ملٹری ڈپلومیسی کی کامیابیاں

مزمل سہروردی  جمعـء 7 اکتوبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج کا دور ڈپلومیسی کا دور ہے۔ اب ڈپلومیسی سے جنگیں جیتی جاتی ہیں۔ کامیاب ڈپلومیسی ہی ملک کو کامیابی دلاتی ہے۔جیسے جیسے دنیا میں ڈپلومیسی کی اہمیت بڑھتی گئی ویسے ویسے ملٹری ڈپلومیسی کی اصطلاح بھی سامنے آئی۔ ورنہ پہلے تو ملٹری کا صرف جنگوں سے ہی تعلق سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب ملٹری ڈپلومیسی کو بھی دنیا میں ایک اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں عام ڈپلومیسی کے ساتھ ملٹری ڈپلومیسی کو بھی چلایا جاتا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان میں ملٹری ڈپلومیسی کو ایک نئی جدت دی۔ ان کے دور میں ملٹری ڈپلومیسی پر خصوصی توجہ دی گئی اور پاک فوج نے دنیا بھر کی نہ صرف افواج کے ساتھ بلکہ اہم ممالک کی حکومتوں کے ساتھ بھی ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان کے تعلقات بہتر کیے ہیں۔ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

ویسے تو جنرل قمر جاوید باجوہ آجکل امریکا کے دورے پر ہیں۔ جہاں امریکا کے اہم عہدیدار جن میں سیکریٹری ڈیفنس اور دیگر عہدیداروں نے ان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ دورہ بھی پاک امریکا تعلقات کی بحالی اور پاکستان کے لیے بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دورے کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ کو خصوصی گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ جو پاک فوج کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے نہ صرف سفارتی تعلقات کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے بلکہ پاک فوج اور امریکا کے درمیان دفاعی تعاون کو مضبوط کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں کامیاب ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان کی معاشی ترقی امن و خوشحالی کے لیے اہم کردار ادا کیا گیا ہے۔ ملٹری ڈپلومیسی نے پاکستان کے تابناک مستقبل کی مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔بالخصوص سعودی عرب یو اے ای اور چین کے ساتھ معاشی ، عسکری اور سماجی شعبوں میں ملٹری ڈپلومیسی سے تعلقات کو بہتر بنایا گیا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کرنے کی پاکستان دشمنوں کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ نے فرنٹ فٹ پر کھیلا۔ انھوں نے اس محاذ پر بھی دشمن کو شکست دینے کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا۔ کئی دفعہ سفارتی محاذ پر بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار سول حکومت سے کہیں آگے نظر آیا۔ ان کی اس کامیاب ملٹری ڈپلومیسی نے پاکستان کو کئی دفعہ مشکل صورتحال سے نکالنے میں بہت مدد کی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعوی عرب سے خراب تعلقات کو ٹھیک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے جب سعودی عرب کو شدید ناراض کر دیا تب جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی کامیاب ملٹری ڈپلومیسی سے ہی خراب اور بگڑے ہوئے تعلقات کو واپس ٹھیک کیا۔ اسی لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کی کامیاب ملٹری ڈپلومیسی سے پاکستان کو نہ صرف سعودی عرب ا ور یو اے ای سے کئی ارب ڈالر کے ڈپازٹ ملے بلکہ تیل کی سہولت بھی ملی۔ جس سے پاکستان کی معیشت کو سہارا ملا۔ اسی طرح جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ملٹری ڈپلومیسی سے قطر سے کم ترین نرخ پر پاکستان کے لیے ایل این جی حاصل کی۔

سعودی عرب اور یو اے ای نے پاکستان کو جو معاشی پیکیج دیے اس میں ملٹری ڈپلومیسی کا بڑا کردار ہے۔ حال ہی میں جب آئی ایم ایف کی ڈیل خراب ہو گئی تو پاکستان کا آئی ایم ایف کا پیکیج خطرہ میں پڑ گیا۔ سب کہہ رہے تھے کہ اگر آئی ایم ایف کا پیکیج نہ ملا تو تو پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ ایسے میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے پردے کے پیچھے رہتے ہوئے ملٹری ڈپلومیسی سے اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے امریکی نائب وزیر خارجہ سے رابطہ کر کے امریکا کو آئی ایم ایف ڈیل کو بحال کروانے میں کردار ادا کرنے کے لیے کہا۔ جس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔

کرتار پور راہداری بھی ملٹری ڈپلومیسی کی ایک شاندار مثال ہے۔ کرتار پور راہداری سے جنرل قمر جاوید باجوہ نے دشمن کو پیغام دیا کہ پاک فوج امن کے لیے کام کرتی ہے۔ کرتار پور راہداری کھولنے کا Initiativeمکمل طور پر فوج کی قیادت نے کیا۔

اس لیے یہ ملٹری ڈپلومیسی کی ایک شاندار مثال ہے۔ پاک فوج کے ہی ذیلی ادارے FWOنے صرف آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں اسے مکمل کیاجو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔

آج اس Initiativeکے ذریعے پوری دنیا جان چکی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے اور ترقی کے بھر پور مواقع حاصل ہے جس کا اعتراف اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کرتار پور کے دورے پر کیا۔ کرتار پور راہداری کھلنے سے مودی حکومت لاجواب بھی ہوئی اورسفارتی محاذ پر شدید دباؤ میں بھی آئی۔ کرتار پور راہداری کو ملٹری ڈپلومیسی میں ماسٹر اسٹروک کی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔

کار کے تنازعہ کو بھی جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملٹری ڈپلومیسی سے ہی حل کیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان 2017میں عالمی فورم پر کارکے کا مقدمہ ہار گیا تھا۔جس کی وجہ سے پاکستان کو 1.2بلین ڈالر کا جرمانہ ہوا۔ کارکے تنازعہ کا جب کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کو یہ بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا تب جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملٹری ڈپلومیسی سے اس کو حل کیا۔ اسی وجہ سے دو فوجی افسران کو کامیاب ملٹری ڈپلومیسی پر سرکاری اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

اسی طرح ریکوڈک بھی پاکستان کے لیے ایک فنانشل ڈیزاسٹر بن چکا تھا۔ پاکستان کے لیے ریکوڈک کا 11بلین ڈالر کا جرمانہ چکانا نا ممکن تھا۔ اسی جرمانہ کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی پراپرٹیز پر قبضہ شروع ہو گیا تھا۔ ریکوڈک پر پاکستان بند گلی میں نظر آرہا تھا۔ اس کا کوئی سفارتی حل بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ تب اس کو حل کرنے کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملٹری ڈپلومیسی شروع کی۔ ان کی قیادت میں ایک میجر جنرل پر مشتمل ایک ٹیم بنائی گئی جس نے یہ معاملہ حل کیا۔

اگر دیکھا جائے تو ریکوڈک اورکارکے ایسے مسائل جن کا ا گر بروقت حل نہ کیا جاتا تو پاکستان معاشی طور پر تباہ ہو سکتا تھا۔ دشمن کی یہی امید تھی۔ لیکن کامیاب ملٹری ڈپلومیسی سے پاکستان نہ صرف اس گرداب سے نکل آیا بلکہ کئی بلین ڈالر کی قومی خزانہ کو بچت ہی ہوئی۔ یہ دو کامیابیاں ہی ملٹری ڈپلومیسی کی کامیابیاں اور اہمیت سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔

سی پیک میں بھی ملٹری ڈپلومیسی کے کردار کو نظر اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی کے لیے پا ک فوج نے خصوصی ڈویژن بنائے۔پاک چین اسٹرٹیجک تعلقات کامیاب ملٹری ڈپلومیسی کا مظہر ہیں۔ جن کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔

جنرل باجوہ کے افغان امن عمل میں پاکستان کے کلیدی کردار کو دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ 2017 میں اپنے پہلے دورہ افغانستان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان قیادت کے ساتھ قیام امن کے حوالہ سے جامع بات چیت کی۔

افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء میں بھی پاک فوج کی ملٹری ڈپلومیسی دیکھنے میں آئی۔ پاک فوج نے امریکی فوج کو نکلنے میں مدد کی جس کی وجہ سے یہ انخلا ممکن ہوا۔ اور افغانستان سے بیرونی فوجوں کا خاتمہ ہوا۔ افغان سرحد پر باڑ لگانے کے لیے بھی پاک افغان ملٹری ڈپلومیسی کا اہم کردار ہے۔ اس سرحد پر کئی تنازعات بھی موجود ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کو دوسری طرف مستقل سرحد بھی نہیں مانا جاتا۔ لیکن یہ کامیاب ملٹری ڈپلومیسی ہی تھی جس سے یہ باڑ لگنا ممکن ہوئی اور آج بھی قائم ہے۔ جس سے دہشت گردی کے خاتمہ میں بہت مدد مل رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔