عرب اور ارب…

شیریں حیدر  ہفتہ 22 مارچ 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ سر جی… یہ عربوں کے ہمارے ملک میں آنے سے کیا فرق پڑے گا؟ ‘‘ گوگل نے صاحب سے سوال کیا تو میں نے فون پر نظر جما کر کھیلتے ہوئے … عینک کے پار سے آنکھ اٹھا کر اسے دیکھا۔

’’ کون سے عربوں کی بات کر کر رہے ہو برخوردار؟ ‘‘ صاحب نے اپنی تنہائی میں مخل ہونے والے کو گھورا۔

’’ سر وہ عرب جو پاکستان میں آ رہے ہیں…‘‘ گوگل نے اپنی معلومات اگلیں، ’’ میں نے ٹیلی وژن پر خبروں میں سنا ہے جی! ‘‘ ہم میاں بیوی کے ہر روز سویرے گھر سے نکلتے ہی وہ ہوتا ہے اور اس کا ٹیلی ویژن… اس کا نہیں، میرا مطلب ہے کہ جو ہم نے اس کے کوارٹر میں لگوا رکھا ہے، آج کل ملازمین کافی لاڈلے ہو گئے ہیں… پہلے ہم ملازم کا انٹر ویو کر کے فیصلہ کیا کرتے تھے کہ ہمیں وہ ملازم رکھنا ہے کہ نہیں او ر اب ملازم انٹر ویو کرتے ہیں۔

’’ گھر میں کتنے لوگ رہتے ہیں؟ ان میں سے کتنے لوگ دن بھر ملازموں کے سروں پر مسلط رہتے ہیں؟

کون کتنی روٹیاں کھاتا ہے؟ کون کون سا کام کروایا جائے گا اور اس کے کتنے پیسے علیحدہ سے دیے جائیں گے؟ ڈانٹ تو نہیں پڑے گی؟ مہینے میں ایک بار سینما جا کر فلم دیکھنے کی اجازت ہو گی؟

کتنی رقم کا ’’ ایزی لوڈ ‘‘ تنخواہ کے علاوہ ملے گا؟

کپڑا لتا، صابن سرف، شیمپو ٹوتھ پیسٹ ملے گا نا… کیونکہ آپ کے گھر میں رہنا ہے تو صفائی ستھرائی آپ پر ہی احسان ہو گی نا!!!

ہم گوگل سے اس انٹر ویو میں کامیاب ہو گئے تھے اور اس نے ہمیں منظور کر لیا تھا… یعنی اب گوگل ہمارے ہاں ملازم ہے… وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اس کا نام بھی بھول گیا ہے، گوگل کا نام ہم نے اسے اپنی سہولت کے لیے دیا تھا کیونکہ اس کا اپنا نام کافی عاشقانہ سا تھا… شاید دل ربا… یا دلبر!!

گوگل نے آتے ہی ہم سے معلومات جمع کرنا شروع کیں، ہر کام کے بارے میں وہ پہلے معلومات کا ذخیرہ اکٹھا کرتا اور پھر کام کرتا، اس کی اس ’’ معلوماتی عادت‘‘ کے باعث میں نے ایک بار صاحب سے کہا کہ کہیں وہ گوگل میں کام تو نہیں کرتا… یہیں سے وہ دلبر یا دلربا سے … گوگل بنا اور ایسا بنا کہ وہ خود بھی اس نام سے خوش ہوا، ہم سے دلبر یا دلربا کہلوا کر سے شاید زیادہ خوشی بھی نہ ہوتی تھی۔

’’ گوگل… ذرا میرا فون تو لے کر آنا میرے کمرے سے… ‘‘ گوگل کے لیے روٹی پکاتے ہوئے مجھے کوئی کام یاد آ گیا تو میں نے کہا… وہ بھاگ کر کمرے سے فون لایا۔

’’ زبردست فون ہے باجی… ٹچ ہے نا… آئی فون فائیو لگ رہا ہے… کتنے کا ہے؟ کہاں سے لیا ہے، مہرین باجی لائی ہیں کیا دبئی سے؟ وزن میں کیسا ہلکا ہے نا… کوئی پاس ورڈ لگا رکھا ہے آپ نے اس پر؟ ‘‘ کمرے سے باورچی خانے تک آتے آتے اس نے چھ سوال کر ڈالے تھے- میں نے خاموشی سے فون پکڑا اور اسے اس کی پکی ہوئی روٹی پکڑا کر کھانے کی درخواست کی- ’’ویسے اب روٹی پکانے کی مشین بھی آ گئی ہے باجی، وہ لے لیں آپ کا کام آسان ہو جائے گا…‘‘۔ ’’ کپڑے دھل گئے ہیں گوگل… میں مشین سے نکال دیتی ہوں، جا کر باہر تار پر پھیلا دو بیٹا! ‘‘ میں نے اسے پکارا۔’’ تار پر پھیلانے کی کیا ضرورت ہے… تقریباً سوکھے ہوئے ہی تو نکلتے ہیں اس مشین سے… آٹو میٹک مشین کا یہ فائدہ تو ہے نا۔ باجی مہوش نے ہی آپ کو مشورہ دیا ہو گا اس مشین کو خریدنے کا؟ اس سے بڑے سائز کی مشینیں بھی یقینا آتی ہوں گی جن میں کمبل اور بھاری کپڑے بھی دھل جاتے ہوں گے؟ قیمت جانے کیا ہو گی اس مشین کی؟ ‘‘ وہ مسلسل سوال کرتے ہوئے کپڑے لے کر باہر نکلا، اس کے سوال بسا اوقات خوفزدہ کر دیتے تھے۔

’’ گوگل میری گاڑی تو دھو دو، کافی گندی ہو گئی ہے… ‘‘ میں نے اس سے درخواست کی۔

’’ جی اچھا… ویسے گاڑی ہے اچھی آپ کی، چھوٹی سی، عورتوں کے لیے چھوٹی گاڑیاں ہی اچھی لگتی ہیں اور ان میں اتنا زور کہاں ہوتا ہے کہ بڑی بڑی گاڑیاں چلا سکیں… کتنے کی لی تھی آپ نے یہ گاڑی؟ اس سے تو اچھا تھا کہ آپ عبداللہ صاحب والی گاڑی نہ بیچتیں، وہ یقینا اس سے سستی تھی اور پٹرول کم ’’ پیتی‘‘ تھی ، ہفتے میں تین دن گیس پر بھی چلا لیتیں آپ؟ گیس کٹ ہے آپ کی اس گاڑی میں، میرا خیال ہے کہ نہیں… کتنے کا پٹرول لگ جاتا ہے آپ کا ایک مہینے میں… ویسے جاپانی گاڑیاں پٹرول پر اچھی ہیں… ‘‘ وہ گاڑی کی دھلائی کا سامان جمع کرتے کرتے کتنے ہی سوال جواب کر گیا تھا، ’’ ویسے آپ کے بھائی وقار صاحب کی گاڑی زبر دست ہے… میں نے ایسی گاڑی کبھی دیکھی نہیں ہے اس سے پہلے… ‘‘

’’ گوگل ذرا ٹیپو کو باہر دھوپ میں نکال دو… ‘‘ میں نے اسے اپنے طوطے کے لیے کہا۔

’’ یہ مصیبت جانے کیوں پال رکھی ہے آپ نے باجی… ‘‘ وہ حسب عادت شروع ہو گیا، ’’ اتنا مہنگا طوطا رکھا ہوا ہے آپ نے… اوپر سے اس کے نخرے ، پاکستان میں غریب بندے کو مونگ پھلی اور بادام کھانے کو نہیں ملتے مگر ٹیپو کو ضرور ملتے ہیں… ڈاکٹر ٹیپو کو دیکھنے کو ہر ماہ گھر آتا ہے، کبھی حساب کیا آپ نے کہ اس پر آپ کا ماہانہ کتنا خرچہ آتا ہے آپ کا؟ ‘‘ اس نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے۔

’’ اسے باہر نکال دو گوگل، اچھی دھوپ ہے… ‘‘ میں نے اس کے سوالات اور بیانات کو نظر انداز کیا۔

’’ ویسے باتیں اچھی بہت لگتی ہیں مجھے اس کی! راحم صاحب بھی خوش رہتے ہیں اس کے ساتھ ‘‘ پنجرہ باہر نکالتے ہوئے اس نے پینترہ بدلا۔

یہ تھا گوگل کا تعارف… اب چلیں اس کے سوال کی طرف جس نے ہم دونوں کو اپنی’’ انتہائی اہم‘‘ مصروفیات سے ہٹا دیا تھا۔’’ کون سے عربوں کی بات کر رہے ہو یار، مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا… نہ ہی میں نے ایسی کوئی بات سنی ہے ٹیلی ویژن پر…‘‘

’’ میں نے خود سنا ہے سر… ‘‘ اس نے زور دیا، ’’ آپ تو یوں بھی خبریں کم ہی سنتے ہیں… گانے زیادہ ’’ دیکھتے‘‘ ہیں !‘‘ اس نے صاحب پر چوٹ کی، اسے اب فضول باتیں کرنے کی عادت ہو گئی تھی حالانکہ ہم دونوں ہی ٹیلی ویژن دیکھنے کے ایسے شوقین نہیں اور نہ ہی اتنا وقت ہوتا ہے۔

’’ وہ کہہ رہے تھے کہ جانے کتنے عرب آ رہے ہیں، بلیاں اور ڈالر لے کر… ‘‘ اس کا کہنا تھا کہ میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئی، وہ حیرت سے اور صاحب غصے سے مجھے گھور رہے تھے۔

’’ کیا ہو گیا ہے؟‘‘ صاحب کے غصے کو زبان ملی…

’’  He’s talking about the aid by Saudia, 1.5 billion dollars ‘‘ میں نے گوگل کی بات کو صاحب کے لیے آسان الفاظ میں پیش کیا۔

’’ آپ کو کیسے علم ہوا؟‘‘ میرے فہم کے بارے میں ہمیشہ سے مشکوک صاحب نے سوال کیا۔

’’ اس لیے کہ گوگل کی باتیں میں اب کچھ کچھ سمجھنے لگی ہوں … ‘‘ میں نے ہنسی کو روک کر کہا، ’’ آپ ذرا اس کی معلومات میں اضافہ کر دیں… ‘‘

’’ یار گوگل تمہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ اس خبر کا مطلب کیا ہے… ‘‘ صاحب نے اس کے سامنے وضاحت کی، ’’ عرب وہ عرب نہیں… بلین ہیں… یعنی!!‘‘ صاحب نے اسے سو، ہزار، لاکھ ، ملین اور بلین کا فارمولا سمجھایا، بلین جسے وہ بلیا ں سمجھا تھا اور ارب جنھیں وہ عرب سمجھا تھا… ‘‘ اسے تفصیل بتا رہے تھے تو اس کا منہ حیرت سے کھلتا جا رہا تھا۔

’’ کتنی بڑی رقم بن جاتی ہو گی یہ روپوں میں سر… مجھے مل جائے تو میں تو بادشاہ بن جاؤں… کتنے ہزاروں لوگوں کے مسائل حل ہو جائیں … اس رقم سے ہم ملک کے کتنے قرضے لوٹا سکتے ہیں… لیکن سر کوئی اتنی بڑی رقم کسی کو یوں تحفے میں دیتا ہے بھلا؟ کیا اس ملک کے مسائل یوں بھیک مانگ مانگ کر ہی حل ہوں گے؟ کیا حکمران یہ رقم اس ملک پر خرچ کریں گے یا اپنے ہی مسائل حل کریں گے؟ اس تحفے کے بدلے میں اگر سعودی عرب پاکستان سے کچھ ایسا مانگ لے جو ہماری غیرت کے خلاف ہو تو؟ ‘‘

’’ گوگل… جاؤ جا کر سو جاؤ بیٹا… رات بہت ہو گئی ہے، خواہ مخواہ اپنے ننھے سے دماغ کو نہ تھکاؤ… صبح سویرے اٹھنا ہوتا ہے… ‘‘ میں نے اسے ٹالا… اس سے قبل میں اس لیے خاموش رہتی تھی کہ اس کے سوالات کے جوابات سے میں یہ نہ بتانا چاہتی تھی کہ ہمارے پا س کون سی چیز کس مالیت کی ہے … ایک تو یہ کہ اسے احساس کمتری نہ ہو اور دوسرے یہ کہ اسے کسی چیز کو چرانے کی رغبت نہ ہو… مگر اس وقت میں نے اس کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ میرے پاس اس کے سوال کا جواب تھا ہی نہیں…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔