دلوں کے پھول مرجھا گئے ہیں

م ش خ  جمعـء 7 اکتوبر 2022
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

مجھ سمیت اکثر کالم نگار حضرات ہمیشہ عوامی مسائل پر روشنی ڈالنے کا فرض ادا کرتے ہیں تاکہ حکام بالا کی توجہ مسائل کے حل کی جانب دلائی جاسکے قانون تو جب ہی بنتا ہے جب پارلیمنٹ اس کو منظور کرتی ہے اب پارلیمنٹ کو بھی چاہیے کہ جو قانون نافذ ہوا ہے عوام کی بہتری کے لیے اس پر دل و جان سے عمل کیا جائے مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سے بل تو منظور ہو گیا مگر اس پر عملدرآمد میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں، جو عوام کے لیے تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے ہماری قومی اسمبلیاں قوم کے نمایندوں پر تشکیل دی جاتی ہیں مگر جب عمل نہ ہوں تو قوم مایوسی کا شکار ہوتی ہے۔

سیاست میں کھیل تماشے عجیب و غریب ہو رہے ہیں قوم حیرت زدہ ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟غیر تعلیم یافتہ فرد کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر جو تعلیم یافتہ ہیں وہ آج کی سیاست سے بہت مایوس ہیں ابھی حکومتی ادارے کی آڈیو کا تذکرہ اپنے انجام کو پہنچا ہی تھا کہ پی ٹی آئی کی آڈیو نے سب کچھ اگل دیا ۔عوامی مسائل تو جوں کے توں ہیں مگر سیاسی کھیل تماشے نے پھر ایک نیا راستہ اختیار کرلیا ہے۔

سیاسی کردار کشی نے مقابلے کی دوڑ کا اہتمام کر رکھا ہے اب تو بات یہاں تک آگئی ہے کہ ایک دوسرے کو غدار وطن کہتے ہیں قوم پریشان ہے کہ قومی اسمبلی کے لیے ہم نے جو اپنے مسائل کے حل کے لیے خوشی کے پھول چڑھائے تھے وہ پھول تو قائم نہ رہ سکے ہاں مسائل کے حوالے سے دلوں کے پھول مرجھا گئے ہیں اب سیاستدان قوم کی بقا کے لیے نہیں اپنی بقا کے لیے خونخوار طریقے سے لڑ رہے ہیں، آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا یہ سمجھ سے بالاتر ہے عوام کی خواہشات پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ جنھوں نے سیاست دانوں کو اپنی بے شمار تکلیفوں کے ازالے کے لیے منتخب کیا تھا۔

اب وہ الیکشن میں اپنے آپ کو منتخب کرانے کے دل و جان سے کوشاں ہیں آئین اور حلف تک کو کونے میں لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔ لوگ روزانہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں اور مرنے والوں کے اہل خانہ جیتے جی مر رہے ہیں اور مرنے والے کی روح انصاف کے لیے بھٹک رہی ہے۔ حرام اور حلال کی تمیز کو کفن پہنا دیا گیا ہے اگر کوئی رب کا نیک سپاہی آ گیا تو پھر حساب کتاب تو مکمل ہوگا پھر لاپرواہی کی تدفین تو یقینا ہوگی آئین کی پاسداری کا تو سیاسی طور پر بڑا احترام مگر آئین میں جو قانون قوم کے لیے موجود ہے۔

اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ صادق اور امین موجود ہیں مگر روشنی نظر نہیں آتی بھلا بتائیے اس ملک میں صرف 4000 کی غیر قانونی پستول رکھنے والے لوگوں کی جان لے کر روزانہ ہزاروں روپے سمیٹ لیتے ہیں اور مرنے والے کے اہل خانہ ساری عمر اذیت میں زندگی گزاریں گے پھر بات کرتے ہیں سیاسی حضرات بیرونی مداخلت اور عالمی سازش کی لاقانونیت کی موجودگی میں بیرونی مداخلت اور عالمی سازش کی باتیں مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہیں یہ سیاسی طور پر جان چھڑانے والی بات ہے اصل سازش تو یہ ہے کہ آئین کے تحت قوم سے کیے گئے وعدے الیکشن سے قبل جو کیے گئے تھے انھیں پورا کریں تو سازش کا خاتمہ ہوگا کیونکہ عوام سے ان کے مسائل کو حل کروانے کے لیے وعدے کیے گئے ۔

سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف انتہائی گھٹیا زبان استعمال کرتے ہیں سیاسی طور پر خواتین کو نہ اپنے خواتین ہونے کا احساس ہے اور نہ مرد حضرات کو اپنی عزت و تکریم کا خیال ہے معصوم اور غیر تعلیم یافتہ حضرات تو ان بیانات پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے پسندیدہ لیڈر نے کیا بات کی ہے جب کہ تعلیم یافتہ حضرات ان بیانات کو سننے کے بعد صدمے کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں کہ وطن عزیز کا مستقبل میں کیا ہوگا ؟ہماری نوجوان نسل کب تک خوف زدہ سیاست کے پودے کو امید کا پانی دیں گی کہ وہ اب خود ناامید ہو رہی ہے، ماضی تو گزر گیا مستقبل میں کیا خوب صورت فصلیں کاٹنا ہمارے نصیب میں ہوگا یا ہم بھی اپنے بزرگوں کی طرح جوانی گزار کر بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھیں گے۔

الیکشن سے پہلے سیاسی طور پر جو پیش گوئیاں تھیں وہ اب مٹی کا ڈھیر ہوگئی ہیں۔ میں نے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا اب پھر لکھ رہا ہوں کہ ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘‘ نافذ ہو چکا اور اس میں جو شقیں منظور ہوئی ہیں، انھیں کالم میں بیان کرنا تہذیب کے دائرے میں نہیں آتا ہاں یہ ضرور تحریر کروں گا جہاں قوم کو بے شمار مشکلات کا سامنا تھا وہ اسے برداشت کرتی ہے گزشتہ دنوں ایک وڈیو واٹس ایپ گروپس میں آن ایئر ہوئی ، ہیجڑوں نے احتجاج کیا یہ اب ملک میں نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔

اس احتجاج کے دوران ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے ، یہ وہ لوگ ہیں جو تالیاں بجا کر اپنی روٹی روزگار کمایا کرتے تھے سیاسی طور پر اس ایکٹ میں آپ نے انھیں جو حقوق دیے ہیں اس کا جائزہ لیجیے کیا وہ ہمارے اسلامی احکامات پر پورا اترتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے درمیان موجود ہیں وہ اسمبلی میں جب کسی بل کو پیش کرتے ہیں تو پہلے صحافیوں کی اور عوامی رائے لی جاتی ہے جہاں اکثریت پائی جاتی ہے اس رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں پارلیمنٹ سے جب کوئی بل پاس ہوتا ہے تو اس پر عمل کروانے کے لیے حکومت کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بعد میں حکومت کے لیے وبال جان بن جاتا ہے کسی بھی بل پر اگر عوامی رائے لی جائے تو بہتر ہے کہ حکومت کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے مانا کہ پارلیمان عوامی نمایندوں پر مشتمل ہوتی ہے مگر کچھ لوگوں کی ذاتی رائے مشکلات پیدا کرتی ہیں اب تو ڈیجیٹل کا دور ہے رازداری چل نہیں سکتی ہر چیز انٹرنیٹ پر آجاتی ہے۔

چاروں صوبوں میں وارداتیں دھڑلے سے ہو رہی ہیں، مزے کی بات دیکھیں کہ عورتیں بھی ڈاکوؤں کے ساتھ مل کر ان کا ہاتھ بٹا رہی ہیں اور تو اور یہ وبا اتنی پھیل گئی ہے کہ ان معزز ڈاکوؤں نے گاؤں دیہاتوں کا بھی رخ کرلیا ہے معزز انھیں اس لیے لکھا ہے کہ یہ قانون سے برملا شخصیات ہیں ہمارا معاشرہ کس قدر پستی کی طرف رواں دواں ہے سیاسی طور پر سیاست دان آنے والے اپنے حصوں کے ایوانوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان سیاسی حضرات کو اس کا بالکل احساس نہیں کہ ٹماٹر 300 روپے اور پیاز 200 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے مگر یہ حضرات ایران اور بھارت سے یہ چیزیں نہیں منگواتے ادھر چینی کا اسٹاک 17 لاکھ ٹن ہے وہ کہتے ہیں کہ حکومت برآمد کی اجازت دے۔

قوم کے مفاد میں چینی سستی نہیں کر رہے اگر یہ چاہیں تو ملکی ضرورت کے تحت ملک میں چینی 15 روپے کلو کم کردیں تاکہ قوم مستفید ہوجائے ادھر ایک خبر یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ چین پاکستان سے گدھے اور کتے درآمد کرنے کا خواہاں ہے بھلا بتائیے ہمارے ہاں گدھوں اور کتوں کی کمی ہے اس پر عمل کیا جائے ملک کو ہی زرمبادلہ ملے گا مگر یہ بھی ناممکن ہے گزشتہ دنوں گاڑی کے 5 ٹائروں کی تبدیلی کی خبر اخبارات میں نمایاں تھی کہ 2 کروڑ33 لاکھ روپے خرچ ہوئے ٹائر مہنگے ہوگئے ہیں ہو سکتا ہے کہ ٹائروں میں کچھ سونے کے پیس بھی لگے ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔