سیاست میں تو ایسا ہی ہوتا ہے!

علی احمد ڈھلوں  منگل 4 اکتوبر 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

کچھ لوگوں کے پاکستان واپس آنے اور دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے سیاسی مخالفین خاصے پریشان ہیں اور مایوس بھی۔ لیکن وہ ماسوائے کُڑھنے کے کچھ نہیں کر پا رہے۔ ہمیں وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کو کھنگالنے کی ضرورت ہے کہ یہاں ہر دور میں ہی ایسا ہوتا آیا ہے۔

جیسے آغاز میں ہی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا، جس کی وجہ سے تیسری قوت کو میدان میں آنا پڑا۔ اور پھر 1954میں سپریم کورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں آئین ساز اسمبلی کی برطرفی کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے ملک کی تاریخ کا رخ مڑگیا اور 1970 تک عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑا جس کی وجہ سے پارلیمانی نظام کی جڑیں گہری نہ ہوسکیں، وزیراعظم تیزی سے تبدیل کیے جاتے رہے۔تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اس دوران بار بار ایسا لگتا، جیسے عوامی دباؤ کی وجہ سے جنرل یحییٰ اور جنرل ایوب خان اقتدار چھوڑ دیں گے، مگر یہ محض خام خیال تھی، بلکہ انھوں نے بلا شرکت غیرے کئی سال تک حکومت کی۔

اُس کے بعد راقم پاکستانی سیاست کا گزشتہ 40سال سے چشم دید گواہ ہے، اس پر کافی کچھ لکھ چکا ہے ، بھٹو صاحب بھی لیڈروں کے لیڈر تھے مگر اُن سے بھی کافی غلطیاں ہوئیں مگر انھیں تختہ دار تک پہنچا دیا گیا۔ پھر جنرل ضیاء کا دور آیا۔ انھوں نے بھی بہت سے بلنڈر کیے، اُس وقت بھی ہم سب سر پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے کہ یہ پاکستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ضیاء صاحب کبھی ’’اسلامی ٹچ‘‘ دیتے ہوئے شریعت نافذ کرد یتے تو کبھی مغربی ایما پر سود کودرست قرار دے دیتے۔

اُس وقت بھی اُن پر عوامی دباؤ کافی تھا، لیکن لوگ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی’’ لبیک لبیک ‘‘ کی صدائیں بلند کرتے تھے۔ پھر اُن کی حادثاتی موت کے بعد نواز شریف اور بے نظیر کا ’’زبردست‘‘ دور شروع ہوا۔ کرپشن کے الزامات لگے، انھی وجوہات کی بنا پر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کی تھی۔اور مقدمات قائم ہوئے تھے۔ لیکن ساڑھے تین سال بعد ہی اقتدار دوبارہ اُن کی دہلیز پر تھا۔

پھر محترمہ بے نظیربھٹو کی دوسری حکومت 1993 میں آئی، لیکن یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی اور نومبر 1996میں اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ محترمہ اور ان کے شوہر جناب آصف علی زرداری پر پھر کئی ریفرنسز دائر کر دیے گئے اور بغیرثبوت کے جناب آصف علی زرداری کو دوبارہ قید کر لیا گیا ان کی یہ اسیری مسلسل آٹھ سال تک رہی، ایک وقت کے لیے تو ایسا لگا کہ اب زرداری صاحب کبھی اقتدار میں نہیں آئیںگے، اُن کی سیاست کا ’’دی اینڈ‘‘ ہو گیا ہے، لیکن سب نے دیکھا کہ وہ 2008میں صدر بنے اور اگلے پانچ سال تک پاکستان کے کرتا دھرتا اور نمبر ون شخصیت کے طور پر کام کرتے رہے۔

خیر پھر 1997میں نوازشریف کی دوبارہ حکومت آئی، پھر پرویز مشرف نے ٹیک اوور کیا تو ایسے لگا جیسے آپ پاکستان میں سب کچھ بدل جائے گا، انھوں نے آغاز میں جو Gestureدیا اُس سے تو یہی لگا کہ اب کسی کرپٹ کی خیر نہیں، انھوں نے شریف فیملی کے لوگوں کو جیلوں میں بھیج دیا، اُن کی ٹیم کے دیگر لوگوں کو بھی جیل میں ڈال کر مقدمات بنائے اور ہم ایک بار پھر سمجھے کہ بس! اب یہ باہر نہیں آئیں گے لیکن پھر چند سال بعد NROہوا، جس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت تمام سیاستدانوں پر سرے سے ہی مقدمات ختم کر دیے گئے۔

الغرض یہی سیاستدان پھر 2008سے 2018 تک برسراقتدار رہے، اور 2017 میں ایک بار پھر نواز شریف کو پاناما کیس میں عدالت کی جانب سے برطرف کیا، انھیں سزا ہوئی اور بیماری کے علاج کے لیے لندن چلے گئے، اُن پر سیاست کے دروازے بند کر دیے گئے، اُن پر سیاست کرنے پر بھی تاحیات پابندی لگا دی گئی،لیکن یہ سب پھر واپس آگئے۔

قصہ مختصر کہ اس ملک میں تو یہ رواج ہے کوئی اینٹ اٹھا کر دیکھ لیں،آپ کو نیچے سے اسکینڈل،فراڈ یا کرپشن ملے گی۔ سیاستدان دولت باہر لے گئے مگر مزے کی بات ہے کہ کوئی بینک ٹرانزیکشن‘ کوئی سیلری سلپ‘ کوئی ٹرانسفر کچھ نہیں۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کیا کھیل کھیلا گیا۔

عمران خان کہتے ہیں کہ زرداری اور شریفوں نے نیب کے قوانین میں تبدیلیاں کر کے اپنے مقدمے ختم کرا لیے۔ اپنا چیئرمین نیب لگا کر سب کچھ صاف کرارہے ہیں۔ نیا چیئر مین وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے لگانا ہوتا ہے، شہباز شریف نے یہ مشورہ ایم این اے راجہ ریاض سے کیا جو پی ٹی آئی کے باغی ایم این اے ہیں۔

عمران خان آج اپوزیشن میں ہوتے تو ایسے لوگوں کو نیب کا چیئرمین لگانے سے روک سکتے تھے جن کے بارے انھیں یقین ہو کہ وہ کا وفادار ہے۔ آپ نے خود ہی سیاسی مخالفین کے لیے فورم چھوڑ دیا کہ وہ جو جی چاہے کرتے رہیں۔یقیناً عمران خان کو ان کے مشیروں نے مروایا جنھوں نے مشورہ دیا کہ پارلیمنٹ توڑ دیں اور خود استعفیٰ دے کر ہاؤس کو اکیلا چھوڑ کر زرداری اور شریف کا کھیل آسان کر دیں۔

ویسے خان صاحب! معذرت کے ساتھ یہ کوئی مذاق نہیں تھا، آپ انقلاب کی باتیں ضرور کریں مگر حکمت عملی سے کام لیں، دانش مندی سے کام لیں، اور انقلاب لانے کے لیے سب سے پہلے تیاری کریں کیوں کہ یہ آپ کی ناقص حکمت عملی کا ہی نتیجہ ہے کہ  آپ کے سیاسی مخالفین آج کے حکمران بن بیٹھے ہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔