پاکستان کو درپیش خطرات اور سول ملٹری ہم آہنگی!

فوج اور منتخب حکومتوں میں باہمی تعاون کے باعث ملک کئی بار مشکل حالات سے نکل چکا۔ فوٹو؛ فائل

فوج اور منتخب حکومتوں میں باہمی تعاون کے باعث ملک کئی بار مشکل حالات سے نکل چکا۔ فوٹو؛ فائل

نومبر کی آمد آمد ہے، لہٰذا اگلے آرمی چیف کے حوالے سے گفتگو اور اندازوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ذرایع اِبلاغ پر متوقع طور پر نئے آرمی چیف کے حوالے سے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ ملک کے سپاہ سالار کی ذمہ داریاں کس کو تفویض کی جائیں گی۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ذرایع اِبلاغ اور ملک کی سیاسی اشرافیہ ملک میں جاری سیلاب کی بدترین صورت حال اور اس کے بعد کے مسائل سے نبردآزما ہے۔

اس غیرمتوقع طور پر پیدا ہونے والے انسانی المیے پر دنیا ششدر ہے اور بھرپور ہمدردی کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل Antonio Guterres کہتے ہیں کہ موسمیاتی تغیر قتل عام کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین کی سفیر انجلینا جولی بھی کہتی ہیں کہ ایسی سیلابی صورت حال انھوں نے بھی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ سیلاب نے ملک کی کم زور معیشت کو بھی دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بھی دوچار کیا ہے، آئی ایم ایف کی امداد اور شرائط کے ساتھ ان کے اس ملک کے معاشی نظام پر اعتماد بحال کرنے میں ناکام ہے۔ ذرایع توانائی کی گرانی اور مہنگائی جو اگست 2022ء میں 27 فی صد ریکارڈ کی گئی، جس نے متوسط اور کم آمدن والے طبقے کا گلا گھونٹ دیا ہے۔

سیلابی صورت حال کے تخمینوں کے مطابق اس نقصان کا حجم 30 بلین ڈالر ہے، جس سے معاشی بہتری کی مدھم سے امید مزید موہوم ہوجاتی ہے، جس میں تلخ سیاسی پولرائزیشن مزید تباہی کا راستہ بنا رہی ہے، جب کہ سیلاب کے باعث لاکھوں لوگوں کے بے گھر ہونے کے باعث بھی سیاست دانوں کے اس رویے میں تبدیلی نہیں آرہی، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے میں تبدیلی کرتے ہوئے انسانی المیے کو ترجیح دیں۔ اس کے ساتھ چوبیس گھنٹے چلنے والے خبری چینلوں کو بھی اس انسانی المیے اور سیلاب کی تباہ کاریوں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے سیاسی سرکس میں پارلیمان کو بے کار اور جمہوریت کو بے معنی بنا دیا گیا ہے، جس سے ہماری نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہے۔ ہم پہلے بھی ایسے کٹھن مراحل سے نبردآزما رہے ہیں اور مشکل حالات کو شکست دے کر آگے بڑھے ہیں، اس قوم نے ایسے کئی طوفانوں کا سامنا کیا ہے۔

تاریخ میں آنے والے بحرانوں میں مختلف فوجی اور جمہوری ادوار میں ایک چیز تواتر کے ساتھ سامنے آتی رہی کہ ایسی ’آفات کی صورت حال میں ریاست کی بحالی کا کام بہتر طریقے سے کام نہیں کرسکا، اگرچہ ہمیں ایک ’کنٹرولڈ جمہوریت‘ ملی، جو اسٹیبلشمنٹ کی امداد اور راہ نمائی کے سہارے رہی۔

ہمارے سیاست دانوں نے بھی اپنے کاموں کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیا ہے اور ان کی آشیرباد میں رہیں تو ٹھیک رہتے ہیں اور اگر صورت حال بدلے تو وہ اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی جانب کردیتے ہیں اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بس یہی کچھ پاکستانی سیاست کا مخمصہ ہے۔

ان تلخ اور ترش تعلقات کے باوجود ہم نے پاکستان کو بڑے چیلینجوں سے نسبتاً آسانی سے نمٹتے ہوئے دیکھا ہے، جب سول اور ملٹری قیادت ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں اور اسی سے 2005ء کے زلزلے اور 2010 اور 2022 کے سیلاب جیسی قدرتی آفات سے کام یابی سے نمٹنا، ’کورونا‘ کی وبا میں حفاظتی انتظام کرنا، ٹڈی دل کے حملے سے لڑنا، دہشت گردی کا خاتمہ، CPEC نافذ کرنا اور بین الاقوامی سطح پر کام یابی حاصل کرنا ممکن ہوا۔ اب (ضروری ہے کہ) FATF گرے لسٹنگ سے درپیش چیلینج، اور ملٹی بلین ڈالر کے ریکوڈک وغیرہ جرمانے سے بچیں۔

موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ اس سال کے آخر میں اپنی توسیعی مدت پوری ہونے کے بعد سبک دوش ہوجائیں گے۔ ان تمام سالوں کے دوران، فوج نے ’تحریک انصاف‘ کی پچھلی حکومت کو غیرمتزلزل حمایت فراہم کی، جس سے اسے متعدد سیاسی، اقتصادی، سیکیوریٹی اور سفارتی چیلنجوں سے نکلنے میں مدد ملی، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جس لمحے عمران خان شدید مخالف اپوزیشن اتحاد کے دباؤ میں آ گئے، ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ایک مذموم مہم چلائی۔

ایک علامتی رشتہ:

خان کی حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے معید یوسف اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ فوج جو کچھ بھی سویلین حکومت میں کرتی ہے اس کے ساتھ ہم آہنگی رکھتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’اپنے ڈھائی سال میں، میں نے سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان ہم وار اور فعال ہم آہنگی اور تعاون دیکھا۔ میرے نقطۂ نظر سے، پالیسی کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا، جہاں مجھے کوئی مسئلہ تھا۔ یہ ایک باہمی تعاون کی جگہ تھی، جس میں ہم نے کام کیا۔ اور میں اس پختہ یقین کے ساتھ چلا گیا کہ پاکستان کے تناظر میں، سول ملٹری تعاون درحقیقت ایک بہت بڑا مثبت ہے۔‘‘

ماہرقانون اور سیاسی تجزیہ کار سعد رسول اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کو ایک علامتی سول ملٹری تعلقات کی ضرورت ہے۔ سعد رسول کہتے ہیں، ’’اس طرح کے چیلینجز کا سامنا کرنے کے لیے فوج کی حمایت اور ریاست کے سویلین اور فوجی ہتھیاروں کے درمیان ہم آہنگی کے بغیر ہمارے ادارے مغلوب ہوچکے ہوتے۔‘‘ وہ کہتے ہیں ’’جب سول ملٹری ہم آہنگی موجود ہو تو ہماری قوم خوش حال اور بہتر کام کر رہی ہوتی ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ پاکستان کے مارشل لا کے دور میں ایگزیکٹیو کی کارکردگی بہتر رہی۔

پاکستان اس حوالے سے تنہا نہیں ہے، دیگر ممالک میں بھی ایسی بہت سی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں، جہاں بڑے چیلینجوں سے نمٹنے کے لیے سول اور ملٹری اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکا میں، سول بیوروکریسی کے پاس اپنے اختیار میں بہت سارے وسائل اور تجربہ ہے، پھر بھی سمندری طوفان جیسے سنگین ہنگامی حالات میں، امریکی سول حکام کو اپنے فوجی ہم منصبوں جیسے نیشنل گارڈ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح، ہندوستان میں بعض چیلینجوں اور اقدامات پر سویلین حکام کی مدد کے لیے فوج کو بلایا جاتا ہے۔

سعد رسول کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سول ملٹری تنازع کو قوانین متعارف کروا کر اور ایک ایسا نظام تشکیل دے کر حل کیا جا سکتا ہے، جہاں دونوں بازوؤں میں ایک علامتی تعلق ہو۔ ’’اس طرح کے افعال کے نسخے ہمارے آئین میں اس طرح بیان کیے جانے چاہییں کہ اس حقیقت کو عام کیا جائے۔ اس میں قانونی دفعات ہونی چاہییں جو مناسب نگرانی کے طریقہ کار کے ساتھ ضرورت پڑنے پر فوجی مدد کی اجازت دیں۔

معید یوسف کہتے ہیں کہ ہم اس مقام پر نہیں ہیں جہاں ہمارے پاس محنت کی کلاسیکی تقسیم ہو اور قانون اور آئین کی حدود میں ہو، میرے خیال میں، وہ ایک دوسرے کو جو بھی مدد فراہم کر سکتے ہیں وہ پاکستان کے لیے اچھا ہے۔‘‘

دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی پر قابو پانا:

پاکستان کے گذشتہ دو دہائیوں کے تجربے پر اگر کوئی حاوی ہے، تو وہ دہشت گردی کے خلاف ملک کی طویل اور خوں ریز جدوجہد ہے، جو امریکا کے علاقائی اثرات سے نکلی ہے، جسے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 2002ء سے 2022ء کے درمیان ملک میں تشدد کے 15,000 سے زیادہ واقعات میں 28,000 سے زیادہ شہری اور سیکیوریٹی فورسز کی ہلاکتیں ہوئیں۔

2014 کے آپریشن ضرب عضب کے دوران حاصل ہونے والی کام یابیوں کے بعد، پاکستان کی سیکیوریٹی فورسز نے 2017ء میں آپریشن ’ردالفساد‘ شروع کیا اور ملک کے طول و عرض میں 300,000 سے زیادہ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز (IBOs) کیے۔ انسدادِدہشت گردی کی سابقہ کارروائیوں کے برعکس، جن میں مخصوص جغرافیائی مقامات پر ایک مخصوص وقت کے لیے نظر آنے والے دشمن کو نشانہ بنایا جاتا تھا، ردالفساد کا مقصد عسکریت پسندوں کے ’سلیپر سیلز‘ اور سہولت کاروں کو جہاں بھی پایا جاتا تھا، ختم کرنا تھا۔

پاکستان کی مغربی سرحدوں پر سیکیوریٹی کی صورت حال ناقص تھی اور کائینیٹک اور نان کائینیٹک آپریشنز میں ملک کا تقریباً 48,000 مربع کلومیٹر علاقہ جہاں دہشت گردوں موجود تھے، آزاد ہوا۔ یہ آپریشن دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں فلاح و بہبود کے کئی اقدامات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، ان میں سے اکثر علاقے اس وقت ’’نو گو ایریا‘‘ کے طور پر مشہور تھے۔ سرحد پار دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے پاکستانی فوج نے افغان سرحد کے ساتھ2,611 کلومیٹر طویل باڑ اور ایران کی سرحد کے ساتھ 909 کلومیٹر باڑ کی تعمیر کا قدم بھی اٹھایا۔

داخلی سلامتی کے محاذ پر پیش رفت پر سابق این ایس اے معید یوسف نے اسے پاکستان کی بڑی کام یابیوں میں سے ایک قرار دیا۔ ’’جب دہشت گردی کو ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جارہا تھا اور پاکستان میں اس حوالے سے خدشات اور دھمکیاں بھی تھیں، تو اس پر قابو پایا گیا، خواہ وہ کوئی مقامی ہوں یا کسی بھی بلوچ عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے ہوں یا ٹی ٹی پی یا کچھ دوسرے لوگوں کی طرف سے ۔ ’’ میرے خیال میں یہ یقینی طور پر کام یابی کی بڑی کہانیوں میں سے ایک ہے۔‘‘ انھوں نے کہا،’’ان میں سے سب تو نہیں، اکثر جو خطرہ ہیں، پاکستان سے باہر مقیم ہیں، اور اس لحاظ سے ان کو بیرونی حمایت حاصل ہے۔‘‘

سماجی پالیسی کے تجزیہ کار عابد قیوم سلہری داخلی سلامتی کے محاذ پر پاکستان کی کام یابی کو ملک کے وسیع تر معاشی استحکام سے جوڑ تے ہیں۔ وہ پُرزورانداز میں کہتے ہیں کہ ’’ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر پاکستان کبھی بھی ترقی کی راہ پر گام زن نہیں ہو سکتا۔‘‘ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں حال یہ تھا کہ لوگ خوف کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلتے تھے کہ کبھی بھی دھماکوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ امن نے ہمیں معیشت کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا ہے اور اس استحکام کی بدولت سرمایہ کاریہاں آ رہے ہیں۔‘‘ ان کا م مزید کہنا تھا کہ سول ملٹری ہم آہنگی کے بغیر یہ امن ممکن نہیں تھا۔

تاہم، یوسف نے خبردار کیا کہ اس طرف سے مطمئن ہوجانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ’’ہمیں ابھی بھی ان بنیادی مسائل پر کام کرنا ہے جن کا نیشنل ایکشن پلان میں تصور کیا گیا تھا، ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لحاظ سے، اس بات کو یقینی بنانے کے لحاظ سے کہ ایسی کوئی فیکٹریاں نہ ہوں جہاں بنیاد پرستی کو پروان چڑھایا جا سکے، ہتھیاروں تک رسائی، دہشت گردی کی مالی معاونت (جیسے مسائل پر) ہم نے نیک نیتی سے بہت اچھا کام کیا اور اس پر ایف اے ٹی ایف کا شکریہ ۔ لیکن اس پورے کثیرجہتی اور جامع نقطہ نظر کے باوجود ہم خاص معاملات سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکتے، کیوںکہ خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یوسف نے کہا کہ ’’یہ بات چیت موقع کی مناسبت سے ہوئی ہے۔ تاہم جب پاکستان کے آئین کو برقرار رکھنا ہے تو ریاست کو سُرخ لکیر کو بہت واضح کرنا ہوگا ۔ ایک ریاست کے اندر کوئی ریاست نہیں ہوگی۔ ہم کسی گروہ کو دوبارہ ریاست کے خلاف (لڑنے کی) ہمت کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، لہٰذا یہ چیلنج جاری رہے گا۔‘‘

قومی سلامتی کی پالیسی:

داخلی سلامتی کے ضمن میں وسیع تر علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کے اقتصادی مستقبل، روابط، داخلی اور خارجی سلامتی کو مستحکم کرنے کا خاکہ پیش کرنے کے لیے، اس سال کے آغاز میں ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی سامنے لائی گئی۔

سابق این ایس اے معید یوسف، جو پالیسی کی تشکیل میں شامل اہم شخصیات میں سے ایک تھے، انہوں نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے زور دیا کہ ایسی دستاویز ’’پاکستانی تناظر میں سول ملٹری اتفاق رائے کے بغیر بے کار ہے۔‘‘

’’سول ملٹری اتفاق رائے کے بغیر، اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اس دستاویز کو حتمی شکل، اس کی تیاری، رسمی شکل اور منظوری دی گئی۔ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں ریکارڈ پر رہے کہ اسے سو فی صد سول اور فوجی حمایت حاصل تھی۔‘‘

یوسف کے مطابق جس طرح یہ پالیسی بنائی گئی ہے، ممکن نہیں کہ کوئی حکومت یا قیادت اس سے الگ رہ سکے۔ ‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’ میرے خیال میں یہ قومی اتفاق رائے کی عکاسی کرتا ہے، جب تک کہ کسی قسم کا سیاسی اختلاف اور ایسی بات نہ ہو کہ سب مثبت نہ رہے۔‘‘ انہوں نے پاکستان کے موجودہ نظام کو ناپختہ اور اس میں کمی کو ایک مسئلے کے طور پر بیان کیا،’’ہمارا ارتقائی عمل سے محروم نظام اس میں بہتر پیش رفت کو روکتا ہے۔ ہم اس بات کا ادراک کرتے ہوئے پیش رفت کو جاری رکھنے کے قابل نہیں ہوسکے ہیں کہ وہ مثبت مراحل کیا ہیں جن پر سب اتفاق کرتے ہوں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ایک نظام میں رہتے ہوئے ہم کسی اور کو کریڈٹ ملنے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ یوسف نے زور دیا کہ این ایس پی جیسے بڑے فیصلوں، دستاویزات اور پالیسیوں کو ریاستی سطح پر اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ عمل مسلسل ہوگا کیوں کہ این ایس پی کے نتائج سال، دو سال، تین سال، پانچ سال میں ظاہر نہیں ہوں گے۔ یہ پندرہ بیس سال کا عمل ہے۔

انہوں نے ملک کے مختلف پالیسی ساز وں، تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم کوئی ایسا راستہ تلاش کریں جہاں کچھ کام سیاست سے بالاتر ہوکر کیے جائیں اور اگر انہیں مثبت سمجھا جاتا ہے تو ان کو جاری رکھنا ہوگا، خواہ عہدہ کسی کے پاس بھی ہو۔

جیو اکنامکس کا محور:

پچھلے سال آرمی چیف اور سنیئر پاکستانی حکام نے پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ایک وژن پر مشتمل خاکہ پیش کیا تھا جس میں ملک کی جیو اسٹریٹجک اہمیت سے ہٹ کر جیو اکنامکس اور علاقائی انضمام پر زور دیا گیا تھا۔ اس خیال کو این ایس پی اور ملک کے لیے وسیع تر سیکیوریٹی کی بات چیت میں بھی شامل کیا گیا تھا۔

اس موضوع پر معید یوسف نے کہا کہ عسکری قیادت نے از سر نو سمت کے تعین پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، اس حوالے سے سمجھنے میں کچھ کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ ایک اصطلاح ہے جو سرد جنگ کے اختتام پر سامنے آئی اور مفہوم کے اعتبار سے مختلف تھی۔‘‘

یوسف نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سادہ الفاظ میں جیو اکنامکس اور جیواسٹریٹجی ایک ہی بات ہے، یعنی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ’’ہم اس میں تبدیلی یا ادغام نہیں کر رہے یا کسی کو نکال نہیں رہے ہیں۔ یہ وہ نقطۂ نظر ہے جس میں روایتی سیکیوریٹی نہیں معیشت کو مرکزیت حاصل ہوگی۔‘‘

سابق مشیر سلامتی اُمور کے مطابق،’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ روایتی سلامتی کو کم زور کررہے ہیں یا اپنے پڑوس کے چیلنجز سے غافل ہیں۔‘‘ ایسا نہیں کہ آپ مخالفین کے ساتھ وہی سلوک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، یہ بات بالکل بھی نہیں ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ آپ اپنی اقتصادی سلامتی اور اس کی تعمیر پر توجہ دے کر روایتی حفاظتی انداز کے بجائے تمام روایتی حفاظتی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر پورا کرتے ہیں اور پھر اقتصادی سلامتی اور معاشی پہلوؤں کو سوچنے کے بعد سوچتے ہیں۔‘‘

میں ایک مثال دیتا ہوں کہ اگر پاکستان افغانستان بین الاقوامی سرحد پر سیکیوریٹی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے، تو کیا آپ گھٹنے ٹیک کر سرحد کو بند کر دیتے ہیں؟ یا کیا آپ سب سے پہلے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ تجارت، تجارتی مصروفیات کی سہولت جاری رہے گی یا اسے کسی طرح نقصان نہیں پہنچے گا جب کہ آپ سیکیورٹی کے مسئلے کا بھی خیال رکھتے ہیں؟

امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے ملک کی جغرافیائی اقتصادی کی بحالی کی مزید وضاحت کے ساتھ یوسف نے ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ بات چیت میں کہا،’’ہم اپنی قومی سلامتی کی پالیسی میں روابط اور جیو اکنامکس کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن اپنے پڑوس کو دیکھیں۔ میں دنیا میں کسی ایسے ملک کو نہیں جانتا جس میں دو مغربی لوگ عالمی سطح پر الگ تھلگ اور تسلیم شدہ ہوں، اور ادھر ایک مشرقی پڑوسی جس سے ہماری بات چیت نہ ہو۔ ہمارا تو صرف چین کے ساتھ رابطہ ہے۔‘‘

’’لہٰذا جب آپ افغانستان کی بات کرتے ہیں، تو ہم ایسا ملک نہیں چاہتے جو دنیا سے الگ تھلگ اور منظورشدہ ہو۔ یہ ہمارے قومی مفاد میں ہے کہ ایک مستحکم ہمسایہ ہو کیوںکہ ہمارے رابطوں کا ایک اہم مرکز وسطی ایشیا اور یوریشیا تک ہے۔‘‘ یوسف نے مزید کہا،’’اگر افغانستان معاشی طور پر مستحکم نہیں ہے، تو بات یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر ایک اور ہجرت کا خطرہ بھی ہے۔ اگر اسے اپنی سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔‘‘

افغانستان سے امریکی انخلاء کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق مشیرسلامی امور نے کہا کہ پاکستان نے یہ معاملہ منصفافہ طور پر سلجھا لیا۔ ’’(امریکی انخلاء کی) وقت کی پیش گوئی نہیں کی گئی تھی۔ کسی کا خیال نہیں تھا کہ کابل اس قدر جلدی فتح ہوجائے گا جس قدر جلد یہ ہوا۔ (اس وقت) سرحد پر چھوٹے موٹے واقعات رونما ہوئے۔ اب نئے توازن وجود میں آچکے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر اس سے کو بڑا نتیجہ نہیں نکلا، جیسے دوبارہ ایک بہت بڑی ہجرت کا مسئلہ۔‘‘ یوسف کہتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت کے لیے سول‘ ملٹری ہم آہنگی پر بات کرتے ہوئے سلہری صاحب نے نیشنل سیکیوریٹی پالیسی ہی کا حوالہ دیا جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’اگر آپ نیشنل سیکیوریٹی پالیسی کا جائز ہ لیں‘ جسے سابقہ حکومت نے متعارف کرایا تھا‘ تو اس میں بھی معیشت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہی درحقیقت ایک غیر روایتی لیکن ملکی سلامتی کے لیے بدترین خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔‘‘

انہوں نے اس حوالے سے روس‘ یوکرین، ایران اور شمالی کوریا کی مثالیں دیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر ہم روس کے معاملے کو دیکھیں تو پتا چلے گا کہ روس بنیادی طور پر یوکرین کی معیشت پر وار کر رہا ہے، جب کہ پاکستان یوکرین کی مدد کر رہا ہے۔

ایران اور شمالی کوریا کے معاملوں میں ان پر عائد کی جانے والی معاشی اور اقتصادی پابندیاں سب کے سامنے ہیں۔ لہٰذا کسی بھی ملک کے لیے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ اس کی معیشت پوری طرح سے قابل اعتبار ہو اور اس ملک کی معاشی ترقی کی ضامن ہو۔‘ مزیدبرآں یہ کہ معاشی نمو اور استحکام سول اور فوجی قیادت کے لئے یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

ممکنہ طور پر آگے بڑھنے کے طریقۂ کار کے حوالے سے سلہری صاحب یہ تجویز کرتے ہیں کہ ’’نیشنل سیکیوریٹی کونسل کی طرز پر کام کیا جا سکتا ہے، جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مسلح افواج کی نمائندگی بھی موجود ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اسی طرز پر ایک نیشنل اکنامک سیکیوریٹی کونسل قائم کی جا سکتی ہے، جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ‘ وزیراعظم‘ قومی اسمبلی اور سینٹ میں قائدین حزب اختلاف ا ور فوجی قیادت شامل ہو‘ اگر ہم نیشنل سیکیوریٹی پالیسی کا نفاذ چاہتے ہیں تو اس طرز کی ایک آئینی باڈی کی تشکیل ناگزیر ہے تاکہ ایک سیاسی اتفاق رائے کو ممکن بنایا جا سکے اور کوئی بھی فیصلہ سیاست کی نذر نہ ہونے پائے۔‘‘

سلہری صاحب کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کو درپیش قرضوں سے نمٹنے جیسے‘ سب سے بھاری چیلینجوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ابہام سے پاک اتفاق رائے ناگزیر ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس بات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف پروگرام کو کیسے آگے لے کر چلنا ہے۔ ہمیں اس بات پر متفق ہونا پڑے گا کہ ہم نے اپنے عوامی خدمات فراہم کرنے والے ا داروں کو کیسے چلانا ہے۔ بشمول یہ کہ ان اداروں کا احیاء و بحالی کس طرح ممکن ہے یا پھر یہ کہ آیا ان کی نج کاری کرنا مناسب ہوگا۔

سول حکومتوں کو درپیش چیلینجوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’جب سول حکومت ان مسائل کو ا پنے بل بوتے پر حل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو حزب اختلاف کے ساتھ کشمکش شروع ہوجاتی ہے۔ جب ایک حکومت مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور اپوزیشن برسراقتدار آ جاتی ہے تو سیاسی چشمک کا وہی سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے اور کم ازکم نج کاری‘ عوامی خدمات کے اداروں کے قرضہ جات اور آئی ایم ایف پروگرام جیسے معاملات پر اتفاق رائے لازم ہے۔ باقی معاملات سیاست کے لیے موجود ہیں۔

سلہری صاحب کا کہنا ہے کہ یقیناً فوج کو خود تمام معاملات میں قائدانہ کردار ادا نہیں کرنا‘ لیکن اس پیش رفت کا حصہ بننے کے لیے آمادہ اور تیار رہنا چاہیے۔ فوج ایک ثالث کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔‘‘

فوجی سفارت کاری:

پاکستان کے سفارت کار نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ ’’سفارت کاری مسلسل تغیرپذیر ہے اور اس کی نئی صورت گری میں ایک سے زیادہ اسٹیک ہولڈرز کا کردار ناگزیر ہوچکا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ادوار میں اکنامک ڈپلومیسی‘ ملٹری ڈپلومیسی‘ بیک چینل ڈپلومیسی‘ ٹریک ون اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘ کرکٹ ڈپلومیسی ‘ اور پنگ پانگ ڈپلومیسی کی اصطلاحیں ہمارے سامنے آتی رہی ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے سول قیادت کی آشیرباد کے ساتھ جان توڑ مشترکہ کوششوں سے ملک کو بدترین معاشی خطرات اور عالمی تنہائی سے باہر نکالا ہے۔ خواہ وہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین کے ساتھ سماجی و معاشی تعلقات ہوں یا پھر آئی ایم ایف کے ساتھ خطرات سے دوچار معاہدہ ہو‘ سی پیک کے معاملات ہوں یا ایف اے ٹی ایف کا مسئلہ ہو‘ ملٹری ڈپلومیسی نے غیرمعمولی مدد و تعاون فراہم کیا۔

نفیس زکریا، جو برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، کا کہنا تھا کہ پاکستان کی غیرمعمولی جغرافیائی حیثیت، ہمارے ہمسایہ ممالک اور ان کے ساتھ ہمارے تعلقات کا تاریخی پس منظر وہ عوامل ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ بالخصوص اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی اپنی سلامتی سب سے بنیادی نکتہ ہوتا ہے۔ اس معاملے میں فوج کا کردار بہت زیادہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔

ہمارے دفترخارجہ کی اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں میں فوج کا کردار نہایت کلیدی ہوتا ہے۔ جب کبھی ہماری سلامتی‘ جغرافیائی وحدت اور خودمختاری کے خلاف روایتی جنگ سے ہٹ کر دیگر طریقوں کے ساتھ کوششیں سامنے آئیں تو پاکستان کی مسلح افواج نے ان کوششوں کو پاکستان کو حاصل عسکری مزاحمتی قوت، گفت و شنید اور عملی مزاحمت کے ذریعے شکست دینے میں شان دار کردار ادا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پلوامہ کا واقعہ ایسے بہت سے واقعات میں سے ایک مثال ہے جہاں پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت کی طرف سے پاکستان کو جارح ثابت کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا۔ انہوں نے بتایا کہ پانی اور سرحدی معاملات پر ہونے والی بات چیت میں بھی پاک فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا ’’بین الاقوامی امن اور اقوام متحدہ امن کوششوں کے تناظر میں ‘ بین الاقوامی سطح پر پاک فوج کو عزت اور نیک نامی حاصل ہوئی ہے۔ بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات ملٹری اتاشی اور سیکیوریٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے اہل کاروں نے بیرون ملک سفارتی مقاصد حاصل کرنے کی کوششوں میں کئی حوالوں سے غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔‘‘

’گیم چینجر‘ کوریڈور:

عابد قیوم سلہری نے سی پیک پر بات کرتے ہوئے کہا ’’پاک چین اکنامک کوریڈور جسے پاکستان کے لیے ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، پاکستان کی صنعت‘ بنیادی ڈھانچے‘ ذرائع رسل و رسائل کے نظام اور توانائی کی پیداوار کو جدت عطا کرتے ہوئے ملک کو ترقی اور نمو کے غیرمعمولی عہد میں لے کر جا رہا ہے۔ بھارت کُھلے عام اربوں ڈالر مالیت کے اس منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے۔

پاکستان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق بھارت، بلوچستان میں امن و امان خراب کرکے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ فوج نے اس چیلینج سے نمٹنے کے لیے سی پیک کی سیکیوریٹی کے لیے فوج کا ایک خصوصی ڈویژن کھڑا کیا ہے، جو منصوبے کو درپیش خطرات کی نوعیت اور شدت کے لحاظ سے کئی ایک منصوبے روبہ عمل لایا ہے اور اپنی ان کوششوں کے دوران بے شمار قربانیاں دی ہیں۔‘‘

’’بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورت حال کے ہوتے ہوئے سی پیک کے منصوبوں پر عمل درآمد مشکل ہوتا۔ سی پیک منصوبے کا پہلا مرحلہ سڑکوں کے ایک نیٹ ورک کی تعمیر ہے۔ دوسرا مرحلہ گوادر بندرگاہ کا ہے‘ لہٰذا بلوچستان میں فوج کے متحرک کردار کے بغیر صوبے میں قیام امن کے مقاصد حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ سی پیک پر عمل درآمد کے لیے ملکی سلامتی کے ساتھ سیاسی استحکام اور تسلسل بھی نہایت ضروری ہے۔

پاکستان میں تلخ سیاسی محاذ آرائی اور تقسیم کے ماحول میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو ریاستی نظام کے اندر موجود طاقت کے مراکز سے کسی نہ کسی شکل میں مدد اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ یہاں پاکستان میں ایک سے زیادہ طاقت کے مراکز موجود ہیں۔ ایک ہماری پارلیمنٹ ہے‘ دوسرا میڈیا اور تیسری پاک فوج ہے۔ اس سیاسی انتشار کو کم کرنے میں سب کا کردار ہے۔ میں کہوں گا کہ اس تعاون میں آرمی چیف کا کردار اہم ہے۔ پاک فوج نے سابقہ حکومت کو بھی حمایت و معاونت فراہم کی تھی، موجودہ حکومت کی مدد کر رہی ہے۔

بین الاقوامی مقامات:

سرمایہ کاری کے معاملات میں تنازعات کے تصفیہ کے بین الاقوامی مرکز میں ’’کارکے‘‘ اور ’’ریکوڈک‘‘ کے مقدمات کی درست انداز میں پیروی نہ کرنے کے باعث پاکستان کو ا ن دونوں مقدمات میں بالترتیب 1.6ارب اور 11 ارب ڈالر جرمانہ کردیا گیا تھا۔ ’’کارکے‘‘ ترکیہ کی فرم ہے جب کہ ریکوڈیک کی کان پر کام کرنے والی کمپنی کا تعلق کینیڈا سے ہے اور ان کمپنیوں نے پاکستان پر معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔ اس بھاری جرمانے کی ادائیگی ناممکن نہ سہی لیکن غیرمعمولی طور پر مشکل بات تھی۔

سوال یہ ہے کہ یہ بھاری جرمانہ کس کی غلطی کا خمیازہ تھا، اور یہ کہ اس جرمانے کے نتیجے میں ہونے والی معاشی بربادی کس کی کوششوں سے ٹلی؟

سعدرسول کے مطابق ’’یہ کہنا ہی پڑے گا کہ اس جرمانے کا موجب ایک سول ادارہ یعنی اس وقت کی عدلیہ تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری اور ان کے خوف میں مبتلا سول انتظامیہ ان کے غیض و غضب سے خود کو بچانے کے لیے انتظامیہ نے ریاست کو ناقص قانونی مشورے دیے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب پاکستان کے ا وپر یہ تباہ کن جرمانہ عائد ہوا تو پاکستان کے تزویراتی مفادات کی نگرانی کرنے والوں نے، اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ پاکستان کی معیشت ہمارے تزویراتی مفادات ہی کا حصہ ہے‘ آگے بڑھ کر اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے تعاون فراہم کیا۔

پاک فوج نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے معاملے کو سنبھالا ‘ اگر وہ ایسا نہ کرتے اور ہمیں اس جرمانے کا کچھ نہ کچھ حصہ بھی ادا کرنا پڑجاتا تو یہ ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ پاکستان کو عزت و احترام کے ساتھ اس غیرموافق صورت حال سے نکالنے کا یہی واحد راستہ تھا اور پاکستانی قوم کو اس بات پر اپنی فوج کا شکر گزار ہونا چاہیے۔‘‘

عالمی وبا کا مقابلہ:

جب 2020ء میں کووڈ ۔19کی وبا ایک کے بعد ایک ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی‘ ایک وقت پر ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان صحت کے حوالے سے بدترین تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ صحت کی سہولیات کے حوالے سے ملک کا بنیادی ڈھانچا وبا کے آغاز پر انتہائی ناکافی تھا۔ ابتدا میں چند غلطیوں کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور صورت حال یہ ہوگئی کہ ہمیں بد یا بدترین میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا۔ یا تو ہم اپنی معیشت کو ٹھپ کردیتے یا پھر بیماری کے وائرس کو بربادی کی کُھلی چھٹی دے دیتے۔

دو برس گزرنے کے بعد آج اس عالمی وباء سے نمٹنے کی پاکستانی حکمت عملی علاقائی اور عالمی سطح پر کام یابی کی مثال بنی ہوئی ہے۔ جب ایران اور بھارت میں وبا نے تباہی مچا رکھی تھی اور بڑے پیمانے پر اموات ہو رہی تھیں تو پاکستان میں صورت حال قابو سے باہر نہیں ہوئی۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سنٹر (NCOC) کا قیام عمل میں لایا گیا‘ سول اور فوجی حکام کی باہمی کاوش سے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردینے کے بجائے طبی ٹیسٹوں‘ بیمار افراد کا کھوج لگانے اور انہیں الگ کرنے کی ایک مربوط حکمت عملی وضع کی گئی۔ اس ادارے نے شہریوں کو ویکسین لگانے کی کامیابی حکمت کا آغاز کیا جس کے تحت اب تک 100ملین سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں کووڈ ۔19 کے خلاف حکمت عملی کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر فیصل سلطان نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد قابو سے باہر نہیں ہوئی تو اس کی کچھ وجوہات ہیں‘ سب سے پہلے تو اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ تمام اقدامات باہم مربوط ہوں‘ درست اور قابل اعتبار معلومات پر سائنسی بنیادوں پر ردعمل کو یقینی بنایا گیا‘ ہماری حکمت عملی یہ رہی کہ بیماری پر قابو پانے کی کوششوں اور عوام کی بہبود اور معاشی سرگرمی میں اس طرح توازن پیدا کیا جائے جو بیماری کی شدت اور مریضوں کی تعداد سے مطالبقت رکھا ہو۔

اسی طرح اپنے صحت کے نظام کو چیلینج کے لیے تیار کرنا، جیسے ٹیسٹوں کا بندوبست ‘ اسپتالوں میں بستروں کی فراہمی‘ آکسیجن کی ترسیل‘ عملہ کی تربیت‘ ویکسین کی ترسیل اور تقسیم کا عمل بھی یکساں طور پر اہمیت رکھتا تھا۔ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اس وبا کے تمام عرصہ میں غیرمعمولی کردار ا دا کیا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ این سی او سی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بیماری کے خلاف ہمارا ردعمل بے ترتیب نہ ہو‘ ہمارے فیصلے سائنسی بنیادوں پر کئے جائیں اور وبائی مرض کے حوالے سے مسلمہ اصولوں کے مطابق ہوں‘ ان فیصلوں پر عمل درآمد ٹھوس بنیادوں پر ہو اور عمل درآمد کے نتائج کی مکمل نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔

ڈاکٹر سلطان نے این سی او سی کے قیام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کی تشکیل کا خیال مارچ کے مہینے کے وسط سے آخر کے دوران سامنے آیا جب یہ بات پوری طرح سے صاف ہوگئی کہ پاکستان جیسا وفاقی ڈھانچا رکھنے والے ملک میں مکمل قومی ہم آہنگی پیدا کیے بغیر وبا کا مقابلہ کرنے میں شدید مشکلات حائل رہیں گی۔ نیشنل سیکیوریٹی کونسل نے حائل رکاوٹوں کی نشان دہی کرتے ہوئے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ (NCC) نیشنل کمانڈ سنٹر قائم کردیں۔ جب یہ روبہ عمل آیا تو ا س کو (NCOC) کی پہچان ملی۔

ڈاکٹر سلطان نے مزید بتایا ’’این سی او سی‘‘ ایک مؤثر فورم تھا جہاں پر وفاقی حکومت بشمول اپنی مدد گار وزارتوں کے جیسے پلاننگ ‘ این ڈی ایم اے‘ صحت‘ وزارت داخلہ‘ ہوا بازی‘ مذہبی ا مور‘ وزارت اطلاعات غرض ہر وزارت جس کی معاونت درکار ہو، صوبائی وزراء اور حکومتیں مل کر ایک چھت تلے بیٹھتے تھے (کبھی یہ اجلاس آن لائن ہوتے اور اکثر یہ لوگ خود موجود ہوتے) ان کے ساتھ فوج کے ساتھی بھی ہوتے جو بے عیب تعاون کو یقینی بناتے ۔ وہ کام اور فیصلوں کے نتائج پر پوری نظر رکھتے میرے خیال میں یہ ایک غیرمعمولی کام یابی تھی۔‘‘

کووڈ ۔19کی عالمی وبا سے نمٹنے کی پاکستان کی حکمت عملی کی تعریف کرتے ہوئے عابد قیوم سلہری نے کہا ’’اس عالمی وبا سے نمٹتے میں پاکستان کی سول ملٹری مشترکہ کاوشوں کا بنیادی کردار ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں کہیں زیادہ ہولناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ بھارت اور پاکستان میں کم و بیش ایک جیسا سماجی و سیاسی ماحول پایا جاتا ہے۔ لیکن بھارت میں اس بیماری کا ڈیلٹا ویرٹینٹ قابو سے باہر ہوگیا اور اس نے بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں لیں۔

پاکستان میں سول حکومت اور فوج کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کے باعث اسی ڈیلٹا ویر ٹینٹ نے کوئی زیادہ نقصان نہیں کیا۔ ڈاکٹر سلطان ہی کے دور میں جب وہ ایس اے پی ایم کے طور پر کام کر رہے تھے، پولیو کے خاتمے کے لئے مؤثر کوششوں پر بھی پاکستان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ اس سوال پر کہ پاکستان نے دوردراز علاقوں تک رسائی کی مشکل پر کیسے قابو پایا‘ انہوں نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے محکمہ صحت ‘ پولیو اور EPI پروگراموں کے درمیان مکمل ہم آہنگی نے ہماری بڑی مدد کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی اور آج بھی سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ پولیوویکسین کے حق میں آگاہی کی مہم بعض دوردراز علاقوں میں یکساں طور پر اثرپذیری نہیں رکھتی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ۔19وبا کے دنوں میں لوگوں کی نقل و حرکت میں غیرمعمولی کمی نے بھی غالباً اس سلسلے میں مدد فراہم کی۔ پھر یہ بھی ہے کہ مریضوں سے حاصل ہونے والی معلومات اور ماحول نے بھی بیماری والے مخصوص علاقوں کی نشان دہی اور پھر ٹارگیٹڈ کارروائی کو ممکن بنایا۔

یہ ساری باتیں مستقبل میں بھی اور حال میں بھی پولیو کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے معاون ثابت ہوں گی‘ ہمیں حال ہی میں سامنے آنے والے پولیو کے چند معاملات پر ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ جنوبی خیبر پختونخواہ اور کراچی جیسے کچھ بڑے شہروں میں جہاں کی مخصوص آبادی اپنی جگہ بدلتی رہتی ہے‘ پولیو کے خلاف مہم کو مزید موثر بنانا چاہیے۔

پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی:

ایک دہائی سے زیادہ عرصہ طویل دہشت گردوں کے خلاف جنگ نے پاکستان کو غیرمعمولی جانی ا ور مالی نقصان پہنچایا۔ پاکستان غیرملکیوں کے لیے ایک بڑے ’نوگو ایریا ‘ میں بدل چکا تھا، جب کہ مغربی میڈیا اس تاثر کو مزید خراب کرنے میں مصروف رہا۔ سال 2009 میں پاکستان کے دورے پر آئی سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے نے پاکستان پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے پوری طرح سے بند کر دیے۔ تاہم پاک فوج نے مسلسل فوجی آپریشنز کے ذریعے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جس کے باعث ملک کے اندر معمول کا ماحول بحال ہونے کی راہ ہموار ہوگئی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک سابق چیئرمین احسان مانی کو عمومی طور پر ایک ایسے وقت پر پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا کریڈٹ دیا جاتا ہے جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث مغربی میڈیا کے قائم کیے ہوئے منفی تاثر کو ختم کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔ اس حوالے سے احسان مانی خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہماری سیکیوریٹی ایجنسیوں کی مدد اور اعانت کے بغیر ہرگز ممکن نہ ہو پاتا۔

احسان مانی بتاتے ہیں ’’ہمارے لیے سب سے بڑا چیلینج یہ تھا کہ کسی ملک کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے سری لنکا کو پاکستان لانا چاہیے۔ یہ سری لنکا ہی کی ٹیم تھی جسے لاہور میں نشانہ بنایا گیا تھا اگر سری لنکا دورے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو پھر دوسرے ممالک بھی انکار نہیں کریں گے۔‘‘

وہ بتاتے ہیں،’’اس مقصد کے لیے ہم نے پاکستان میں تعینات سری لنکا کے ملٹری اتاشی سے کہا کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ پاکستان کی سیکیوریٹی ایجنسیوں کے ساتھ اس معاملے پر براہ راست بات کریں‘ سو انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر انہوں نے سری لنکا کے کرکٹ بورڈ کو یقین دہانی کرا دی کہ پاکستان میں بہترین سکیورٹی انتظامات ہیں۔

دوسری طرف پاک فوج کی طرف سے سری لنکن فوجی حکام سے رابطہ کیا گیا اور انہیں مؤثر یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کی ٹیم پاکستان میں مکمل طور پر محفوظ رہے گی۔ فوج کی ان کوششوں کے بغیر یہ دورہ ممکن نہ ہو پاتا۔ سری لنکا کی ٹیم کے اس دورے کے بعد بنگلادیش‘ زمبابوے‘ ایم سی سی اور ساؤتھ افریقہ نے پاکستان میں میچز کھیلے‘ ابھی حال ہی میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں نے بھی پاکستان کے دورے کیے ہیں۔

پاکستان کا دورہ کرنے والی ان ٹیموں کے اعلیٰ حکام یعنی چیئرمین یا پھر چیف ایگزیکٹیو اور بورڈ کے ارکان نے ٹیم کے دورے سے پہلے خود پاکستان کا دورہ کیا جنہیں پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں نے تفصیلی بریفنگز دے کر مطمئن کیا۔

بین الاقوامی کرکٹ کی پاکستان واپسی کے نتیجے میں پاکستان کے ان علاقوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں جنہیں ملک کے دیگر علاقوں سے کم محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ کرکٹ نے اس حوالے سے بڑا کلیدی کردار ادا کیا ۔ جب سے پاکستان میں قائداعظم ٹرافی کے مقابلوں کے لیے ملکی کرکٹ کا نیا ڈھانچا متعارف کرایا گیا ہے، خیبر پختونخواہ صوبے کی ٹیم ون ڈے اور 20 ٹونٹی مقابلوں میں بہترین کارکردگی دکھا رہی ہے۔

انہوں نے کہا،’’میں اس بات پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ بالخصوص کرکٹ اور بالعموم دیگر کھیلوں کے مقابلوں کا پاکستان میں انعقاد دنیا کو مؤثر پیغام دیتا ہے کہ پاکستان مکمل طور پر ایک محفوظ ملک ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔