رام کا کام رام جانے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 5 اکتوبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

دادو کے قریب ایک گاؤں پانی سے ڈوبا ہوا ہے۔ اس گاؤں کے دو بچے رات کو سڑک پر سو رہے تھے۔ ایک ڈمپر نے ان بچوں کو کچل دیا۔ روزانہ سانپ کے کاٹنے اور پیٹ کی بیماریوں سے بچے مر رہے ہیں۔

پانی میں گھرے گوٹھوں میں وبائی امراض میں ہلاک ہونے والے افراد کی میتوں کو کشتیاں نہ ہونے کی وجہ سے دیگ میں لٹا کر لے جایا جا رہا ہے۔ سیلاب کو کور کرنے والے غیر ملکی ایجنسی کے نمایندہ اشرف خان بتا رہے تھے کہ سیلاب سے گاؤں کے نشانات مٹ گئے۔ انھیں نیوی کی کشتی میں سفر کرنے کا موقع مل گیا۔ ایک مقامی شخص نے کشتی میں سوار ہوکر ان گوٹھوں کی شناخت کی جو پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

ڈاکٹر برما مسلسل سیلاب سے متاثرین کے علاج کر رہے ہیں۔ انھوں نے انسانی حقوق کمیشن کے مشاورتی اجلاس میں سنسکرت زبان کی اس حکایت سے گفتگو کا آغاز کیا کہ رام کا کام رام جانے۔ انھوں نے اس حکایت کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ دراصل ریاست موجود نہیں ہے۔

ریاست ہی لوگوں کی مکمل طور پر مدد کرسکتی ہے مگر ریاست ناکام ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سند ھ مراد علی شاہ جتنے متحرک ہیں ان کی نگرانی میں کام کرنے والی انتظامیہ اتنی ہی غیر متحرک ہے، وہ سیلاب زدہ علاقوں کی ہر تحصیل میں کئی کئی دفعہ جاچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر نے جنیوا میں کہا ہے کہ سیلاب کی تباہی سے متعلق اعداد و شمار نامکمل ہیں، نقصان اس سے زیادہ ہوا ہے۔ یہ امکانات ہیں کہ سیلاب کا 75 فیصد پانی ڈیڑھ دو ماہ میں اتر جائے گا ، پھر گندم کی فصل کی ضرورت ہوگی ، ٹریکٹر اور دیگر آلات چلانے کے لیے ڈیزل فراہم کرنا ہوگا۔

سندھ میں 24 اضلاع متاثر ہوئے ہیں اور 15لاکھ خاندان بے گھر ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایک انٹرویو میں اقرار کیا کہ صرف 3لاکھ خاندانوں کو خیمے فراہم کیے جاسکے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ غیر ممالک سے 10 ہزار خیمے آئے ہیں۔ سندھ کو 2 ہزار 364 مل سکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بیرون ممالک سے ٹینٹ اور مچھردانیاں خریدنے کی کوشش کررہے ہیں مگر بیرون ممالک یہ سامان دستیاب نہیں۔ فیصل ایدھی نے بتایا کہ سیلاب زدگان سے رابطہ کا ایک ذریعہ کشتیاں ہیں، لیکن ایک تو حکومتی اداروں کے پاس یہ کشتیاں دستیاب نہیں ہیں، پھر ایدھی فاؤنڈیشن ہر سال امدادی کشتیاں خریدتی ہے اور اس کے لیے فنڈز مختص کرتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ امدادی کشتیاں پاکستان میں تیار نہیں ہوتیں ، ان کو درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کشتی کی قیمت 2لاکھ روپے ہے مگر اس پر 4 لاکھ روپے کسٹمز ڈیوٹی ہے۔ ناصر منصور ویسے تو مزدور تحریک سے وابستہ ہیں مگر وہ اور ان کے ساتھی امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست کی ناکامی سے صورتحال خراب ہوئی ہے۔

دانشور اور ایچ آر سی پی کے سیکریٹری جنرل انجینئر حارث خلیق نے اپنے مشاہدہ سے صحافیوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (Left Bank Outfall Darin) کی ناکامیوں پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ پانی کی نکاسی کا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دو مہینے گزرنے کے باوجود گاؤں کے گاؤں پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

اس کی ذمے داری محکمہ آبپاشی پاکستان اور پی ڈی ایم اے پر عائد ہوتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ محکمہ آبپاشی اور پی ڈی ایم اے کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ واشنگٹن سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اس خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی کہ سندھ کے آٹھ اضلاع میں پانی خطرے کے نشان سے بڑھ رہا ہے۔ سندھ میں پانی کے اخراج میں دیر ہونے کی ذمے داری محکمہ آبپاشی کے افسروں پر عائد ہوتی ہے۔

محکمہ آبپاشی کا شمار قدیم ترین محکموں میں ہوتا ہے۔ برطانوی دورِ حکومت میں سکھر بیراج تعمیر ہوا۔ سندھ میں نہری نظام کی تعمیر ہوئی۔ محکمہ آبپاشی کے انجنیئروں نے اس پورے نظام کو کامیابی سے منظم کیا مگر صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ نئے حالات میں یہ انجنیئر جدید طریقوں سے واقف نہیں ہیں اور حکومت سندھ کے پاس پانی کی نکاسی کے لیے جدید ترین مشینری موجود نہیں ہے۔

سیلاب کو کور کرنے والے کچھ رپورٹروں کا کہنا ہے کہ محکمہ آبپاشی کے انجنیئروں کو شدید سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سندھ کی سیاسی قیادت کے مفادات کا بھی ذکر ہوتا ہے ، ہر بااثر جاگیردار اور بڑے زمیندار اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔

کچھ رپورٹیں یہ بھی ہیں کہ پانی کی قدرتی گزرگاہوں پر تجاوزات قائم کردی گئی ہیں ، جب بھی رپورٹر سیلاب زدگان تک پہنچتے ہیں یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہفتے گزرنے کے باوجود انھیں کوئی امداد نہیں ملی۔ سکھر سے آنے والی ایک خبر سے پتہ چلتا ہے کہ اتنے طیارے سکھر ایئرپورٹ پر اترے کہ اس کا رن وے اور لائٹنگ کا نظام متاثر ہوا۔

سندھ میں سرکاری حکام کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم اے نے سندھ میں اتنی امداد نہیں بھیجی کہ سب کو تقسیم کی جائے۔ برآمدی سامان کی خرد برد ، ضلع افسروں اور با اثر افراد کے گوداموں سے کچھ سامان برآمد ہونے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ صورتحال اتنی خراب ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف دادو میں ایک کیمپ گئے ، وزیر اعلیٰ سندھ بھی ان کے ہمراہ تھے، کیمپ کے مکینوں نے وزیر اعظم سے امداد نہ ملنے کا شکوہ کیا۔

امداد متاثرہ شخص تک پہنچنے کے لیے کوئی جدید نظام جو شناخت پر مبنی ہو نہیں بن سکتا ہے۔ مراد علی شاہ کو اس سوال پر صرف غور ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقی حل تلاش کرنا چاہیے ، اگلے دو ماہ میں پانی اتر جائے گا۔

سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں ایک شہری دلدار خان لغاری نے عرضداشت دائر کی ہے کہ2010کے سیلاب کے بعد معروف قانون دان فخر الدین جی ابراہیم اور جان محمد کی عرض داشت پر سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو ہدایت کی تھی کہ پانی کی راہ میں غیر قانونی رکاوٹیں ختم کی جائیں۔ سپریم کورٹ نے 2011میں اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہا تھا کہ حکومت سندھ سیلاب کے متاثرین کے تحفظ اور امدادی سامان کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے۔

عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ کی ہدایت کی روشنی میں اقدامات نہیں کیے جس کی بناء پر دو ماہ ہوگئے ، گاؤں پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ اب سوال متاثرین کی آبادکاری کا ہے۔ اربن ریسورس سینٹر کے ماہر اور سماجی کارکن زاہد فاروق بنیادی طور پر آباد گاری کے ماہر ہیں۔

ان کا بیانیہ ہے کہ آبادکاری کے لیے مستقل پر نظر رکھنی چاہیے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی سے آیندہ بھی سیلاب آئیں گے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ جو گھر تعمیر کیے جائیں وہ اونچائی پر ہوں۔ چٹانوں پر ہوں ، کچے نہ ہوں۔ دریا کے قریب نہ ہوں اور نئے گوٹھ 250 گھروں پر مشتمل ہوں ۔

وہ کہتے ہیں کہ 10-15 گھروں پر یہ گوٹھ مشتمل نہیں ہونے چاہئیں۔ اس گوٹھ کے پاس اسکول، ڈسپنسری اور مذہبی عبادت گاہ تعمیر ہو۔ 10-15 گھوٹوں کے قریب اسکول، کالج اور کمیونٹی سینٹر تعمیر ہونے چاہئیں اور چھوٹے ڈیم ہوں جہاں پانی محفوظ کیا جاسکے۔ وہ کہتے ہیں کہ کم آمدنی والوں کو کاشت کے لیے زمین دینی چاہیے۔ یہ گوٹھ سڑک سے منسلک ہونے چاہیئیں۔ ہر ماڈل گوٹھ میں بجلی اور گیس فراہم ہونی چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ نچلی سطح کا بااختیار بلدیاتی نظام کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یونین کونسل کی سطح پر آبادکاری کا کام بہت سے مسائل حل کرسکتا ہے۔ کئی غیر سرکاری ادارے کم قیمت کے چھوٹے مکانات کے نقشے تیار کرتے ہیں۔ ان اداروں کی شراکت سے بہترین منصوبہ بندی ممکن ہے۔ نچلی سطح کا بلدیاتی نظام کا قیام ضروری ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ ریاست ہی تمام مسائل کا حل تلاش کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔