ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے

مزمل سہروردی  منگل 4 اکتوبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج کل عمران خان تقریباً اپنے ہر جلسہ میں اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔ وہ ملک میں ایک ایسا بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے اسٹیبلشمنٹ کا غیر سیاسی ہونا کوئی جرم ہے‘ وہ پاکستان کے عوام کو یہ باورکرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے مقابلے میں سیاسی معاملات سے نیوٹرل ہو کر کوئی ملک کی خدمت نہیں کی ہے۔

وہ اس قسم کی تقاریر بڑے تسلسل سے کرتے چلے آ رہے ہیں‘عجیب بات ہے کہ ان کی پارٹی کے اندر بھی انھیںروکنے والا کوئی نہیں ہے۔پی ٹی آئی میں عمران خان نے اپنا کوئی متبادل تیار ہونے ہی نہیں دیا۔اپنی پارٹی میں بھی وہ ایک آمر کی طرح احکامات جاری کرتے ہیں اور کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

اسی طرز عمل کا مظاہرہ وہ اپنے جلسوں میں قومی سلامتی کے اداروں پر حرف زنی کر کے کرتے ہیں اور اس کے لیے مختلف قسم کی اصلاحات کا استعمال بھی تواتر سے کرتے ہیں۔کبھی جانور ‘کبھی میر جعفر‘ میر صادق اور کبھی مسٹر ایکس اور مسٹر وائے کی اصلاحات استعمال کر کے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔

پاکستان میں کسی سیاسی لیڈر نے اس قسم کی سیاست نہیں کی ہے۔ انھیں کیوں کہ اپنی باتیں کرنے کی آزادی مل رہی ہے ‘ اس لیے وہ بلاروک ٹوک اسٹیبلشمنٹ پر حملے کر رہے ہیں۔ اب تو وہ اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اپنے جلسوں میں لوگوں سے یہ رائے لینے لگ گئے ہیں کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل ہونے پر معاف کر دیا جائے اور جلسے میں آئے ہوئے اپنے حامیوں سے یہ جواب لینے کی کو شش کرتے ہیں کہ معاف نہیں کیا جائے گا۔ یہ طرز عمل پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

قومی سطح کا کوئی بھی سیاسی لیڈر کسی بھی ملک میں اس قسم کی تقاریر نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے ایسی باتیں کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ بہرحال پاکستان کی سیاست میں منفی سیاست کا چلن یکطرفہ بھی نہیں کہا جا سکتا ‘ جب عمران خان کی حکومت تھی تو ملک کی دیگر تمام اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ سے نیوٹرل ہونے کا مطالبہ کرتی تھیں۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ آئین کے تحت اسٹیبلشمنٹ کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کا ساتھ نہیں دے سکتی۔

تب اپوزیشن کے لیڈر اپنے جلسوں میں حاضرین سے اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل نہ ہونے پر نعرے لگوائے جاتے تھے۔ جلسوں میں نیوٹرل نہ ہونے پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

یوں دیکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت اور لیڈر کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آ جائے اور باقی مخالفین کو کچل دیا جائے لیکن جب وہ اپنی ناکامیوں کے باعث اقتدار سے الگ ہو جاتا ہے تو اس کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیتا ہے یا پھر اسے غیر ملکی سازش قرار دے کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس قسم کی سیاست نے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

ایسے میں سوچتا ہوں کہ پاک فوج بحیثیت ادارہ کیا پالیسی بنائے۔ اگر وہ نیوٹرل اور غیر سیاسی ہوتے ہیں تو عمران خان تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اگر صورت حال دوسری ہو جائے تو باقی سب سیاسی جماعتیں ان کے خلاف ہو جاتی ہیں۔ وہ جائیں تو کدھرجائیں۔ کیا پالیسی بنائیں کہ ساری سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہو جائیں‘ کسی کو نیوٹرل چاہیے اور کسی کو نیوٹرل نہیں چاہیے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان کو یہ گلہ نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف کوئی کام کر رہی ہے۔ انھیں یہ گلہ نہیں ہے کہ جب ملک کی سیاسی جماعتیں انھیں عدم اعتماد سے وزارت عظمیٰ سے نکال رہی تھیں تو اسٹیبلشمنٹ نے انھیں روکا کیوں نہیں۔ جب ان کے خلاف عدم اعتماد پیش ہو رہی تھی تو اسے ناکام بنانے کے لیے کوئی کردار ادا کیوں نہیں کیا۔ ویسے یہ عجیب منطق ہے لیکن کیا کریں عمران خان اب جلسوں میں یہ منطق لے کر اپنے حامیوں کے سامنے ہیں۔

عمران خان کا موقف ہے کہ چونکہ انھوں نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو چور ڈیکلیئر کردیا ہوا ہے۔ اس لیے ملک کے تمام اداروں پر بھی لازم ہے کہ وہ ان سب کو چور مان لیں۔ چاہے انھیں کسی عدالت نے چور ڈکلیئر نہ ہی کیا ہو۔ چونکہ عمران خان انھیں چور سمجھتے ہیں لہٰذا اداروں پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی انھیں چور سمجھیں۔ اس کے لیے کسی عدالت کا چور قرار دینا ضروری نہیں ہے‘ عمران خان خود ہی عدالت ہیں‘ انھوں نے کہہ دیا بس یہی کافی ہے۔

اسی لیے عمران خان یہ بیانیہ بنا رہے ہیں جب ملک پر چور قابض ہو جائیں تو چوکیدار نیوٹرل نہیں ہو سکتا۔ کون عمران خان کو سمجھائے کہ چوروں سے نبٹنا پاک فوج کا کام نہیں ہے۔ اس کام کے لیے ملک میں دیگر ادارے موجود ہیں۔ چور پکڑنے کے لیے پولیس ایف آئی اے موجود ہیں، نیب موجود ہے۔ پاک فوج کا کام ملک کے اندر غدار پکڑ نے کا تو ہو سکتا ہے لیکن چور پکڑنے کا نہیں۔ اس لیے عمران خان کی یہ منطق بھی غیر آئینی اور غیر قانونی ہے کہ اگر چور آجائیں تو چوکیدار نیوٹرل نہیں ہو سکتا‘ چوکیدار کا کام بیرونی حملہ روکنا ہے‘ چور پکڑنا نہیں۔

عجیب بات ہے کہ عمران خان جلسوں میں کہہ رہے ہیں کہ اسحاق ڈار کو ملک میں واپس لانے میں بھی نیوٹرل کا کردار ہے۔ اگر نیوٹرل نہ چاہتے تو اسحاق ڈار ملک میں واپس نہیں آسکتے تھے۔ یہاں بھی عمران خان کی صورتحال قابل دید ہے۔ اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری احتساب عدالت نے معطل کیے جس کے بعد وہ ملک میں واپس آگئے اور انھیں گرفتار نہیں کیا گیا۔

لیکن ایڈیشنل سیشن جج زیبا کے خلاف تقریر کرنے کے بعد عمران خان کو سمجھ آئی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے جج کو کچھ نہیں کہنا ۔ اس لیے ا ب جس جج نے اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل کیے ہیں وہ اس کے خلاف کچھ نہیں بولتے بلکہ اس کا ذمے د ار بھی نیوٹرل کو ہی قرار دے دیتے ہیں۔ کیونکہ عمران خان کو سمجھ آگئی ہے کہ جج کے خلاف تقریر کرنے پر تو آپ پکڑ میں آسکتے ہیں کسی اور کے خلاف آپ جو مرضی بولیں آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ عدلیہ نے اپنا تحفظ تو کر لیا ہے۔ لیکن وہی عدلیہ دوسرے اداروں کا تحفظ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

عدلیہ نے بار بار ایسے مقدمات میں جس میں پاک فوج کو بیانات اور تقاریر میں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے ریلیف دیا ہے۔یہ کیسی منطق ہے کہ ہم یہ کہتے رہیں کہ پاک فوج بہت مضبوط ہے تقاریر سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اور ملک میں جلسوں میں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پاک فوج کو برا بھلا کہنے اور گالیاں دینے کا کھلا لائسنس دے دیں۔ کیا کسی اور مہذب اور غیرمہذب ملک میں اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

آپ سے اقتدار گیا۔ آپ کے جاتے اقتدار کو بچایا نہیں گیا اس لیے پاک فوج کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ یہ کیا منطق ہے۔ جب تک آپ کو واپس اقتدار میں نہیں لایا جائے گا آپ پاک فوج کے خلاف تقاریر کرتے رہیں گے۔ اقتدار میں لائیں تب ہی جان چھوڑی جائے گی۔ دوسری طرف عدلیہ خاموش ہے۔

پاک فوج کے خلاف اس حملہ کو روکنے کے لیے مجھے فی الحال کوئی قانونی راستہ نظر نہیں آرہا۔ ایسا نہیں ہے کہ پاک فوج کی جانب سے کوشش نہیں کی گئی۔ شہباز گل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح ایمان مزاری کا مقدمہ بھی ایک مثال ہے۔ جب پاک فوج نے اپنے اوپر الزامات کے اس حملہ کے خلاف قانونی کارروائی کی کوشش کی لیکن عدلیہ نے یہ کہہ کر کوئی بات نہیں معاملہ ہی ختم کر دیا۔

اب کیا معاملات کو ایسے ہی چلنے دیا جائے۔ روزانہ جلسوں میں پاک فوج کو سیاسی فٹ بال بننے دیا جائے، اگر ماضی میں کچھ غلط ہوا ہے تو اس کی بنیاد پر آج کی غلطیوں کو بھی نظر انداز کیا جائے۔ میری رائے میں پاک فوج کو خود ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے۔

اس میں ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ عدلیہ کے ذمے داران کو بھی بلایا جائے۔ اس میں ملک کی سیاسی قیادت پر واضح کیا جائے کہ وہ اپنی سیاست کو اپنے تک محدود رکھیں اور جلسوں میں اس قسم کی گفتگو کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔معاملہ کو رفع دفع کرنے کی پالیسی درست نہیں۔ کیونکہ اب اگر اس سارے معاملہ کو یہاں نہ روکا گیا تو ملک کا نقصان ہو گا۔

پاک فوج کو متنازعہ بنانے کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ اور معاملہ اب اس حد سے آگے نکل گیا ہے۔ اگر اس رجحان کو آج اس کو نہ روکا تو ملک کا نقصان ہوگا۔ یہ اب ادارے کا نہیں ملک کا معاملہ ہے۔ آزادی اظہار کے نام پر غیر آئینی مطالبات تقاریر کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔