گندم کا اچھوتا انقلاب

سید عاصم محمود  اتوار 9 اکتوبر 2022
برازیل کے قومی زرعی ادارے نے خشک وکم پانی والے علاقے میں بھی اُگ جانے والاگندم کا کرشماتی بیج تیارکرلیا…ڈرامائی داستان۔ فوٹو : فائل

برازیل کے قومی زرعی ادارے نے خشک وکم پانی والے علاقے میں بھی اُگ جانے والاگندم کا کرشماتی بیج تیارکرلیا…ڈرامائی داستان۔ فوٹو : فائل

پائلو بوناٹو(Paulo Bonato)نے گندم کا پودا بڑے پیار سے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ وہ ملائمت سے اس کی بالیوں پہ انگلیاں پھیر رہا تھا۔

آسمان پہ سورج آب وتاب سے چمک اٹھا تھا۔کھیت کے اردگرد واقع مٹی دھوپ کی شدت سے سرخ ہو چکی تھی۔تاہم پائلو کا سرسبز ولہلاتا کھیت دیکھ کر لگتا تھا وہ برازیل کے ایک خشک علاقے نہیں ایمیزن میں واقع ہے جہاں بارشوں کا ہونا معمول ہے۔

گندم کے کھیت سے کچھ دور مکئی کا کھیت بھی واقع تھا مگر وہاں تو دھول اڑ رہی تھی اور سبھی پودے مرجھا چکے تھے۔وجہ یہ کہ علاقے میں تین ماہ سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ پھر وہاں کوئی نہر یا ندی بھی نہیں بہتی تھی۔کھیتوں کو ٹوبوں سے پانی دیا جاتا جو بارش کے دوران بھر جاتے تھے۔سوال یہ ہے کہ پھر 69 سالہ برازیلی کسان، پائلو گندم کے اپنے کھیت کو سرسبز و شاداب رکھنے میں کیسے کامیاب رہا؟

اس اہم سوال کا جواب گندم کے ایک نئی قسم کے بیج’’بی آر ایس 264 ‘‘(wheat strain BRS 264) میں پوشیدہ ہے۔اس بیج کی خاصیت یہ ہے کہ وہ گرم وخشک علاقے کی زمین میں بھی پھوٹ پڑتا اور عمدہ فصل دیتا ہے۔اسے پانی اور کھاد کی بھی کم ضرورت ہوتی ہے۔نئے بیج کی دوسری نمایاں خصوصیت یہ کہ وہ اگانے والے کو پیداوار بھی اچھی خاصی دیتا ہے۔

زرعی طاقت کا ماضی وحال

گندم کا یہ نیا اوراچھوتا بیج برازیل میں زراعت و مویشی پروری کے شعبوں میں تحقیق وتجربات کرنے والے سرکاری ادارے ’’ایمبراپا‘‘ Embrapa (برازیلین ایگری کلچر ریسرچ کارپوریشن) کا تخلیق کردہ ہے۔اس ادارے سے منسلک زرعی سائنس داں درحقیقت اپنی زبردست تحقیق کی بدولت اپنے دیس میں گندم کا انقلاب برپا کر رہے ہیں۔

یہ انقلاب ایک زیادہ بڑے زرعی انقلاب کا حصّہ ہے جو آج برازیل کو دنیا کی بہت بڑی زرعی طاقت بنا چکا۔گندم کا جنم لیتا یہ انقلاب خصوصاً ایسے فوائد رکھتا ہے جن سے دنیا کے اربوں انسان مستفید ہوں گے۔ایک دوسرے کی مدد کرنا انسانیت کا طرہ امتیاز ہے اور جو اسے دیگر حیوانیات سے ممتاز کرتا ہے۔

برازیل براعظم جنوبی امریکا کا بہ لحاظ آبادی ورقبہ سب سے بڑا ملک ہے۔ پچاس سال قبل اس کی آبادی دس کروڑ تھی۔مملکت میں دریاؤں کی کثرت ہے لہذا قابل کاشت رقبہ بھی کافی دستیاب ہے۔مگر تب بیشتر رقبے پہ کافی، گنے اور کوکا کی کاشت ہوتی۔یہ اشیائے خورونوش انسانوں کا پیٹ نہیں بھر سکتیں۔اسی لیے برازیل گندم، چاول، مکئی، دالیں وغیرہ بیرون ملکوں سے خریدتا تھا۔اس خریداری پر ملک کا کثیر زرمبادلہ خرچ ہو جاتا۔امریکا اور یورپ کے امیر ممالک برازیل کو غریب ملک قرار دے کر بہت سی اشیائے خور مفت بھی فراہم کرتے ۔

خودغرض سیاست داں بامقابلہ جرنیل

ماضی میں برازیل پُرتگال کی نوآبادی تھا۔1822 ء میں حریت پسندوں کی جدوجہد سے آزاد ہوا۔اس پہ طویل عرصہ جرنیل حکومت کرتے رہے۔پھر مملکت میں جمہوریت آ گئی۔رفتہ رفتہ سیاست دانوں کے مابین اقتدار حاصل کرنے کے لیے کشمکش شروع ہو گئی۔حکومت پانے کے لیے ناجائز حربے بھی جائز قرار پائے۔

سیاسی رہنماؤں کی باہمی لڑائیوں کی وجہ سے مگر ملک ترقی نہیں کر سکا۔جب عوام سیاست دانوں سے عاجز آ گئے تو1964ء میں فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔جرنیلوں کی کونسل نے سیاست دانوں کو حکومتی ایوانوں سے نکال باہر کیا اور خود حکومت کرنے لگے۔ عوام نے فوجی حکومت کا خیرمقدم کیا۔

فوجی کونسل نے ماہرین معاشیات کو یہ ذمے داری سونپی کہ وہ قومی معشیت کو ترقی کی راہ پہ گامزن کر دیں۔ماہرین نے محنت، تدبر اور جذبہ حب الوطنی کے تحت اپنی ذمے داری انجام دی۔ایک حکمت عملی تشکیل دے کر ملک بھر میں شاہرائیں، پل اور ریل پٹریاں بنائی گئیں تاکہ نقل وحمل کا جامع نظام بن سکے۔پھر اسٹیل ملز بنائیں اور مختلف اشیا تیار کرنے والے کارخانے کھولے گئے۔

ڈیم بھی بنے تاکہ صنعت وتجارت اور کاروبار کو بجلی مل سکے۔ایٹمی بجلی گھر بھی قائم ہوئے۔ان معاشی اقدامات کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ برازیل میں وسیع پیمانے پہ معاشی سرگرمیاں فروغ پانے لگیں۔ 1970ء سے 1980ء تک معاشی ترقی کی شرح ’’دس فیصد‘‘رہی جو اس زمانے کے لحاظ سے غیرمعمولی تھی۔اسی لیے فوجی حکومت کے زیر سایہ پلنے بڑھنے والی معیشت کا یہ دور ’’برازیلی کرشمہ‘‘( Brazilian Miracle )کہلاتا ہے۔

زرعی انقلاب کی ابتدا

اسی غیرمعمولی معاشی دور کے دوران اپریل 1973ء میں ’’ایمبراپا‘‘کی بنیاد رکھی گئی۔اس وقت جنرل ایلوگاراستازو کی حکومت تھی۔یہ نیا سرکاری ادارہ اس سوچ کے زیراثر تخلیق کیا گیا کہ ادارے سے منسلک ماہرین زراعت سائنس وٹکنالوجی کی مدد سے اشیائے خورونوش کی ایسی اقسام دریافت کریں جو برازیلی آب وہوا اور موسموں سے مطابقت رکھتی ہوں۔

گویا حکومت کی خواہش تھی کہ سائنس وٹکنالوجی کی مدد سے مملکت میں زرعی انقلاب آ جائے۔اس زمانے میں بیرون ممالک برازیلی جرنیلوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔غیرملکیوں کا خیال تھا کہ انھوں نے حکومت پہ زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ یہی بظاہر ولن اپنے ملک وقوم کے لیے مفید ودورس اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ان جرنیلوں کی سوچ وفکر یہ تھی کہ اپنے اقدامات سے آنے والی نسلوں کے واسطے سہولیات اور آسانیاں پیدا کر دی جائیں۔ وہ دوراندیش اور محب وطن تھے۔انھوں نے ذاتی فوائد کو ترجیح نہیں دی۔ چناں چہ ان کی تعمیری سرگرمیاں رنگ لا کر رہیں۔

ایمبراپا کے سائنس دانوں نے جلد تحقیق وتجربات کا آغاز کر دیا۔انھوں نے سب سے پہلے دنیا بھر سے مختلف اشیائے خورونوش کے بیج اور پودے منگوائے۔ان بیجوں وپودوں کو پیوند کاری اور ایسے دیگر تجربات سے گذارا گیا جن کی بدولت ایک غذا کی نئی اقسام جنم لیتی ہیں۔مقصد یہ تھا کہ نئی قسم کے بیج بنائے جا سکیں، ایسے جو برازیل کی آب وہوا اور موسموں میں پھل پھول سکیں۔

شعبہ مویشی پروری کے ماہرین نے بھی ایسے جانور تخلیق کرنے کی خاطر تجربات کیے جو برازیلی ماحول میں آسانی سے نشوونما پا لیں۔نیز وہ زیادہ دودھ دیں اور ان سے زیادہ گوشت بھی مل جائے۔ سبھی سائنس دانوں کی منزل یہ تھی کہ اپنے وطن کو غذاؤں کے معاملے میں خودکفیل بنا دیا جائے۔لہذا وہ دن رات اپنے کام میں مہنمک رہتے۔محنت وتوجہ سے اپنی ذمے داریاں نبھاتے۔

برازیلی سائنس دانوں کی مسلسل کوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔رفتہ رفتہ انھوں نے مطلوبہ غذاؤں کے ایسے نئے بیج تیار کر لیے جو مقامی آب وہوا اور موسموں سے مطابقت رکھتے تھے۔یہ بیج پھر وافر مقدار میں تیار کر کے کسانوں کو فراہم کیے گئے۔ اس طرح مطلوبہ غذاؤں کی پیداوار میں اضافہ ہونے لگا۔زراعت کے شعبے میں نئے لوگ بھی آ گئے جس کی بنا پہ یہ شعبہ ترقی کرنے لگا۔ایک طرف شعبہ زراعت میں ترقی وبہتری کا عمل شروع ہوا تو دوسری سمت شعبہ مویشی پروری میں بھی زوروشور سے تحقیق وتجربے جاری تھے۔اس شعبے کے ماہرین نے بھی ایسی گائیں تیار کر لیں جو نہ صرف زیادہ دودھ دیتیں بلکہ انھیں ذبح کرنے پر گوشت بھی زیادہ حاصل ہوتا۔یہ نئی قسم کے مویشی بھی برازیلی کسانوں کو فراہم کیے گئے تاکہ ان کی اولادیں پھل پھول سکیں۔

زراعت کا پاور ہاؤس

اس طرح سائنس وٹکنالوجی کی مدد و پشت پناہی سے برازیل میں زراعت ومویشی پروری کے شعبے بہ سرعت ترقی کرنے لگے۔ملک میں جو بیروزگار تھے، ان کی بڑی تعداد وسعت پاتے شعبوں سے وابستہ ہو گئی۔یوں سائنس دانوں کی محنت وسعی سے برازیلی زراعت میں انقلاب آ گیا۔وہ ملک جو چند عشروں قبل تک دیگر ملکوں سے غذائیں بطور تحفہ وصول کرتا تھا، اب بہت سی اشیائے خوراک برآمد کرنے کے قابل ہو گیا۔یہ ایک زبردست انقلاب تھا جو برازیلی ماہرین کی پیہم جستجو، جدوجہد اور مستقل مزاجی کی بدولت وجود میں آیا۔

آج برازیل گنے، سویابین، کافی، اورنج(مالٹے)، گوارنا(کیفین کا حامل ایک پودا)، اکائی (پام آئل درخت کی ایک قسم)اور برازیل نٹ کی پیداوار میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا۔مکئی، پپیتے، تمباکو،انناس، کیلے، کپاس، پھلیوں(بینز)، ناریل، تربوز اور لیموں کی پیداوار میں اس کا شمار پانچ بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔

چاول، جوار، کوکا، کاجو، ٹماٹر، مگر ناشپاتی، سنگترہ، جاپانی پھل، آم اور امرود کی پیداوار میں برازیل دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔اسی طرح انگور، سیب، خربوزے، ناشپاتی، انجیر، مونگ پھلی، پیاز ، پام آئل اور قدرتی ربڑ کی پیداوار میں اس کا شمار پندرہ بڑے ملکوں میں پوتا ہے۔

برازیل کی آج 36 فیصد برآمدات ہمہ اقسام کی غذائوں پہ پر مشتمل ہیں۔وہ ہر سال بیرون ملک مختلف اشیائے خورونوش بیچ کر ’’90 تا 95 ارب ڈالر‘‘ کماتا ہے۔ گویا اس تجارت کا حجم پاکستان کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہو چکا۔صورت حال سے واضح ہے، ایمبراپا کے سائنس دانوں اور حکومت کے کارپردازان کی کوشش وسعی سے نہ صرف برازیل میں وسیع پیمانے پہ غذائیں پیدا ہونے لگیں بلکہ وہ ملک وقوم کے لیے کمائی کا بڑا ذریعہ بھی بن گئیں۔لیکن ایک مسئلہ برقرار رہا…اور جس نے آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ سنگین رخ اختیار کر لیا۔

ایک مسئلہ برقرار رہا
مسئلہ یہ تھا کہ زراعت کی تمام تر ترقی کے باوجود برازیلی کسان ایسا اناج وسیع پیمانے پر نہیں اگا سکے جو بڑھتی آبادی کا پیٹ بھر سکے۔ملک میں چاول اور مکئی کی پیداوار بڑھ گئی تھی مگر ان اجناس سے ڈبل روٹی ، روٹی، پاستا وغیرہ نہیں بن سکتے جو بیشتر آبادی کا کھاجا تھا۔یہ اشیائے خور بہترین انداز میں گندم ہی سے بنتی ہیں۔یہی وجہ ہے، برازیل ہر سال لاکھوں ٹن گندم بیرون ممالک سے منگواتا رہا جس پر اچھا خاصا زرمبادلہ خرچ ہو جاتا۔

برازیل کی آبادی میں ہر سال اکیس بائیس لاکھ نفوس کا اضافہ ہوتا ہے۔اسی لیے گندم کی مانگ بڑھتی چلی گئی۔اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں آخر برازیلی حکومت نے سائنس دانوں کو یہ اہم ذمے داری سونپی کہ وہ گندم کے ایسے بیج تیار کریں جو برازیل کے طول وعرض میں اگ سکیں۔سرکاری ادارے،ایمبراپاکے زرعی ماہرین نے یہ نیا چیلنج بھی بہ رضاورغبت قبول کر لیا۔اب اس ادارے سے دو ہزار سائنس داں وابستہ تھے۔اور دنیا کے بڑے زرعی تحقیقی اداروں میں اُس کا شمار ہونے لگا تھا۔

یہ واضح رہے کہ دنیا کی پچھتر فیصد آبادی صرف تین اجناس…گندم، چاول اور مکئی سے اپنا پیٹ بھرتی ہے۔ان تینوں اجناس کو مختلف طریقوں سے پکایا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ ہم جسے گندم کا دانہ کہتے ہیں، وہ دراصل بیج ہے۔اسی بیج کو پیس کر آٹا، میدہ ، سوجی وغیرہ بنائی جاتی ہے۔ہر سال کروڑوں ایکڑ رقبے پر گندم بوئی جاتی ہے جو دراصل گھاس کی ایک قسم ہے۔اللہ تعالی کی مہربانی وفضل سے یہی گھاس اربوں انسانوں کا من بھاتا کھاجا بن چکی۔گندم کی پیداوار میں دس بڑے ممالک یہ ہیں:چین، بھارت، روس، امریکا، کینیڈا، فرانس، پاکستان، یوکرین، جرمنی اور ترکی۔

نئے بیج کی تیاری
ایمبراپا کے ماہرین کام پہ جت گئے۔انھوں نے چین سے لے کر پاکستان و ترکی تک، ان سبھی ملکوں سے گندم کے بیج منگوائے جہاں اس جنس کی پیداوار زیادہ تھی۔ وہ پھر تمام بیجوں کی خصوصیات کا مطالعہ کرنے لگے۔انھوں نے پھر مختلف بیجوں کی آمیزش سے نئے بیج تیار کیے۔برازیلی ماہرین درج ذیل تین خصویات رکھنے والا بیج تیار کرنا چاہتے تھے:

٭…جو کم پانی والے علاقے میں بھی اگ جائے
٭…جو زیادہ پیداوار دے سکے
٭…جو کم سے کم وقت میں اگ سکے

ماہرین نے ان خصوصیات کے حامل مختلف بیج تیار کیے۔شروع میں انھیں کامیابی نہیں ملی۔کوئی بیج خشک علاقے میں تو اگ جاتا مگر زیادہ پیداوار نہ دیتا۔کسی بیج میں دونوں خاصیتیں جنم لیتیں تو وہ اگنے میں سات آٹھ ماہ لگا دیتا۔آخر طویل تحقیق، تجربات اور محنت کے بعد ماہرین بی آر ایس 264 بیج ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

پائلو بوناٹو وسطی برازیل کا بڑا زمین دار ہے۔پچھلے سال ماہرین نے تجرباتی طور پہ چند بڑے زمین داروں کو بی آر ایس 264 بیج فراہم کیا جن میںپائلو شامل تھا۔اس نے 51 ہیکٹر رقبے پہ گندم کا یہ نیا بیج لگایا۔اس رقبے کی زمین خشک آب وہوا والے علاقے میں واقع تھی اور اسے ایک ٹوبے سے پانی فراہم کیا جاتا۔فصل 120 دن کی ریکارڈ مدت میں تیار ہو گئی۔

اس بیج نے پیداوار بھی زبردست دی …ہر ہیکٹر رقبے سے گندم کا نو ہزار کلو دانہ حاصل ہوا۔یوں پائولو نے براعظم جنوبی امریکا میں سب سے زیادہ فی ہیکٹر گندم اگانے کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔یاد رہے، فی ہیکٹر زیادہ گندم اگانے کا عالمی ریکارڈ نیوزی لینڈ کے کسان، ایرک واٹسن نے بنا رکھا ہے۔اس نے 2020ء میں اپنے فارم میں فی ہیکٹر17.398ٹن گندم کا دانہ اگایا تھا۔کلو گرام کے لحاظ سے یہ مقدار 15,780کلو بنتی ہے۔

گندم میں خودکفیل
پائلو بوناٹو کے کامیاب تجربے کو برازیل میں بہت شہرت ملی۔وجہ یہی کہ اب یہ امکان پیدا ہو گیا کہ برازیل کے وسیع علاقے میںنیا بیج لگا کر گندم زیادہ اگائی جا سکتی ہے۔ حتی کہ برازیلی صدر نے قوم کو یہ خوش خبری سنا دی کہ اگلے دس برس میں مملکت گندم کی پیداوار میں خودکفیل ہو جائے گی۔حکومت کو یہ مسّرت بھی تھی کہ گندم خریدنے پر جو زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے، وہ بھی بچ جائے گا۔فی الوقت برازیل میں ہر سال ایک کروڑ بائیس لاکھ ٹن گندم استعمال ہوتی ہے۔

یہ مقدار آنے والے برسوں میں ایک کروڑ چالیس لاکھ ٹن تک جا پہنچے گی۔جبکہ برازیلی کسان ابھی اسّی لاکھ ٹن گندم پیدا کر رہے ہیں۔برازیل میں اب سرکاری طور پہ یہ مہم چل پڑی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کسان بی آر ایس 264 بیج اپنے فارموں میں بو دیں۔ اندازہ ہے کہ اس بیج کی مدد سے کسانوں کو فی ہیکٹر چھ سے نو ہزار کلو گندم دانہ حاصل ہو گا۔برازیلی مکو یقین ہے کہ اگر یہ نیا بیج سبھی علاقوں میں کامیابی سے اگ گیا، تو وہ وقت قریب ہے جب برازیل گندم کی پیداوار میں خودکفیل ہو جائے گا بلکہ اسے برآمد کر کے غیرملکی زرمابدلہ بھی کمائے گا۔

پائلوبوناٹو کے کھیت میں تیزابیت خاصی زیادہ تھی۔لہذا اس نے زمین میں کھادیں ڈلوائیں،معدنیات وغیرہ بھی اور یوں اسے زرخیز بنا دیا۔پھر اپنے فارم کے نزدیک ایک ذخیرہ آب بنوایا جہاں بارش کا پانی جمع ہونے لگا۔کھیت کو اسی ذخیرے سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔وہ کھیتی باڑی کرتے ہوئے جدید آلات کا سہارا بھی لیتا ہے۔یہ آلات اسے بتاتے ہیں کہ پودوں کو پانی کی ضرورت ہے یا نہیں۔ کیڑے تو حملہ آور نہیں ہو گئے۔

درجہ حرارت کتنا ہے وغیرہ۔اپنی ان کوششوں سے پائلو نے اپنے فارم کو بہتر سے بہتر بنایا اور اسے محنت مشقت کا پھل بھی ملا۔فی ہیکٹر نو ہزار کلو گندم اگا کر وہ اچھی کمائی کر رہا ہے۔پھر اس کی فصل صرف چار ماہ میں تیار ہو جاتی ہے۔گویا وہ سال میں تین بار فصل اگا کر مالی فائدہ پاتاہے۔اس کی سعی وکوشش سے برازیلی شہریوں کو بھی فائدہ پہنچا کہ انھیں مقامی گندم میّسر آ گئی۔وہ دن قریب ہے جب پائلوجیسے محنتی و محب وطن کسانوں کی بدولت برازیل گندم جیسے اہم ترین اناج کی پیداوار میں خودکفیل ہو جائے گا۔وہاں پھر گندم وافر وسستی دستیاب ہو گی۔

یہ یاد رہے برازیل میں ابھی گندم کافی مہنگی ہے۔حتی کہ غریب آدمی اس سے بنی روٹی نہیں خرید سکتا۔مگر برازیلی حکومت نے اب چالیس لاکھ ہیکٹر رقبے پر نیا بیج لگانے کی تیاری کر لی ہے۔مقصد یہی ہے کہ مملکت گندم کی پیداوار میں خودکفیل ہو سکے۔ یہ وہاں جنم لینے والا ایک بڑا انقلاب ہے کیونکہ پانچ سے دس سال کے اندر برازیل میں گندم وافر مقدار میں پیدا ہونے سے سستی ہو جائے گی۔تب ایک غریب بھی گندم کی روٹی کھا سکے گا۔اور غریبوں کی ہر ممکن مدد کرنا ہی حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے۔

پاکستان کی افسوس ناک صورت حال
برازیل کی طرح پاکستان میں بھی گندم کی روٹی کروڑوں پاکستانیوں کا من بھاتا کھاجا ہے۔وہ روٹی کھا کر پیٹ بھرتے ،زندہ رہتے اور کام کاج کرنے کی توانائی پاتے ہیں۔افسوس ناک بات یہ کہ پاکستان میں حکومت اور کسان، دونوں نے گندم کی پیداوار بڑھانے کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔یہی وجہ ہے، کئی برس سے ہمارے ہاں ہر سال دو کروڑ پچیس تا اٹھائیس لاکھ ٹن گندم ہی پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ آبادی بڑھنے کی وجہ سے طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو تین کروڑ ٹن تک پہنچ چکی۔اس سال تو شدید سیلابوں کی وجہ سے گندم کی پیداوار کم ہونے کا امکان بھی ہے۔ اس امکان نے پاکستان میں غذائوں کی قلت ہونے اور بھوک بڑھنے کے خطرات جنم دے ڈالے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال 48 لاکھ انسانوں کا اضافہ ہو تا ہے۔ان میں سے بیشتر کا کھاجا گندم کی روٹی ہی ہے۔چونکہ گندم کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا لہذا پاکستانی حکومت ہر سال کروڑوں ڈالر خرچ کر کے گندم منگوانے لگی ہے۔یوں ملک کا کثیر زرمبادلہ صرف ہوتاہے۔اس کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتیں گندم کی پیداوار بڑھانے کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں اور نہ ٹھوس اقدامات کرتی ہیں۔جب بھی آٹے کا بحران جنم لے تو بیرون ممالک سے گدم منگوا لی جاتی ہے۔

یہ مگر عارضی بندوبست ہے جو طویل المیعادی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔نئے مقامی اور عالمی حالات میں یہ اشد ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔مثلاً حکومت اور کسان مل کر فی ہیکٹر پیداوار بڑھانے کی کوششیں کیں۔ابھی تو پاکستانی کسان فی ہیکٹر 2175کلو تا 2569 کلو گندم ہی اگا پاتے ہیں۔وطن عزیز میں مختلف زرعی ادارے پچاس ساٹھ سال سے فعال ہیں مگر ان سے منسلک سائنس داں گندم کے زیادہ پیداوار دینے والے بیج ہی تیار نہیں کر سکے۔تمام سرکاری محکموں کی طرح وہاں بھی یہی رواج ہے کہ دفتر آئے، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ، گپ شپ لگائی اور گھر چلے گئے۔ٹھوس کام بہت کم ہوتا ہے۔ٹھوس کام وہی شخصیات کرتی ہیں جنھیں اپنی ذمے داری کا کچھ احساس ہو اور جو ملک وقوم کی بہتری کا سوچتی ہوں۔

دنیا بھر میں حکومتیں کسانوں کی تعلیم وتربیت کے منصوبے شروع کرتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ زراعت کے ایسے جدید طریقے سیکھ سکیں جن سے کھیتوں میں پانی ، کھاد اور کیڑے مار ادویہ کم سے کم استعمال ہوں۔پیداوار بڑھ جائے اور مٹی کی زرخیزی برقرار رہے۔پاکستان میں ایسے منصوبے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

زراعت کے متفرق محکمے و ادارے زرعی لٹریچر چھاپ کر سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہو گیا۔ اب یہ زرعی لٹریچر ناخواندہ کسان کیسے پڑھے اور سمجھے گا، اس سے انھیں کوئی غرض نہیں۔ اس قسم کے خودغرضانہ رویّے کی وجہ سے پاکستان میں شعبہ زراعت ترقی نہیں کر سکا…حالانکہ اللہ تعالی نے ہمیں آب پاشی کا بہترین نظام بخش رکھا ہے۔ بارشیں بھی مناسب مقدار میں ہو جاتی ہیں۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ برازیل سے بی آر ایس 264 بیج منگوا کر مختلف علاقوں میں اگائے۔اس ضمن میں کسانوں کو ہر سہولت فراہم کرے۔جیسا کہ بتایا گیا، یہ بیج دو اہم خصوصیات رکھتا ہے۔اول یہ کہ کم پانی والے نیم صحرائی علاقوں می اگ جاتا ہے۔اور دوسری یہ کہ پیداوار زیادہ دیتا ہے۔اگر یہ بیج پاکستان میں فی ہیکٹر پیداوار چار ہزار کلو بھی کر دیتا ہے تو ہمیں تین کروڑ ٹن سے بھی زیادہ گندم حاصل ہو سکتی ہے۔یوں کم از کم ملکی ضروریات پوری ہوں گی۔

یاد رہے کہ ہمارے کسانوں کو ہر سال بارہ تیرہ لاکھ ٹن گندم کا دانہ بیجائی کی خاطر درکار ہوتا ہے۔پھر بدقسمتی سے پاکستانی حکومت گندم کی اسمگلنگ بھی نہیں روک پاتی۔ چناں چہ ہر سال کم ازکم دس لاکھ ٹن گندم اسمگل ہو کر افغانستان یا ایران چلی جاتی ہے۔مذید براں وطن عزیز میں ذخیرہ اندوزی بھی عام ہے۔یہ وتیرہ بھی مارکیٹ میں گندم کی قلت پیدا کر دیتا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ گندم کی اسمگلنگ و ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔

ہماری چاروں صوبائی حکومتیں کسانوں سے گندم خریدنے کے لیے ہر سال اربوں روپے مختص کرتی ہیں۔وہ زیادہ مہنگے داموں یہ گندم خریدتی ہیں۔عام طور پہ اس خریداری کی خاطر بینکوں سے قرضے لیے جاتے ہیں۔حکومتیں یہ گندم پھر فلور ملز کو فراہم کرتی اور انھیں مالی سبسڈی بھی دیتی ہیں تاکہ وہ عوام الناس کو سستا آٹا فراہم کر سکیں۔ دیکھا گیا ہے کہ اس سارے عمل سے عام آدمی کو تھوڑا عرصہ ہی آٹا سستا ملتا ہے۔ جلد ہی ذخیرہ اندوز گندم کی قلت پیدا کر دیتے ہیں۔تب گندم کے دلال، بینک، فلور ملز کے مالکان اور ذخیرہ اندوز ہی کمائی کرتے ہیں جبکہ عوام آٹے کی تلاش میں خوار ہوتے ہے۔

ایک حرکت یہ بھی ہوتی ہے کہ کئی دلال مقامی کسانوں سے سستی گندم خرید کر حکومت کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔یوں چھوٹے کسانوں کو سرکاری امدادی قیمت سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔جب گندم کی قلت ہو اور جو اکثر رہتی ہے تو ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔اسی لیے پوری دنیا میں گندم اور دیگر اشیائے خوراک بھی ’’منافع بخش جنس‘‘کی صورت اختیار کر چکیں۔اب ان کا وسیع پیمانے پہ کاروبار کیا جاتا اور انسانی زندگیوں کی پروا کیے بغیر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمانے کو ترجیع دی جاتی ہے۔

بھارت میںآٹا 31روپے کلو

بھارت میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے کسانوں سے گندم خریدتی ہیں۔ ان کا نظام خریداری پاکستانی حکوتوں سے کہیں بہتر ہے۔یہی وجہ ہے، بھارت میں فی الوقت ایک کلو گندم کی قیمت ’’31 روپے‘‘ہے۔جبکہ آٹا ’’36 روپے‘‘کلو میں مل رہا ہے۔جبکہ پاکستان میں کھلی مارکیٹ فی کلو گرام گندم کی قیمت ایک سو روپے سے اوپر ہو چکی۔جبکہ چکی کے آٹے کی قیمت بھی سو روپے سے بڑھ چکی۔اگر حکومتیں رعایتی قیمت پر ملز میں بنا آٹا فراہم نہ کریں تو اس کی قیمتوں کو بھی پر لگ جائیں۔

یہ واضح رہے کہ بھارتی روپیہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں طاقتور ہے۔ ایک بھارتی روپے کے بدلے تین پاکستانی روپے ملتے ہیں۔بھارتی روپیہ تگڑا ہونے کے باوجود بھارت میں گندم و آٹے کی قیمت کم ہے۔صرف اس لیے کہ وہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گندم سستی کرنے کا جامع و عمدہ نظام بنا رکھا ہے۔

بھارت کے حکمران طبقے میں کئی برائیاں ہوں گی مگر اس کی ایک خصوصیت قابل ذکر ہے… وہ عوام کی فلاح وبہبود کو اپنے ذاتی یا گروہی مفادات پہ مقدم رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے، جب بھی وہاں کسی غذا مثلاً گندم، آلو، ٹماٹر، پیاز، سبزی وغیرہ کی قلت ہو، تو اس کی برآمد پہ فوری پابندی لگ جاتی ہے۔مقصد یہ ہے کہ غذا زیادہ مہنگی نہ ہو اور عام آدمی کی پہنچ میں رہے۔

پاکستان میں الٹا حساب ہے۔جب کسی غذا کی قلت ہو تب بھی اس کی ایکسپورٹ جاری رہتی ہے۔پانی سر سے گذر جائے تو حکومت ہوش میں آکر غذا کی برآمد پہ پابندی لگاتی ہے۔تب بھی سرخ فیتے کے باعث فیصلہ مذید تاخیر سے ہوتا ہے۔عوام سے کٹ کر شان وشوکت کی زندگی جینے والا حکمران طبقہ عوامی مسائل سے انجان وبے خبر ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔