاتا رہا ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت نے کبھی ملکہ بن کر نہ صرف مختلف ممالک کے تخت وتاج پر راج کیا اور ان کے اشاروں پر حکومت و سلطنت چلتے رہے ہیں، بلکہ کبھی وزیراعظم اور کبھی صدر بن کرریاستوں پر حکمرانی بھی کی۔ جنگوں میں فوجی لشکروں کی سپہ سالاری سے لے کر تخت شاہی کے ذریعے بھی برتر مقام حاصل کرنے میں کام یاب رہیں۔

مانا کہ ان تمام حقائق کے باوجود ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔ ترقی یافتہ سے لے کر ترقی پذیر معاشروں تک عورتوں کو اپنے جائز مقام اور مردوں کے مساوی حقوق کے لیے جدو جہد کرنا پڑ رہی ہے، لیکن اس کے باوجود چاہے معاشرہ مشرق کا ہو یا مغرب کا، مذہبی، اسلامی ہو یا سیکولر۔ خواتین کا کردار اورمقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہمیشہ اہم رہا ہے۔

ترقی یافتہ دور میں ہرطرح کے معاشروں میں خواتین کے لیے روایتی کردار میں نہ صرف تبدیلی آئی ہے، بلکہ خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔

دورِحاضر میں عورت ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ نظر آتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی ترقی میں بھی خواتین کا کردار اہم ہے، تاہم دنیا کے دیگر ایسے معاشروں کی طرح، جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے، جنوبی ایشیائی ملکوں میں بھی خواتین کے چند بنیادی حقوق کا تحفظ اب بھی قانونی دستاویزات میں تو موجود ہے، تاہم اس پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اب بھی مختلف انداز میں اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

اگرچہ خواتین کے مساوی حقوق کا تصور ان معاشروں کے مردوں کی اکثریت کے لیے اب بھی قابل قبول نہیں ہے۔ عورت اب بھی مرد کی جاگیر تصور کی جاتی ہے، لیکن پھر بھی کہیں عورتیں درس و تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہیں، تو کہیں تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی امور، مختلف منصوبہ بندی، فکری عمل، ملکی معاملات، شہر، گاؤں، گروہی امور، ذاتی مسائل اورخاندانی معاملات احسن طور پر چلانے میں عورت اورمرد کے درمیان کوئی تفریق نظر نہیں آتی۔

عورت کی اپنے رتبے، حقوق اورمقام سے واقفیت، سرگرمیوں، تعلیم، پیشے، ان کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اورعلمی فکروں سے متعلق آگاہی بہت ضروری ہے۔ خاندان کی تکمیل تو درحقیقت عورت ہی کرتی ہے۔ مکان کو گھر بنانے میں بنیادی عنصر عورت ہے۔

ممکن ہے کوئی خاندان ایسا موجود ہو جس میں مرد کی موجودگی نہ ہو یا گھرکا مرد اس دنیا سے جاچکا ہو یا علاحدگی کی صورت میں ایک عورت ہی بہ حیثیت ماں خاندان کوجوڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن ایک ایسا گھرانہ جس میں خاتون کا وجود نہ ہو تو بہت حد تک ممکن ہوتا ہے، کہ مرد بحیثیت سربراہ خاندان کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ یعنی خاندان اور گھر کی حفاظت میں عورت کا کردار بہت مرکزی اور نہایت اہم ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مقصد عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں صف آرا کرنا نہیں، نہ ہی خواتین و حضرات کی معاندانہ رقابت اس کا سبب ہے، بلکہ ہدف یہ سمجھنا ہے کہ عورت یا لڑکی ہونا کوئی جرم، سزا،گناہ یا کم تری کی بات نہیں، بلکہ ایک ایسا اعزاز یا فریضہ ہے، جس کو انجام دے کرایک فعال معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔

تو اب آپ اپنے خاتون ہونے کو کمزوری نہ سمجھیں! بلکہ آپ یقینا اللہ کی تخلیق کردہ بے مثال خوبیوں، ہمت، عظمت، شجاعت کا وہ مضبوط پیکر ہیں، جو بلند انسانوں کی پرورش کر کے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اپنے عورت ہونے پرخوشی اور فخر محسوس کریں۔ خود کو اہمیت دینا اورمحبت کرنا سیکھیں۔ معاشرے میں خود کو ایک پْراعتماد، بااثر اور فعال شخصیت کی حیثیت سے پیش کریں۔

مجھے اپنے ’عورت‘  ہونے پر فخر ہے! اورمجھے اگردوبارہ زندگی ملی تو بھی ’لڑکی‘ بن کرہی اس دنیا میں آنا چاہوں گی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔