برطانوی مصور نے 1000 پینٹنگز جلادیں، مزید تین ہزار نذرِ آتش کریں گے

ویب ڈیسک  بدھ 12 اکتوبر 2022
برطانوی مصور نے اپنی ایک ہزار سے زائد پینٹنگ جلادی ہیں اور مزید ہزاروں شاہکار کو آگ کے حوالے کریں گے۔ فوٹو: 
سی این این

برطانوی مصور نے اپنی ایک ہزار سے زائد پینٹنگ جلادی ہیں اور مزید ہزاروں شاہکار کو آگ کے حوالے کریں گے۔ فوٹو: سی این این

 لندن: برطانوی مصور نے مکمل ہوش و حواس میں اپنی ایک ہزار سے زائد پینٹنگ جلائی ہیں اور اب مہینے کے آخر تک مزید تین ہزار تصاویر

نذرِ آتش کریں گے۔

گزشتہ ہفتے 57 سالہ ڈیمین ہرسٹ کی آرٹ گیلری سے دھواں خارج ہورہا تھا کیونکہ انہوں نے بہت تیزی سے رنگین دائروں والی اپنی پینٹنگ نذرآتش کیں اور جب تک 1000 تصاویر راکھ نہیں ہوئیں انہوں نے ہاتھ نہیں روکا ۔ اب وہ مزید تصاویر جلائیں گے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

اس سارے منظر کو کیمرہ مین نے ریکارڈ کیا اور چھ آتش دانوں میں جلنے والی تصاویر کی آن لائن اسٹریم جاری تھی۔ اسے انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارم پر براہِ راست نشر کیا گیا تھا۔

ڈیمین نے چھ برس قبل ’دی کرنسی‘ نام کا ایک مصورانہ منصوبہ شروع کیا تھا جس میں اس نے رنگ برنگی گول نقاط والی 10 ہزار تصاویر بنائی تھیں۔ اب وہ چاہتے تھے کہ تمام شاہکار ایک مقام پر محفوظ رکھے جائیں اور سب کی این ایف ٹی بنائی جائے۔

تاہم بعد میں انہوں نے اپنے صارفین سے کہا کہ آیا وہ حقیقی پینٹنگ کے ڈجیٹل ٹوکن چاہتے ہیں یا پھر وہ اسے آگ میں جلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جواب میں 4851 صارفین نے کہا کہ پینٹنگ جلادی جائیں اور اس منگل کو انہوں نے اپنی اولین سینکڑوں تصاویرجلائی ہیں۔

ڈیمین نے کہا کہ یہ کوئی جوا نہیں اور نہ ہی بے عقلی ہے کیونکہ آج کے دور میں آرٹ حقیقی ہو یا پھر ڈجیٹل اس کی قدروقیمت برقرار رہتی ہے۔ اس طرح کوئی نقصان نہ ہوگا بلکہ جلانے کے بعد انہیں ڈجیٹل این ایف ٹی پر منتقل کردیا جائے جنہیں بعد میں فروخت کیا جاسکے گا۔

2016 سے شروع کی جانے والی ہزاروں تصاویر میں سے ہر ایک پر ڈیمین کے دستخط موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی جیسی ہونے کے باوجود ان کی کوئی دو تصاویر یساں نہیں اور ہر ایک کے ٹوکن کی قیمت دوہزار ڈالر رکھی گئی ہے۔

اب تک ان کی ایک این ایف ٹی کی قیمت پونے دولاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ جلنے کے بعد این ایف ٹی کی قیمت 10 گنا زائد تک بھی ہوسکتی ہے جبکہ ڈیمین اب مزید ہزاروں پینٹنگ جلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔