عمران خان کا لانگ مارچ اور خدشات!

علی احمد ڈھلوں  جمعرات 13 اکتوبر 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

جیسے جیسے نومبر قریب آرہا ہے، سیاسی حلقوں کے دل کی دھڑکنیں بڑھتی جا رہی ہیں، یہ اُس وقت تک بڑھتی جائیں گی جب تک نئے آرمی چیف کے حوالے سے ابہام ختم نہیں ہو جاتا۔ اسی اثنا میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے تئیں ’’پریشر‘‘ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

تحریک انصاف ( عمران خان) لانگ مارچ کی تیاری کر رہی ہے، ن لیگ سابق وزیراعظم نواز شریف کی مبینہ وطن واپسی کا انتظار کر رہی ہے، پیپلزپارٹی دور بیٹھی تماشہ دیکھ رہی اور اس ساری سیاسی لڑائی میں خود کو دور رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں مہنگائی سے نالاں ہونے کے باوجود اس حوالے سے ہونے والی عوامی بے چینی دیکھ کر چپ سادھے ہوئے ہیں۔

جبکہ یہ سارے ’’سیاسی سادھو‘‘ ایک طرف اور اکیلے ’’تیس مار خان‘‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایک طرف نظر آرہے ہیں، جو اپنے ہی دور میں ڈالر کے مقابلے میں ہوئی ’’بے حرمتی‘‘ کو پاکیزگی میں بدلنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، اور شاید انھی کی کوششوں کی وجہ سے ڈالر 245سے نیچے بل کھاتا ہوا 217پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔

بلکہ وہ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کیسے نمٹنا ہے یہ مجھ پر چھوڑ دیں۔ اب ایسا نہ ہو کہ آئی ایم ایف اُن کی بات سن رہا ہو، اور وہ دوبارہ ہماری ناک سے لکیریں نکلوا کر اگلی قسط ریلیز کر دے۔ اور پھر سوال یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف بھی انھیں اچھی طرح جانتی ہوئی تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟مطلب! حالات یہ ہیں کہ اب اسحاق ڈار سے بھی کوئی سوال نہ پوچھا جائے کہ وہ بھی معیشت کی دنیا کے ہینڈ سم ہیں، بس اب وہ آ گئے ہیں اب معیشت کے ہر توڑ کا پکا جوڑ انھی کے پاس ہے ، سارے داغ بھی اب وہی دھو دیں گے ؟

خیر چھوڑیں… اصل مدعے کی بات اگر کریں تو وہ ہے عمران خان کا وفاقی حکومت کے خلاف ’’لانگ مارچ ‘‘۔ تو صاحبو! مجھے اس بار مئی کے مہینے کے برخلاف لانگ مارچ کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔

جن میں سے پہلی تو یہ کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایوانِ اقتدار سے باہر آنے کے بعد خان صاحب خاصے مقبول ہو گئے ہیں۔ وہ (ن) لیگ جس نے خان کے دور میں 12 ضمنی انتخابات ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ جیتے تھے‘ اب منقار زیر پر ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔قوم ایک شدید قسم کے اضطراب سے گزر رہی ہے۔ مفلسی تنگدستی نے بھنگڑا ڈال رکھا ہے۔ بیماریاں موت کے پروانے لے کر آرہی ہیں۔

’’نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں‘‘

دوسری طرف رانا ثناء اللہ کے پاس اس قدر نفری بھی نہیں ہے کہ وہ لاکھوں یا چلیں 60، 70ہزار افراد کی اسلام آباد آمد کو روک سکیں۔ کیوں کہ چاروں صوبوں سے اُنہیں کسی قسم کا تعاون نہیں مل رہا۔ پہلے تو پنجاب سے بھاری نفری حمزہ شہباز کے کہنے پر آگئی تھی مگر اب پنجاب میں پرویز الٰہی بیٹھے ہیں، اور وزیر داخلہ پنجاب بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ کسی قسم کی نفری وفاق کو نہیں دی جائے گی۔

لہٰذاایسی صورتحال میں کیا حکومت خان کا مطالبہ مان لے گی؟ قرائن سے ایسا لگتا نہیں ہے۔ مارچ ،بالفرض اسلام آباد پہنچ گیا تو پرامن نہیں رہ سکتا۔ کچھ بھی ہو جائے، خان کے حامی زیادہ دیر تک اسلام آباد میں خیمہ زن نہیں رہ سکتے۔

ان کے کسی ایک مخصوص جگہ بیٹھنے سے حکومت کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ مولانا طاہر القادری، فضل الرحمن اور خود خان نے پہلے ایسا کر کے دیکھ لیا ہے۔ اس لیے تشدد ناگزیر ہو جائے گا! اس صورت میں بقول عمران خان کھیل فریقین کے ہاتھ سے نکل بھی سکتا ہے۔

خدشہ یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یا تو عمران خان کا لانگ مارچ کامیاب ہو گا یا بادی النظر میں تیسری قوت کو سامنے آنے کا بھرپور موقع ملے گا۔ ایک واقعہ آپ کی گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ دوسری جنگ عظیم میں حفیظ جالندھری اور ضمیر جعفری فوج کے شعبہ ابلاغ میں بھرتی ہو گئے۔ حفیظ صاحب کو کرنل کا رینک ملا۔ نوجوان جعفری کیپٹن مقرر ہوئے۔

اس دوران ان میں چشمک جاری رہی۔ جنگ کے اختتام پر دونوں کو فارغ کردیا گیا۔ جعفری صاحب کی رگِ ظرافت پھڑکی۔ انھوں نے ایک چٹ جالندھری صاحب کو بھجوائی جس پر لکھا تھا :جرمنی بھی گئی ساتھ جاپانی بھی گئی…تیری کرنیلی بھی گئی …میری کپتانی بھی گئی ۔

بہرکیف فرانس کے معروف ادیب سارتر نے ’’ نو ایگزٹ‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ تحریر کیا تھا۔ جس میں تین افراد ایک پراسرار کمرے میں مقفل ہو جاتے ہیں اور تینوں ایک دوسرے کے حوالے سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے گناہ گار ہیں۔

ہمیں بھی بعد از مارچ کچھ ایسی ہی کیفیت لگ رہی ہے۔ لیکن خدارا سیاستدان تیسری قوت کو آواز دینے سے بہتر ہے کہ آپس میں ’’گرینڈ ڈائیلاگ‘‘ کریں۔ اس ملک کے عوام کی خاطر ایسا لائحہ عمل بنائیں جس سے لانگ ٹرم پالیسیاں جنم لیں۔ کیوں کہ اگر سیاسی ادارہ مضبوط ہوگا تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کسی کو اقتدار کی ہوس بھی تنگ نہیں کرے گی۔

کیوں کہ یہاں اقتدار کی ہوس اور اس کا نشہ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ورنہ ہم نے کئی برطانوی وزرائے اعظم کو معزولی کے بعد 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ سے نکلتے دیکھا ہے۔ ایک ہاتھ میں سوٹ کیس، دوسرے سے بچوں کی اُنگلی تھامے وہ بڑے وقار سے دو سو گز دور کھڑی کھٹارہ سی گاڑی میں بیٹھ کر گوشہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔

کوئی شور و غوغہ، حال، دہائی نہیں ہوتی۔ کسی اضطراری کیفیت کا اظہار نہیں کیا جاتا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ ؟ میرے خلاف سازش ہوئی ہے!‘‘ کا نوحہ بھی نہیں پڑھا جاتا۔بلکہ صاف یہی کہا جاتا ہے کہ یہ سیٹ میرے لائق نہیں تھی اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر تاریخ بھی آپکو اچھے لفظوں میں یاد کر تی ہے۔ ورنہ ہمارے سیکڑوں سیاستدان وحکمران ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں لکھنا تو دور کی بات اُن کا تو نام بھی کوئی نہیں لیتا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔