پہنچے گی خاک وہیں جہاں کا خمیر تھا

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 6 اکتوبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

ٹرانس جینڈر بل کا پیش ہونا، اس کا پاس ہوکر قانون بننا اور اس قانون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مردوں کا عورت بننا اور عورتوں کا مرد بننا بذات خود ایک گمراہی والا عمل ہے۔

بدقسمتی سے اس قانون کو جن قوتوں نے بنایا اور ایک اسلامی ملک میں نافذ کرایا آج اسے بچانے کے لیے یہ لابی ایک بار پھر سرگرم عمل نظر آرہی ہے۔ اس قانون کو بنانے میں بڑی محنت کی گئی ہے، جن لوگوں نے یہ کام کیا انھیں بھلا کیسے گوارا ہوگا کہ اس قانون کو تبدیل کیا جائے یا سرے سے ہی ختم کیا جائے۔ اس لیے وہ اسے بچانے کے لیے پوری طاقت سے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ سلگتا ہوا مسئلہ ہے جس پر ہم پہلے بھی ایک بھرپور کالم لکھ چکے ہیں جو 25نومبر 2021 کو روزنامہ ایکسپریس میں چھپ چکا ہے۔ مگر جس قوت کے ساتھ آواز جانی چاہیے تھی وقت پر نہ جاسکی۔

اللہ رب العزت جزائے خیر دے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان، جمعیت علمائے اسلام کی ممبر پارلیمنٹ نعیمہ کشور صاحبہ اور اوریا مقبول جان صاحب کو جنہوں نے ابتدا سے اس کی مخالفت کی اور مسلسل اس کو روکنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اخلاص کی برکت ہے کہ اس قانون کے اغراض و مقاصد عوام پر آشکار ہوگئے اور اہل قلم نے اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ بنیادی طور پر ایک شوگر کوٹیڈ زہر ہے جو پاکستان کے سادہ لوح باشندوں کو قانونی اور دستوری شکل میں دیا جا رہا ہے۔ یہ قانون شریعت سے ہی متصادم نہیں بلکہ ہماری معاشرتی اقدار کی جڑیں بھی کھوکھلی کررہا ہے۔

پاکستان کے دستور میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہے کہ ’’مملکت خداداد پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بن سکتا‘‘۔ یہ بات بھی طے تھی کہ تمام قوانین اسلام کے سانچے میں ڈھالے جائیں گے لیکن پہلے سے موجود قوانین تو کیا تبدیل ہونے تھے، ایسے نئے قوانین بنائے جارہے ہیںجن پر دینی حلقے مطمئن نہیں ہیں۔

نام نہاد عوامی نمایندوں نے اپنے معروف طریقہ واردات کے مطابق غیر محسوس انداز، نہایت چالاکی سے بنیادی انسانی حقوق کے لبادے میں ٹرانس جینڈر بل اس وقت پیش کیا جب سینیٹ میں ممبران رخصت پر جا رہے تھے اور تعداد انتہائی قلیل تھی مگر تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام دیسی لبرلز ارکان حاضر اور اس بل کے حق میں یک زبان تھے۔

یہ بل قومی اسمبلی کے اختتامی دنوں میں پیش کیا گیا وہاں بھی اراکین کی تعداد انتہائی قلیل مگر تمام سیکولر پارٹیوں کے دیسی لبرلز موجود تھے، ایسے بل کو ہمیشہ انگریزی میں پیش کیا جاتا ہے جو 70% ممبران کے سر کے اوپر سے ہی گزر جاتا ہے، مذہبی جماعتوں کے 99% ممبران کو سمجھ ہی نہیں آتا، پاس ہونے کے بعد انگریزی اور اردو کے ڈرافٹ مختلف ہوتے ہیں۔

یہ بل پاس کیوں ہوا اور وقت پر اسکا سدباب کیوں نہیں ہوسکا اسکی وجہ یہ کہ آج تک اچھے خاصے پڑھے لکھے پاکستانی، سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کی ایک بڑی تعداد آج بھی مکمل طور پر سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ یہ ٹرانس جینڈر ہے کیا بلا؟ تو عام لوگ کیسے سمجھ پائیں گے لہذا آئیے اسے عام فہم الفاظ میں سمجھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ’’ٹرانس جینڈر جسمانی طور پر وہ مکمل مرد اور وہ مکمل عورت ہے جو اپنے آپ کو ذہنی طور پر اپنی خداداد جنس کو اس سے مختلف سوچتے ہیں‘‘۔

سوچتا بندہ وہی ہے جو اسکو پسند ہو تو اگر ہم یوں کہیں کہ وہ مکمل مرد جو اپنے آپ کو عورت اور وہ مکمل عورت جو اپنے آپ کو مرد کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں، ٹرانس جنڈر کہلاتے ہیں۔

یعنی ایک مرد جسے اللہ رب العزت نے ظاہری اور پوشیدہ طور پر بچے پیدا کر نے اور باپ بننے کی اہلیت و صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا، مگر نفسیاتی طور پر وہ اپنے آپ کو عورت سمجھتا ہے تو وہ نسوانی لباس، میک اپ، زیورات پہنے گا، زنانہ حرکات و سکنات کرتے ہوئے خاتون دیکھنا اور کہلانا اور عورتوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتا ہے، وہ ٹرانس جینڈر ہے۔

بالکل اسی طرح ایک عورت جسے اللہ رب العزت نے ظاہری اور پوشیدہ طور پر بچے پیدا کر نے اور ماں بننے کی اہلیت و صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا، مگر نفسیاتی طور پر وہ اپنے آپ کو مرد سمجھتی ہے تو وہ مردانہ لباس اور حرکات و سکنات کرتے ہوئے مرد دیکھنا اور کہلانا اور مردوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتی ہے، وہ ٹرانس جینڈر ہے۔

ایک ذی شعور اور عقلمند انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ قانون فطرت سے متصادم اس تصور کو بھی جائز قرار دے مگر ایسا ہورہا ہے ۔ مندرجہ بالا مذکورہ افراد کے گروہ کو مغرب نے LGBT کا نام دیا گیا جس میں L سے لیزبین (وہ عورت جو اپنے آپ کو مرد تصورکرتی ہے، G سے ’’گے‘‘( وہ مرد جو اپنے آپ کو عورت تصورکرتا ہے)۔

قدرت سے آمادہ بہ جنگ اور نفسانی خواہشات کے سحر میں مبتلا اس گروہ کی خواہشات یہاں نہیں رکتیں، ان کا ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو اپنے آپ کو بیک وقت مرد اور عورت تصور کرتا ہے یعنی پسند کی عورت ملی تو مرد اور پسند کا مرد ملا تو عورت اس گروہ کو بائیوسیکشوئیل یعنی دونوں رجحانات رکھنے والا کہلاتا ہے اور B ان کی نمایندگی کے لیے ہے، آخری حرف T ٹرانس جینڈر کے لیے ہے۔

مغربی ممالک میں خصوصاً امریکا میں LGBT بہت معروف و مشہور اصطلاح ہے جیسا اوپر ذکر کیا گیا کہ نفسانی خواہشات کی رو میں بہہ جانے کے بعد انسان آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس میں مزید کئی اور گروہ بن گئے جن کو نمایندگی دینے سے LGBT کے ساتھ QIA2S کا اضافہ کیا گیا اب یہ LGBTQIA2S بن گیا جس پر کسی اور آرٹیکل میں بات کرینگے۔

اب اگر ہم اس پر غور کریں تو تمام گروہوں میں قدر مشترک دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کا مقصد یہ ہے ہر فرد کو مکمل آزادی اور اختیار دیا جائے کہ وہ جو بھی چاہے صنف اختیار کر سکتاہے، ہر فرد کو اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی آزادی کہ مرد بنے یا عورت، کسی کو کوئی حق نہیں کہ اس سے پوچھ سکے، منع کرسکے، ان تمام غلیظ گروہوں کو امریکا اور تقریبا تمام یورپی ممالک میں قانونی طور پر مکمل جنسی آزادی حاصل ہے اور باقاعدہ مکمل منصوبہ بندی اور پلاننگ کے تحت دنیا کے تمام ممالک میں انسانی حقوق کی آڑ میں اس غلاظت کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔

آج پاکستانی اس کلچر کی زد میں ہے۔ خدا نخواستہ اگر اس قانون کو منسوخ نہیں کیا گیا تو اور جس تیزی سے اس قانون کی آڑ میں جنس تبدیلی کے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں جس کا ذکر ہم اپنے کالم میں کرچکے ہیں۔

مذکورہ کالم میں ہم نے بتایا تھا 2018 سے اب تک کتنے لوگوں نے اس قانون کا فائدہ اٹھایا اور اس حوالے سے سینیٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے تب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے سوال کیا کہ جولائی 2018 سے جون 2021 تک نادرا کو جنس تبدیلی سرٹیفکیٹ کے اجراء کے لیے ملنے والی درخواستوں کی تعداد بتائی جائے اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ درخواست دینے والوں کی موجودہ جنس کیا تھی اور وہ اسے تبدیل کروا کر کیا لکھوانا چاہتے تھے۔

اس پر وزارت داخلہ نے جواب جمع کروایا۔ وزارت داخلہ کے اعداد وشمار کے مطابق، گزشتہ تین سالوں میں نادرا کو جنس تبدیلی کی 28723 درخواستیں موصول ہوئیں، جن پر عمل درآمد کیا گیا۔ ان میں سب سے زیادہ 16530 درخواستیں جنس مرد سے عورت میں تبدیل کرنے اور 15154 درخواستیں خاتون سے مرد میں تبدیل کرنے کی تھیں۔ اس تعداد میں اب تک بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہوگا۔

اس قانون کے تحت شناختی دستاویزات تبدیل ہو جانے کے ساتھ ایک مکمل مرد کو قانونی طور پر عورت اور مکمل عورت کو قانونی طور پر مرد مانا جائیگا، بعض صاحبان سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملکی قوانین کے مطابق دو مردوں اور دو عورتوں کو ایک دوسرے سے شادی کرنے کی اجازت مل جائے گی، وراثت کے قرآنی شریعت مطہرہ کے قوانین کے مطابق حصہ اور مقدار بدل جائیگا، مکمل مرد عورت کے روپ میں عورتوں کی محافل میں شامل ہوسکے گا، عورتوں کے لیے مخصوص ہر سہولت کو استعمال کر سکے گا جس سے اس ملک میں بے حیائی کا دروازہ کھل جائے گا ۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت اگر کوئی مرد نفسیاتی عارضے یا جنسی رجحان کی بنیاد پر خود کو عورت کہے تو ہر جگہ اس کی بطور عورت رجسٹریشن ہوجائے۔ اور اسی طرح اگر کوئی عورت نفسیاتی عارضے یا جنسی رجحان کی بنیاد پر خود کو مرد کہے تو ہر جگہ اس کی بطور مرد رجسٹریشن ہوجائے اور یہی اس بل پر سب سے بڑا اعتراض ہے کہ مکمل میڈیکل چیک اپ، تمام ممکنہ ٹیسٹ اور جینیاتی تجزیے کے بغیر ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

میڈیکل چیک اپ میں جسمانی، نفسیاتی اور ماہرین شریعت کی رائے بھی ضرور لی جائے، مرض نفسیاتی ہو یا جسمانی تشخیص کے بعد اس کا جدید ترین خطوط پر علاج ہوسکے اور وہ بندہ ایک مکمل اور کارآمد شہری اور خداداد صلاحیتوں کے مطابق معاشرے میں اپنی ذمے داری پوری کرے۔ ریاست پاکستان کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کو کہیں کہ ان افراد کے مکمل علاج کے لیے قانون سازی کرے اور ریاست اپنے خرچے پر ان افراد کا علاج کروائے۔

ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ اور دیسی لبرلز مختلف ٹاک شوز میں عوام کو گمراہ کرنے کے لیے جو زہر انسانی حقوق کے شوگر کوٹیڈ کیپسول میں دے رہے ہیں اس کا نہ اخلاقی جواز ہے نہ قانونی۔ درد دل کے ساتھ پوری قوم خصوصاً اہل علم و دانش، اہل قلم اور اہل رائے سے اپیل کرتا ہوں کہ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اس غلاظت کو روکنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں، صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران پر نہیں چھوڑنا چاہیے اس کے لیے پوری قوم کو تمام سیاسی،گروہی اور مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر میدان میں آنا ہوگا اس ایشو کو سنجیدہ لیں۔ اپنے بچوں اور اپنے معاشرتی نظام کو بچانے کے لیے کھڑے ہوں۔ قوم جب متحد ہو جائے پھر دیکھیں۔

پہنچے گی خاک وہیں جہاں کا خمیر تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔