تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ہوتی …

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 6 اکتوبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

بلوچ معاشرہقبائلی روایات کے تحت ایک منجمد معاشرہ رہا۔ یوسف مستی خان کے خاندان کا تعلق ایرانی بلوچستان کے علاقہ چا بہار سے ہے۔ یہ لوگ گورگنج قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔

غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان ڈیڑھ سو سال قبل کراچی منتقل ہوا ، پھر 1885 میں یہ خاندان آسٹریلیا چلا گیا۔ وہاں پر مزدوری کرنے کے بعد یہ لوگ دوبارہ کراچی آگئے۔ اکبر مستی خان نے بھارت کی ریاست آسام میں کوئلہ کی کانوں کا کاروبار کیا، پھر برما چلے گئے وہاں ریلوے لائن بچھانے کے لیے پتھر کی فراہمی کا ٹھیکہ ملا۔ یوں یہ خاندان خوشحال ہوگیا۔ یوسف کے دادا کا 1921 میں برما میں ہی انتقال ہوا تھا۔ اکبر مستی خان کا شمار چند بلوچ سرمایہ داروں میں ہوتا تھا۔

یوسف مستی خان 16 جولائی 1948 کو پیدا ہوئے ۔ انھوں نے آٹھویں جماعت تک امراء کے اسکول برن پال ایبٹ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ گھر کے معاشی حالات کی وجہ سے انھیں کراچی بلا لیا گیا اور کچھ عرصہ کراچی گرامر اسکول میں تعلیم حاصل کی ، سینٹ پیٹرک اسکول سے میٹرک کیا۔

یوسف مستی خان نے 1969 میں نیشنل کالج کراچی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ یوسف مستی خان نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک آئل کمپنی میں ملازمت سے کیا۔ کمپنی نے یوسف کو کوئٹہ میں تعینات کیا ، یہ 1973 کا دور تھا۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ بلوچستان کو صوبہ کا درجہ حاصل ہوچکا تھا اور بائیں بازو کی قوم پرست جماعت نیشنل عوامی پارٹی نے 1970کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرلی تھی۔ نیپ کے امیدواروں نے انتخاب میں کئی قبائلی سرداروں کو شکست دی تھی۔

میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اﷲ مینگل اور خیر بخش مری نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین میں شامل تھے۔ میر غوث بخش بزنجو ایک مدبر سیاست دان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔ اکبر مستی خان اور میر غوث بخش بزنجو کے سماجی روابط تھے مگر مستی خان کو فیملی کی سیاست سے کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہیں تھی ۔

معروف صحافی صدیق بلوچ ایک قوم پرست مارکسٹ وادی تھے ، وہ میر غوث بخش بزنجو کے حلقہ اثر میں شامل تھے۔ بی ایم کٹی بھارت کے ساحلی شہر کریالہ میں پیدا ہوئے۔ جوانی کے اولین حصہ میں پاکستان آگئے اور نیشنل عوامی پارٹی میں کام کرنے لگے ، جب پیپلز پارٹی کے سربراہ اور اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان 1973 کے آئین کی تیاری اور بلوچستان اور صوبہ سرحد میں حکومتوں کے قیام پر معاہدہ ہوا تو حکومت نے میر غوث بخش بزنجو کو بلوچستان کا اور ارباب سکندر خلیل کو صوبہ سرحد کا گورنر مقرر کیا گیا۔

بلوچستان میں سردار عطاء اﷲ مینگل نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ سرحد میں مفتی محمود وزیر اعلیٰ ہوگئے تھے۔ صدیق بلوچ کراچی کے ایک انگریزی اخبار میں ملازمت کرتے تھے۔ بی ایم کٹی ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم تھے۔ میر بزنجو نے بی ایم کٹی کو اپنا پرنسپل سیکریٹری اور صدیق بلوچ کو پریس سیکریٹری مقرر کیا، یوں یہ دونوں افراد کوئٹہ منتقل ہوگئے۔

صدیق بلوچ اور یوسف مستی خان ایک مکان میں رہنے لگے۔ صدیق بلوچ اپنی نظریاتی باتوں کی بناء پر پروفیسر کہلاتے تھے، یوں پروفیسر صدیق بلوچ کے لیکچرز سن کر انھیں مظلوم قومیتوں کی تحریک سے دلچسپی پیدا ہوئی اور نیشنل عوامی پارٹی میں سرگرم ہوئے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 9 ماہ بعد نیپ کی حکومت کو برطرف کیا ، بعد ازاں نیپ پر پابندی عائد کردی گئی۔ میر غوث بخش بزنجو اور دیگر رہنما گرفتار کر لیے گئے۔

بی ایم کٹی گورنر ہاؤس سے مستعفی ہوئے اور یوسف مستی خان کے گھر منتقل ہوئے ، یہ بڑا پر آشوب دور تھا۔ کوئٹہ میں سیاسی کارکنوں کی مستقل گرفتاریاں ہوتی تھیں۔ پولیس اور دیگر خفیہ اداروں کے اہلکار راتوں کو گھروں کی دیواریں پھلانگ کر سیاسی کارکنوں کو تلاش کرتے۔ صدیق بلوچ نے سیاسی کام شروع کیا تو گرفتار بھی ہوئے۔ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی بخش تالپور لندن گئے۔

بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کے لیے پاکستان آنے والے نوجوانوں کے خلاف سازش کے مقدمات قائم کر کے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا۔ حیدرآباد سینٹرل جیل میں مقدمہ چل رہا تھا ، یوسف مستی کراچی واپس آچکے تھے ، ان کے سینئر ساتھی گرفتار تھے۔ یوسف کو خود تفتیشی مراکز بلایا جاتا تھا مگر وہ ثابت قدم رہے۔ میر بزنجو سے رابطہ کا کام کرتے رہے۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے 1971کے انتخابات میں لیاری سے قومی اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا۔ میر غوث بخش بزنجو این ڈی پی سے علیحدہ ہوگئے اور نیشنل پارٹی قائم کی۔ یوسف مستی خان نے این بی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک میں میر بزنجو کا قیام کراچی میں مستی خان لاج میں رہا۔ یوں یہ گھر تحریک کا مرکز رہا۔

یوسف کے قریبی ساتھی امریکا میں زیرِ علاج سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا یوسف مزاحمتی تحریک سے اس حد تک وابستہ ہوا کہ خاندانی کاروبار سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ بلوچ مارکسٹ صحافی عزیز سنگھور نے یوسف کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یوسف بلوچ کے انتقال سے بلوچ اور دیگر اقوام اپنے قائد سے محروم ہوگئی ہیں۔ نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ایوب ملک نے یوسف کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ہوتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کرلیتے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔