امن کا نوبل انعام بیلاروس کے ایکٹوسٹ کیساتھ روس اور یوکرین کی تنظیموں کے نام

ویب ڈیسک  جمعـء 7 اکتوبر 2022
بیلاروس کے ایکوٹسٹ کے ساتھ نوبل انعام روسی اور یوکرینی این جی اوز کو دیا گیا، فوٹو: ٹوئٹر

بیلاروس کے ایکوٹسٹ کے ساتھ نوبل انعام روسی اور یوکرینی این جی اوز کو دیا گیا، فوٹو: ٹوئٹر

اسٹاک ہوم: رائل سوئیڈش اکیڈمی نے رواں برس امن کے نوبل انعام سے بیلاروس کے انسانی حقوق کے لیے نہایت سرگرم اور اس پاداش میں اسیری کاٹنے والے ایلس بیایاٹسکی کے ساتھ ساتھ روس اور یوکرین کی انسانی حقوق کی تنظیموں ’’میموریل‘‘ اور ’’سینٹر فار سول لبرٹیز‘‘ کو نوازا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امن کا نوبل انعام 2022 مشترکہ طور پر بیلاروس، یوکرین اور روس کے نام رہا۔ اس بار نوبل انعام برائے امن روس اور یوکرین کی انسانی حقوق کی دو تنظیموں اور بیلاروس کے ایک سرگرم کارکن کو دیا گیا جو اس وقت اسیر ہیں۔

انسانی حقوق، امن اور جمہوریت کے لیے شخصی جدوجہد پر جس سماجی کارکن اور تنظیمی سطح پر خدمات کے اعتراف میں جن دو این جی اوز کو مشترکہ طور پر نوبل انعام 2022 سے نوازا گیا ان کی تفصیلا درج ذیل ہیں۔

بیلا روس کے انسانی حقوق کے سرگرم اسیر کارکن 

انسانی حقوق کی دو تنظیموں کے ساتھ جس شخصیت کو امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے ان کا تعلق بیلاروس سے ہے۔ ملک میں انسانی حقوق، امن اور جمہوریت کے لیے سرگرم کارکن ایلس بیایاٹسکی نے صرف 24 سال کی عمر میں اپنی جدوجہد کا آغاز تن تنہا 1980 میں کیا اور جب 1996 میں ملک میں ایک آمر نے حکومت پر قبضہ کیا اور سیاسی مخالفین کو طاقت سے کچلا تو ایلس نے ’’بہار‘‘ کے نام سے ایک سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی۔

یہ تنظیم جمہوریت کی بحالی کے لیے سخت گیر آمر کے سامنے ڈٹ گئی۔ سیاسی کارکنان اور قیدیوں کو قانونی اور ان کے اہل خانہ کو سماجی خدمات مفت فراہم کرتی رہی جس کی پاداش میں بیلاروس کے آمروں نے ایلس بیایاٹسکی کو 2011 سے 2014 تک غیر قانونی حراست میں رکھا۔ رہائی کے بعد ایلس نے اپنی جدوجہد کو مزید تیز کردیا اور 2020 میں ملک میں بڑے بڑے مظاہر کیے جس کی پاداش میں انھیں ٹیکس چوری کے جھوٹے مقدمے میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔

60 سالہ ایلس بیایاٹسکی تاحال زیر حراست ہیں اور اب تک ان پر عائد جھوٹے مقدمے کی قانونی کارروائی بھی شروع نہیں کی گئی۔ بیلاروس کی حکومت دباؤ ڈالر کر ایلس کو امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد سے روکنا چاہتی ہے لیکن وہ ڈٹے ہوئے ہیں جس پر انھیں نوبل انعام برائے امن سے نوازا گیا۔

روس کی سول سو سائیٹی ’’میموریل‘‘

انسانی حقوق کی جن دو تنظیموں کو نوبل انعام برائے امن دیا گیا ان میں سے ایک روس میں سرگرم سول سوسائٹی ’’میموریل‘‘ ہے جس کی بنیاد سقوط سویت یونین کے موقع پرجنوری 1989 میں رکھی گئی تھی تاہم یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد اپریل 2022 کو اس این جی اور کو حکومت نے جبراً بند کردیا تھا۔

این جی او ’’میموریل‘‘ نے روس میں سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیوں، سیاسی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، آزادیٔ اظہار رائے پر قدغن اور غیر جمہوری قوانین کے خلاف آواز اُٹھائی جس کی پاداش میں 2009 میں اس سول سوسائیٹی کے دو مقامی عہدیداروں کو قتل کیا گیا اور حکومت کی جانب سے شدید دباؤ، دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سامنا رہا جس میں یوکرین جنگ کے بعد مزید شدت آئی۔

یوکرین کی انسانی حقوق کی تنظیم ’’سینٹر فار سول لبرٹیز‘‘

نوبل انعام برائے امن یوکرین میں مصروف عمل انسانی حقوق کی تنظیم ’’سینٹر فار سول لبرٹیز‘‘ کو بھی مشترکہ طور پر دیا گیا جس کی بنیاد کیف میں 2007 کو رکھی گئی تھی۔ اس تنظیم نے یوکرین میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بے پناہ کام کیا اور آگاہی پروگرام کے ذریعے عوامی رائے میں تبدیلی کرکے حکمرانوں کو ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے مجبور کردیا۔

علاوہ ازیں ’’سینٹر فار سول لبرٹیز‘‘ کی جدوجہد کی بدولت ہی یوکرین میں قانون کی حکمرانی ممکن ہوئی اور یہ ریاست انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی ممبر بنی جو انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔ اس تنظیم نے روس کے یوکرین پر رواں برس فروری میں حملے کے بعد نہ صرف سے شہریوں کے تحفظ کے لیے اہم کام کیے بلکہ جنگی جرائم کا ریکارڈ بھی مرتب کیا۔

نوبل انعام برائے امن کیا ہے ؟ 

خیال رہے کہ نوبل امن انعام کی مالیت 10 ملین سویڈش کراؤن، یعنی 9 لاکھ ڈالر ہے جو 10 دسمبر کو اوسلو میں سویڈن کے صنعت کار الفریڈ نوبل کی برسی کے موقع پر پیش کیا جائے گا۔

سویڈن کے صنعت کار الفریڈ نوبل نے 1895 میں اپنی وصیت اس ایوارڈز کی بنیاد رکھی تھی اس لیے ہر سال ان کی برسی پر یہ انعام دیا جاتا ہے تاہم ناموں کا اعلان پہلے ہی کردیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ امن کا نوبیل انعام کسی فرد یا تنظیم کو انسانی حقوق، ملکوں کے درمیان رفاقت بڑھانے، فوجی حکومت کے خاتمے، امن کے قیام اور جمہوریت کے فروغ کے لیے سب سے زیادہ یا بہترین کام کرنے پر دیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔