- موتی کاری سے نادر اشیا بنانے کا قدیم فن زندہ رکھنے والی باہمت خاتون
- آسٹریلیا کے سفیر کی رکشے میں بیٹھ کر راولپنڈی کی سیر
- وزارت تجارت نے اسرائیل سے تجارت کی تردید کردی
- لاہور: مبینہ پولیس مقابلے میں 2 زیر حراست ڈاکو ہلاک
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سےمتعلق وزارت خزانہ کی اہم وضاحت
- امریکا میں عمران خان کے دوبارہ وزیراعظم بننے کی باتیں ہورہی ہیں، پرویز الہیٰ
- عمران خان کی زمان پارک کے باہر کارکنوں کے ساتھ افطار کرنے کی ویڈیو سامنے آگئی
- انسانی جسم سے متعلق حیرت انگیز حقائق
- سپریم کورٹ کے تین ججز کیخلاف ریفرنس خارج از امکان نہیں ہے، وزیر داخلہ
- سعودی عرب نے شہریوں کو دو افریقی ممالک کا سفر کرنے سے روک دیا
- کراچی: موبائل چھیننے اور IMEI نمبر تبدیل کرنے کے ماہر 4 ملزمان گرفتار
- پی ڈی ایم کا تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد، کارروائی کے بائیکاٹ کا فیصلہ
- پاکستان عوامی تحریک کا انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا فیصلہ
- پی ڈی ایم کے اجلاسوں اور اعلامیوں کی کوئی حیثیت نہیں، تحریک انصاف
- اسرائیل کی ریاستی رہشتگردی جاری، ایک اور فلسطینی نوجوان شہید
- ڈیفنس کراچی کو بارش کے پانی سے بچانے کے مشن کا پہلا مرحلہ مکمل
- سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو 10 ماہ قید کے بعد پٹیالا جیل سے رہا
- نوے دن میں الیکشن آئینی ہیں تو مشرف دور میں 3 سال کیوں ملتوی ہوئے؟ فضل الرحمان
- ہائی بلڈ پریشر اور ڈیمنشیا کے درمیان تعلق کا انکشاف
- سام سنگ کا نیا حربہ، آئی فون کے لیے ’ٹرائی گیلکسی‘ ایپ پیش کردی
پانی میں گھل کر غائب ہونے والی ’کاغذی بیٹری‘

اپسالا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دو قطرے پانی سے چلنے والی چھوٹی کاغذی بیٹری تیار کی ہے۔ فوٹو: اپسالا یونیورسٹی
سویڈن: دنیا بھر میں ایسے آلات کی تعداد بڑھ رہی ہے جو کم وقت یا ایک مرتبہ استعمال ہوتے ہیں اور اب ان کے لیے ازخود گھل کر ختم ہونے والی ماحول دوست کاغذی بیٹری تیار کرلی گئی ہے۔ اس سےماحول پر بیٹریوں کے منفی اثرات اور زہریلے کیمیائی اجزا کم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
اس سے کم بجلی خرچ کرنے والے سینسر، اسمارٹ لیبل والی اشیا، ٹریکنگ اور طبی آلات اور دیگر برقی پرزوں کو توانائی فراہم کی جاسکے گی۔ یوں کاغذی بیٹری پانی سے روبہ عمل ہوگی اور خاص وقت میں گھل کر ختم ہوجائے گی۔
سویڈن کی مشہور اپسالا یونیورسٹی کے سائنسداں پروفیسرگستاف نائسٹروئم اور ان کے ساتھیوں کی بیٹری میں ایک مربع سینٹی میٹر پر ایک سیل لگایا ہے۔ اس پر کاغذ پر چھاپی گئی تین روشنائیوں (انک) سے سرکٹ کاڑھا گیا ہے۔ کاغذی پٹی کو سوڈیئم کلورائیڈ میں ڈبویا گیا اور اس کے چھوٹے سروں میں سے ایک کو خاص موم میں ڈبویا گیا ہے۔
روشنائی میں گریفائٹ کا چورا لگایا گیا ہے جو بیٹری کے مثبت برقیرے یا کیتھوڈ کی تشکیل کرتے ہیں۔ دوسری قسم کی انک میں زنک کا سفوف ہے جو بیٹری کا اینوڈ یا منفی سرا بناتا ہے۔
کاغذ کے دونوں جانب سیاہ کاربن لگایا گیا ہے جو مثبت اور منفی برقیروں کے عمل کو ممکن بناتا ہے۔ جب اس کاغذ پر پانی کی معمولی مقدار ڈالی جاتی ہے تو کاغذی بیٹری سے چارج جاری ہونے لگتا ہے اور بیٹری کام کرنے لگتی ہے۔ پھر برقیروں کو کسی بھی آلے سے جوڑ کر اسے بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔
عملی مظاہرے کے طور پر ماہرین نے اس سے لیکویڈ کرسٹل ڈسپلے اور ایک چھوٹی الارم گھڑی چلا کر دکھائی ہے۔ پانی کے دو مزید قطرے گرانے سے بیٹری اور بہتر ہوگئی اور مزید 20 سیکنڈ تک کام کرتی رہی۔ اس دوران بیٹری سے ایک اعشاریہ دو وولٹ کی ہموار بجلی خارج ہوتی رہی۔ جبکہ ایک عام سیل 1.5 وولٹ بجلی فراہم کرتا ہے۔ لیکن جب جب کاغذی بیٹری کی بجلی کم ہوئی اس پر مزید پانی ڈالا گیا اور ایک گھنٹے تک بھی بجلی ملتی رہی۔
استعمال کے بعد کاغذی بیٹری ازخود گھل کر ختم ہوجاتی ہے۔
.
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔