خان کا اپنے کارکنوں سے حلف لینا

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 13 اکتوبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

آڈیو لیکس پاکستان کے نظام کی بدنامی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے سیاسی تابوت میں آخری کیلیں بھی ٹھوک رہی ہیں۔ قوم دیکھ رہی ہے کہ عمران خان ابھی تک کھلاڑی ہے اور اپنی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے پر بضد نظر آرہے ہیں۔

جو سیاسی لیڈر قومی مفادات اور اس کے تقاضوں سے آشنا نہ ہو تو اسے کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہے مگر قومی رہبر و راہنما کا ٹائٹل نہیں دیا جاسکتا۔ انھوں نے اقتدار کیسے حاصل کیا، یہ سب پر عیاں ہے۔ انھوں نے پاکستانی سیاست میں گالم لوچ کے کلچر کو پروان چڑھایا۔

آج پاکستان کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے اس میں گالم گلوچ کی سیاست کا ہاتھ نمایاں ہے۔ جو معاشی و معاشرتی بربادی پچھلے نا اہل حکمران 70 سال میں نہیں کرسکے وہ خان نے پونے چار سال میں کر کے دکھایا۔ پی ڈی ایم کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی اور انھیں اپنی ناکامی نظر آنے لگی تو نہایت چالاکی سے دو کام کیے۔

پہلا کام انھوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے کمی کر کے آئی ایم ایف کو ناراض کیا، آنے والی حکومت کو معاشی دلدل میں پھنسایا۔ یہ اس قدر سنگین فیصلہ تھا جس سے ملک ڈیفالٹ کی جانب تیزی سے بڑھنے لگا۔

دوسرا کام معصوم جذباتی اور امریکی سامراج سے نفرت کرنے والے پاکستانیوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دینے کے لیے سائفر کا ڈرامہ رچایا جو بین الاقوامی سفارتی آداب اور ملکی مفادات کے خلاف تھا، اسی بنیاد پر اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے غیر آئینی رولنگ دیتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کی تحریک عدم اعتماد کو بلڈوز کیا، جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھیجی جس کو فوراً منظور کروا کر قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی۔

اپوزیشن اس غیر آئینی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئی، عدالت نے قاسم سوری کی رولنگ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کے عمل کو پورا کرنے کی ہدایت کر دی۔ جس پر وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہوگئے، ان کی جماعت کے 123 اراکین نے قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفوں کا اعلان کر رکھا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے 11 ممبران قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیے جن میں 9 جنرل سیٹیں اور دو خواتین کی مخصوص نشستیں تھیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کی جانب سے خالی کی گئی جنرل نشستوں میں سے 9 پر ضمنی الیکشن کا اعلان کردیا تھا۔ ضمنی الیکشن 25ستمبر کو شیڈول تھا جسے سیلاب کے پیش نظر ملتوی کردیا گیا۔

ان 9 کی 9سیٹوں پر عمران خان نیازی نے اپنی پارٹی کے کسی دوسرے لیڈر پر اعتماد نہیں کیا اور پانی کی گہرائی ناپے بغیر خود سیاسی سیلاب میں چھلانگ لگا دی۔ تمام حلقوں میں لگاتار جلسے کرنے لگے، اور ہر حلقے کے مستعفی رکن قومی اسمبلی نے بہ نفسِ نفیس گھر گھر جا کر ووٹ مانگنا شروع کیا اور ان کو عوامی موڈ کا پتہ چلا تو مورال ڈاؤن ہونا شروع ہوا۔

عمران خان کے چاہنے والوں میں کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو تحریک انصاف کو ایماندار اور محب وطن سمجھتے ہیں مگر ’’ارسلان بیٹا غداری کے ساتھ لنک کردو اور پانچ میں نے خرید لیے باقی پانچ بہت ضروری ہے‘‘ جیسے آڈیوز لیکس کے آنے پر وہ حقیقت جان کر پی ٹی آئی سے کنارہ کش ہو رہے ہیں۔

اب آتے ہیں ضمنی الیکشن سے بھاگنے کی طرف، جن سیٹوں پر الیکشن ہونے جارہے ہیں، ان تمام سیٹوں سے مستعفی ہونے والے پی ٹی آئی کے اراکین نے عدالت سے رجوع کیا کہ الیکشن ملتوی کیا جائے۔ ان اراکین نے موقف اختیار کیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے تو ہمیں بلایا ہی نہیں تو استعفے کیسے منظور کیے حالانکہ ان کی پارٹی پہلے یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری ان کے استعفے پہلے ہی منظور کرچکے ہیں جو ایک حقیقت تھی۔

قاسم سوری نے استعفے منظور کرلیے تھے لیکن ان پر مزید کارروائی اس لیے نہیں ہوسکی کہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے انھیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نہیں بھجوایا تھا۔ پی ٹی آئی کا یہ موقف بھی مضحکہ خیز ہے کہ اسپیکر یا تو تمام 123 استعفے قبول کرلیں یا انھیں یکسر مسترد کردیں حالانکہ آئین وقانون میں ایسی کوئی شق نہیں کہ استعفوں کو دوسروں کے استعفوں کی منظوری یا نامنظوری سے مشروط یا منسلک کیا جائے۔

مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ڈی سیٹ ہونے والے اراکینِ قومی اسمبلی نے اپنی درخواست میں کراچی سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے منحرف رکن قومی اسمبلی عبدالشکور شاد کے کیس کا حوالہ دیا جن کا استعفیٰ اسپیکر نے ان ارکان کے ساتھ منظور کیا تھا تاہم بعد میں ہائی کورٹ نے ان کی رکنیت بحال کردی تھی۔

شکور شاد نے اسپیکر کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کا استعفیٰ رضاکارانہ طور پر نہیں بھیجا گیا تھا، عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں آنے کے بعد پی ٹی آئی نے شکور شاد کی پارٹی رکنیت معطل کردی ہے۔ 9 حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کی ہڈی گلے میں ایسی پھنس گئی کہ نہ اگلی جا رہی ہے نہ نگلی جا رہی ہے۔ مردان کے حلقے میں مولانا قاسم جیسے ولی کامل عمران خان کے مدمقابل ہیں۔

اس حلقے میں پی ٹی آئی کو آیندہ کوئی امیدوار بھی نہیں ملے گا یعنی علی محمد خان کی سیاست اللہ کو پیاری ہوجائے گی۔ ایسی ہی خبریں دوسرے حلقوں سے بھی آرہی ہیں۔

یہی وہ وجہ ہے ان کے مستعفی اراکین عدالت جاپہنچے۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ وہ قومی اسمبلی جسے صدر عارف علوی نے عمران خان نیازی کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر تحلیل کیا تھا چند روز قبل اسی اسمبلی کے فلور پرکھڑے ہوکر قوم کو بھاشن دیتے رہے مقصد صرف عمران خان نیازی کا الیکشن سے بھاگنے میں سہولت کاری کے سوا کچھ نہیں تھا۔ حکومتی اراکین نے کیا سننا تھا صدر صاحب کو ان کی اپنی پارٹی کے سینٹرز نے بھی سننا گوارا نہیں کیا، سنا تو صرف قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے منحرف اراکین نے جنھیں عمران خان لوٹے کہتے ہیں۔

عمران خان پاکستان کی سیاست کو ہائی جیک کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں لیکن وہ اب دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ عوامی مقبولیت کی بناء پر دوتہائی اکثریت سے واپس آکر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاؤںگا۔ ان کا یہ خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے، ملک میں قبل از وقت الیکشن ہوتے نظر آرہے ہیں اور نہ ہی عمران خان سے حلف لینے کا کوئی امکان، تو انھوں نے اپنے جلسوں میں کارکنوں سے حلف لینا شروع کردیے ہیں، جن کے ذریعے وفاقی حکومت کو دھمکایا جا رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس خیبرپختونخوا میں اپنی جماعت کے سیاسی اراکین کو اکٹھا کر کے میرے گمشدہ پرانے دوست سابق گورنر شاہ فرمان نے ورکروں سے حلف لیا اور خان کی سیاسی جدوجہد کو جہاد کا نام دے کر ’’مذہبی ٹچ‘‘ دیا۔

ہمارے ہاں حلف ہمیشہ سینے پر ہاتھ رکھ کر لیا جاتا ہے لیکن اس تقریب میں جس طرح ایک ہاتھ کو سامنے کی جانب بڑھا کر حلف لیا گیا اس نے ہٹلر کے نازی حلف کی یاد تازہ کردی۔ خیر یہ تو وقت ہی بتائے گیا کہ خان کا حلف کیا رنگ لاتا ہے۔ حلف لینے کا انداز خواہ کچھ بھی ہو مگر ریاست کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔