ایسا بھی ہوتا ہے

زمرد نقوی  بدھ 12 اکتوبر 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے کہ جو اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھا لیکن جب اس نے اپنے ارد گرد کرپشن ، رشوت کا بازار گرم دیکھا تو اس کا حساس دل غریب عوام کے لیے تڑپ اُٹھا۔

اس نے اپنی سرکاری ملازمت پر لات ماری اور سیاست کے میدان میں داخل ہو گیا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ غریب عوام کی جان ان رشوت خور مگرمچھوں سے اسی طرح چھڑا سکتے ہیں ۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی جو غریب عوام کی نمایندگی کرتی ہے ۔ اس کے لیے اس نے یقینی بنایا کہ نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو پارٹی ٹکٹ دیا جائے ۔

اس کی مثال یہ ہے کہ انھوں نے ایک ایسے شخص کو پارٹی ٹکٹ دیا اور وہ کامیاب بھی ہوا جس کی ماں ایک اسکول میں صفائی کا کام کرتی تھی ۔ یہ کہانی ہے ریاست دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی ۔ یہ پچھلے سات سال سے دہلی کے وزیر اعلیٰ چلے آ رہے ہیں ۔

وزیر اعلیٰ بنتے ہی انھوں نے سرکاری محکموں سے رشوت کی لعنت ختم کرنے کے لیے بھر پور مہم چلائی جس میں انھیں زبردست کامیابی حاصل ہوئی ۔ رشوت خوری کے حوالے سے انھوں نے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ۔ یعنی ریاستی حکومت کا جو بھی افسر یا اہلکار رشتوت خوری میں ملوث نکلا اسے فوراً ملازمت سے نکال باہر کیا ۔

یہاں تک کہ رشوت لینے کے سبھی چور دروازے بند کر دیے ۔ مزید یہ کہ حکومت نے انٹی کرپشن اسکواڈ بنا دیا جس نے اپنی ہی حکومت کے وزیر صحت کو رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کر لیا ۔

اروند کیجریوال نے صرف نعرے ہی نہیں لگائے، جھوٹے وعدے نہیں کیئے بلکہ انتخابی نعروں کو حقیقت میں بدلا ۔ یہاں تک کہ عوام کو ان پر یقین آگیا ۔ جو انھوں نے عوام سے وعدہ کیا اُس کو پورا کیا ۔ پچھلے پانچ سال سے ان کی حکومت دہلی کے عوام کو200یونٹ بجلی مفت فراہم کر رہی ہے ۔

ان سے کسی قسم کا ٹیکس حتیٰ کا میٹر کا کرایہ بھی نہیں لیا جاتا اور صرف یہی ہی نہیں جو شہری 200سے اوپر 400یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں، انھیں ان یونٹوں پر مزید 50فیصدرعایت ملتی ہے۔ اس طرح کیجریوال کی عوام دوست حکومت سے دہلی کے تقریباً 45لاکھ گھرانے فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔

صرف یہی نہیں دہلی حکومت نے مزید فلاحی اقدامات بھی کیئے ہیں جس میں تعلیم بھی شامل ہے ۔ اس ضمن میں کیجریوال نے سب سے پہلے اپنے بچے سرکاری اسکول میں داخل کرائے ۔ انھوں نے سرکاری اسکولوں کو جدید ترین سہولتیں مہیا کرتے ہوئے انھیں نجی مہنگے تعلیمی اداروں کے ہم پلہ بنا دیا ۔ اس کے لیے انھوں نے سرکاری اسکولوں پر8ارب روپے نہیں بلکہ 800 ارب روپے خرچ کیے ۔

غریب طلباء اور طالبات کے لیے بلا سود قرضوں کا اجرا تاکہ مالی مسئلہ ان کی تعلیم میں روکاٹ نہ بن سکے ۔ اس اسکیم کے تحت کوئی بھی طالب علم دس لاکھ روپے کا قرضہ لے سکتا ہے ۔

تیسرا بڑا مسئلہ عوام کے لیے صحت ہے اُس کو انھوںنے اس طرح حل کیا کہ سب سے پہلے پانچ سو سے زائد محلہ کلینک قائم کیے جہاں پر ہر شہری کو تشخیص ، علاج ، ادویات اور دو سو زائد ٹیسٹوں کی مفت خدمات فراہم کی گئیں ۔ کیجر یوال نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد صحت کا بجٹ دس ہزار کروڑ تک پہنچا دیا ۔

جب کہ پورے پاکستان کا صحت کا بجٹ چوبیس ارب روپے ہے ۔ اس ضمن میں مفت سرجری اسکیم متعارف کرائی جس کے تحت عوام 1061مختلف اقسام کی سرجریاں مفت کرا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر شہری کو ہر ماہ 20ہزار لیٹر صاف پانی مفت مہیا کیا گیا ۔

خواتین کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ پورے دہلی میں سرکار ی بسوں میں مفت سفر کر سکتی ہیں ۔ اس کے علاوہ بزرگ مرد و خواتین کے لیے منصوبہ بنایا گیا کہ اگر وہ پورے بھارت میں کسی بھی مذہبی مقام پر جانا چاہیں تو سفر کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔

اس سال کے شروع میں بھارتی پنجاب میں الیکشن ہوئے جہاں انھوں نے وعدہ کیا کہ اگر وہ بر سر اقتدار ا ٓگئے تو 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت بجلی دی جائے گی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی پنجاب اسمبلی میں اُن کی جہاں صرف 20نشستیں تھی حالیہ الیکشن میں عوام نے انھیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرا دیا ۔

مشرقی پنجاب میں بھی اپنے وعدے کے مطابق بجلی فری کردی ہے، سستی بجلی دہلی کے عوام کو اس طرح ملی کہ بقول کیجر یوال حکمران طبقے اور بجلی کی تقسیم کا رکمپنیوں نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے ۔ عوام کو مہنگی بجلی بیچ کر منافع آپس میں بانٹ لیتے ہیں ۔ کیجر یوال نے اس کرپشن اور بندر بانٹ کا خاتمہ کر دیا ۔

اب غریب عوام دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو اٹھتے بیٹھتے دعائیں دیتے ہیں کہ’’ اُوپروالا‘‘ اسے سلامت رکھے اور اسی طرح رشوت خوری کے خلاف جھاڑو چلاتا رہے کہ جھاڑو عام آدمی پارٹی کا انتخابی نشان ہے ۔ کیا پاکستان میں توقع کر سکتے ہیں کہ یہاں پر رشوت خوری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔شاید نہیں۔

ایک عام اہلکار سے اعلیٰ افسران کا لائف اسٹائل دیکھیں ان کے لباس، جوتے، گھڑیاں پوش علاقوں میں ان کی عالیشان رہائش گائیں، انتہائی مہنگے تعلیمی اداروں میں اندرون اور بیرون ملک ان کے بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ۔ ہر سال فیملی سمیت بیرون ملک سیرو تفریح کے لیے جانا۔ سیکڑوں ہزاروں گھوسٹ ملازمین ۔ان کی تنخواہیں کن کی جیبوں میں جاتی ہیں، یہاں کالم کی گنجائش ختم۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔