موجودہ سیاسی صورت حال میں بڑھتی نفرتیں

محمد سعید آرائیں  منگل 4 اکتوبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ ملک میں موجود سیاسی نفرتوں میں کمی کا علاج ملک میں جلد عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ انھوں نے منصفانہ انتخابات کے لیے ای وی ایم کو بھی ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ پولرائزیشن جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی یہی مطالبہ بار بار کر رہے ہیں کہ ملک میں موجودہ مسائل کا حل جلد انتخابات کا انعقاد ہے۔

آئینی طور پر صدر مملکت کو ہمیشہ غیر جانبدار ہونا چاہیے ، وہ ملک میں اتحاد اور تمام سیاسی پارٹیوں خواہ ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا حزب اقتدار سے ،انھیں کسی بھی تضاد کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی علامت گردانا جاتا ہے۔ صدر کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو اسے ہمیشہ غیر جانبدار رہنا چاہیے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب بھی ایسی ہی صورتحال ہے یا معاملات پارٹی مفادات کے تحفظ کے تحت چل رہے ہیں۔

صدر مملکت عارف علوی کا تعلق چونکہ تحریک انصاف سے ہے لازمی طور پر ان کی ہمدردیاں بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہوں گی، لیکن یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے عہدے کے آئینی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے غیر جانبدار رہیں گے اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دیں گے کہ وہ ملکی اور سیاسی معاملات میں غیر جانبدار نہیں رہے۔

تحریک انصاف کی قیادت کی کوشش ہے کہ موجودہ حکومت آیندہ سال تک کی اپنی آئینی مدت کے ڈٹے رہ جانے کے موقف سے ہٹ جائے اور آیندہ سال اکتوبر کے بجائے نئے سال کے شروع میں عام انتخابات پر راضی ہو جائے۔ عمران خان اس معاملے میں بہت مضطرب ہیں اور وہ تو اسی سال انتخابات کرانے کی 5 ماہ سے کوشش کرتے آ رہے ہیں اور اداروں پر دباؤ ڈال کر جلد سے جلد عام انتخابات چاہتے ہیں۔

پورا ملک جانتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کی سیاسی صورت حال انتہائی کشیدہ اور سیاسی نفرتیں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ عمران خان نے اپنی پونے چار سالہ حکومت میں سیاسی کشیدگی ختم کرنے پر توجہ ہی نہیں دی اور اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ان کے دل میں نفرتیں جو اقتدار ملنے سے قبل تھیں اقتدار ملنے کے بعد وہ اپنے حامیوں کے بجائے وہ پورے ملک کا وزیر اعظم ثابت ہوتے اور سیاسی نفرتوں میں کمی کے لیے اپوزیشن کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھاتے مگر وزیر اعظم بن کر انھوں نے اپوزیشن کی طرف سے پیش کی جانے والی میثاق معیشت کی تجویز جو انھیں قومی اسمبلی میں دی گئی تھی مسترد کردی تھی۔

وہ اقتدار سے محرومی کے بعد بھی اپنے سیاسی مخالفین کے لیے نرم اور جمہوری رویہ اختیار کرنے پر تیار ہی نہیں ہیں اور وہ کسی بھی صورت اپنے موجودہ سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے۔عمران خان موجودہ حکمرانوں پر کرپشن کے جو الزامات لگا رہے ہیں ملک کی کسی عدالت میں اس ثابت نہیں کیا جا سکا مگر عمران خان کے مطابق موجودہ حکمران کرپٹ ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے صرف ان لوگوں کے لیے وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا جو اپوزیشن اور خصوصاً مسلم لیگ (ن) کی سخت مخالفت رکھتے تھے۔دیگر پارٹیوں کے برعکس پی ٹی آئی میں سیاسی وفاداریوں کا معیار (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی کی قیادت کے خلاف سخت زبان کا استعمال، مخالفین پر الزام تراشی، پی ٹی آئی حکومت ہٹانے والوں کے خلاف بولنا اور سیاسی مخالفین کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانا انھیں چور ڈاکو قرار دینا اور بے سروپا بیانات دینا ہے جب کہ دوسری پارٹیوں میں ایسا نہیں ہے اور سیاسی مخالفین کے خلاف ایسی سخت زبان استعمال نہیں کی جاتی بلکہ اپنے دروازے بات چیت کے لیے کھلے رکھنا ہے جس کا ثبوت وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے عمران خان کو ملکی حالات سے متعلق آپس میں مل بیٹھ کر درپیش مسائل کا حل نکالنا ہے مگر بدقسمتی سے عمران خان نے نہ صرف پیش کش ٹھکرائی بلکہ چکوال کے جلسے تک وہ شریفوں، زرداری، مولانا فضل الرحمن کے بعد اپنے محسنوں پر بھی الزامات لگا رہے ہیں اور اپنی صوبائی حکومتوں کو وفاقی حکومت سے ٹکراؤ کی طرف لے جا رہے ہیں۔

عمران خان اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف اور یوسف رضاگیلانی کی طرح صبر اور تحمل کا مظاہرہ کر لیتے اور ڈیڑھ ماہ بعد اسلام آباد پر عام انتخابات کے لیے 25مئی کو چڑھائی کا اعلان نہ کرتے تو ممکن تھا حکومت جلد انتخابات پر تیار ہو جاتی مگر عمران خان نے ایسا نہ کیا اور اپنے ناکام لانگ مارچ سے سیاسی کشیدگی بڑھانا شروع کردی جو اب سیاسی دشمنی میں تبدیل کردی گئی ہے۔

موجودہ حکمرانوں کو امپورٹڈ کا نام دینے اور اندرون خانہ امریکا کو رام کرنے کی کوششوں میں عمران خان امریکا پر الزام تراشی سے باز آئے مگر ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔عمران خان نے اپنے جلسے سیلاب میں بھی جاری رکھے اور حکمرانوں کے ساتھ ریاستی اداروں پر مسلسل برس رہے ہیں ۔

عمران خان کا سب سے زیادہ دباؤ نئے فوجی سربراہ کے تقرر پر ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ تقرر موجودہ وزیر اعظم کسی صورت نہ کریں اور نئے انتخابات کے بعد نیا آرمی چیف مقرر ہو مگر ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ ایک تہائی ملک زیر آب، سوا تین کروڑ افراد سیلاب سے متاثر اور بے گھر اور ملک میں سیاسی کشیدگی انتہا سے بڑھ کر ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہے۔

وزیر داخلہ اسلام آباد پر ان کی چڑھائی کی صورت میں پہلے سے زیادہ سختی کا اعلان کرچکے ہیں خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے ۔ موجودہ حکومت ڈٹ چکی ہے کہ اس نے قبل از وقت انتخابات نہیں کرانے اور عمران خان ملکی سیلابی صورت حال میں بھی باز نہیں آرہے۔ ان کی ضد سے کشیدگی بڑھ رہی ہے جس میں کسی صورت انتخابات نہیں ہو سکتے البتہ سیاسی کشیدگی میں اضافے کا خطرہ ضرور بڑھ گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔