آپریشن رد الفساد کی کامیابیاں

مزمل سہروردی  بدھ 5 اکتوبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاکستان کا آرمی چیف بننے کے چھ سال مکمل ہو رہے ہیں۔ 29نومبر 2016کو وہ اس قابل فخر عہدے پر فائز ہو ئے تھے۔

انھوں نے جب عہدہ سنبھالا تب دہشت گردی پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ صرف قبائلی علاقوں میں ہی نہیں پورے ملک میں دہشت گردوں کا خوف تھا اور اندرون ملک دہشت گردوں کے سہولت کار سرگرم تھے۔ بیرونی دنیا سے کھیلوں کی ٹیمیں بھی پاکستان میں آ کر کھیلنے سے انکاری تھیں۔

بلاشبہ ان کے پیش رو پاک فوج کے سربراہان کے لیے بھی دہشت گردی ایک بڑا چیلنج تھا۔ انھوں نے بھی اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے بڑی بہادری سے دہشت گرد تنظمیوں کے خلاف آپریشنز کیے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس جنگ کو جیتنے کے لیے نئے آپریشن رد الفساد کا آغاز کیا اور ملک میں امن کی بحالی کے لیے باقاعدہ ایک مربوط پروگرام شروع کیا۔ جس میں پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا اور قبائلی علاقوں کی صوبہ خیبر پختونخوا میں شمولیت سمیت کئی اہم اقدام شامل تھے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج ہم کرکٹ کی بیرون ممالک کی جو ٹیمیں پاکستان کے دورے پر دیکھتے ہیں، ملک میں سیاحت کا دوبارہ فروغ دیکھتے ہیں، یہ سب جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاک فوج کی مربوط حکمت عملی کا ہی نتیجہ ہے۔

اس مربوط حکمت عملی اور آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات ملی اور ملک میں امن قائم ہوا بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں اس کے ثمرات دیکھے جارہے ہیں۔ جنرل باجوہ نے کئی مواقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک اکیلے ترقی نہیں کرتے بلکہ پورا خطہ ترقی کرے ،تب ہی کوئی ملک بھی ترقی کر سکتا ہے۔

آپریشن ردالفساد 22فروری 2017کو ملک بھر میں شروع کیا گیا، اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ کسی خاص علاقے میں شروع نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا دائرہ اختیار پورا پاکستان تھا۔ ایسا اس لیے ضروری تھا کہ دہشت گردوں نے شدید جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد شہری علاقوں میں پناہ لینے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ جس کی وجہ سے دہشت گردی کا ہدف شہری آبادی والے علاقے بن گئے تھے۔شہری علاقے سافٹ ٹارگٹ بن گئے تھے۔ اس لیے ملک بھر میں آپریشن ناگزیر ہو گیا تھا۔

یہ ایک مشکل آپریشن تھا کیونکہ اس کی حدود پورا ملک تھا۔ یہ ردالفساد کے ہی ثمرات ہیں کہ اب قبائلی علاقوں میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہے۔ دہشت گردوں سے 48ہزار کلومیٹر کا علاقہ خالی کرایا گیا اور وہاں ریا ست پاکستان کی رٹ بحال کی گئی، اسی لیے رد الفساد کی کامیابیوں کو عالمی سطح پر بھی بہت سراہا گیا ہے۔

یہ رد الفساد کی ہی کامیابی تھی کہ افغانستان سے بھی بیرونی فوجوں کا انخلا ممکن ہوا۔ دشمن ممالک کی جانب سے افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے جس طرح استعمال ہو رہی تھی، اس کا خاتمہ بھی ممکن ہوا۔ اگر ہم اپنے علاقے کلیئر نہ کرتے تو یہ سب بھی ممکن نہیں تھا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہمیشہ کہا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ ایک مسلسل جنگ ہے۔ اس کے لیے ہماری فورسز کو ہمہ وقت چوکس رہنا ہوگا۔اسی لیے صرف آپریشن پر ہی نہیں بلکہ 2017سے LEAs کی دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے پیشہ وارانہ استطا عت بڑھانے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ صرف FC کے  67نئے ونگ قائم کیے گئے ہیں۔

اس دوران 40ہزار سے زائد پولیس کے جوانوں کو بھی خصوصی تربیت دی گئی ہے تا کہ پولیس بھی دہشت گردی کے ناسور سے نبٹنے کے قابل بنائی جا سکے۔ اس کے ساتھ 22ہزار خاصہ دار اہلکاروں اور لیویز کی بھی ٹریننگ کی گئی ہے۔ آپریشن رد الفساد کے دوران پاکستان نے دشمن کی سازشوں کو عالمی سطح پر بھی بے نقاب کیا۔ دہشت گردوں کی ٹریننگ اور معاونت کے ناقابل تردید ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیے گئے۔

2014سے 2020کے دوران بھارتی فورسز نے جب پاک بھارت سرحد کے بارڈرز کو جان بوجھ کر گرم رکھا۔سیز فائر کی خلاف ورزی روزانہ کا معمول بن گیا۔ اس دوران بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی پالیسی بنائی گئی۔ جس کے نتیجے میں ہندوستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔

بھارت نے اپنی جنگی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے S-400رافیل ۔ جدید ترین ٹینک اور گنز، نیو کلیئر سب میرینزکا اضافہ کیا، لیکن پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود نہ صرف پاکستان کی مضبوط دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھا۔ بلکہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے میں خود انحصاری کو بنیاد بنایا اور خود انحصاری سے ہی جدت لائی گئی جو کوئی آسان کام نہیں تھا۔

بھارتی ایئر پاور کے مقابلے کے لیے پاکستانی فوج نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں بہت کم عرصہ میں اپنے ایئر ڈیفنس سسٹم کو نہایت مضبوط اور ناقابل تسخیر بنالیا۔جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی آرمڈ کور نے پچھلے سال دنیا کا بہترین ٹینک 125ملی میٹر گن سے لیس VT-4 متعار ف کرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ T-85, T-80UDاور الضرار ٹینکس کو مقامی طور پر اپ گریڈ کر کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا۔ جنر ل قمر جاوید کے دور میں ہی پاک فوج کی فائر پاور کو مضبوط کرنے کے لیے 120کلومیٹر رینج کا حامل فتح ون گائیڈڈ ملٹی بیرل لانچنگ سسٹم شامل ہوا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ تاریخ میں پاک فوج کے ایک ایسے جنرل کے طور پر جانیں جائیں گے جنھوں نے پاکستان کے دفاع کو نہ صرف جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی بنائی بلکہ اس میں خود انحصاری کو بنیادی ستون بنایا۔ دفاع کو کسی ایک شعبہ میں ترقی نہیں دی گئی بلکہ گن شپ ہیلی کاپٹر سے لین آرمڈ ڈرونز صلاحیت کو بہتر بنایا گیا۔

اسی دور میں پاک فوج نے جدید ترین خود ساختہ Aviataion Simulatorsبنائے جس کی بدولت نہ صرف دفاعی صلاحیت مضبوط ہو ئی بلکہ قومی خزانہ کو اربوں روپے کی بچت بھی ہوئی اور پاکستان کی افواج نے جدید اسلحہ کی دوڑ میں خود انحصاری کی طرف ناقابل یقین سفر شروع کیا ہے۔ جس کی کامیابیوں نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر جنرل قمر جاوید باجوہ کو پذیرآئی دی جا رہی ہے، یہ پذیرآئی ان کی امن قائم کرنے کی صلاحیت اور پاک فوج کو بہتر کرنے کا عالمی سطح پر اعتراف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔