دامن کو ذرا دیکھ

مقتدا منصور  اتوار 23 مارچ 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے بعض ساتھی بڑا باریک کھیل کھیلتے ہیں۔اصل سوال یہ تھا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کس کھاتے میں ملے ہیں؟اور اس رقم کے ملتے ہی بحرین کے امیر چالیس برس بعد کیوں پاکستان کے دورے پر آگئے؟ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان انکشافات پر بحث کی جاتی جو جناب الطاف حسین نے اپنی مذکورہ تقریر میں کیے۔مگر ہمارے دوستوں نے ہر چینل پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بیان کے اس حصے کو موضوعِ سخن بنایا جس میں انھوں نے فوج سے ایسے کسی حکم کی تعمیل نہ کرنے کا مطالبہ کیا جو فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرنے کا سبب بن سکتا ہو۔اس طرح اصل کہانی کا رخ موڑنے کی دانستہ کوشش کی۔دشنام طرازیاں کرتے ہوئے ہمارے یہ دوست اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ فوج یا سول بیوروکریسی کو غیرآئینی احکامات نہ ماننے کا مشورہ سب سے پہلے خود میاں صاحب نے پنجاب میں گورنر راج نافذ ہونے پردیا تھا۔اس کے بعد سابق وزیر اعظم پرویز اشرف کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت کے دوران بھی سرکاری ملازمین کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ حکومت کے غیر آئینی احکامات کو ماننے سے انکار کردیں۔اس لیے صرف کسی ایک جماعت اور اس کے قائد کو ہدف تنقید بنانا،کون سی صحافتی اخلاقیات ہے؟ اورکون سی جمہوریت نوازی۔ بلکہ ایسی کسی تنقید سے پہلے اپنی آئیڈیل شخصیات کے فرمودات پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے۔

اس تنازع میں الجھے بغیر کہ کس نے کیا کہا اور کیا مشورہ دیا ،ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرنا چاہیں گے کہ گزشتہ 66برسوں کے دوران اس قسم کے پراسرار معاہدے اور ملنے والی ترغیبی رقومات نے کیا گل کھلائے ہیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد بابائے قوم نے امریکاسے2ارب ڈالر امدادکی خواہش کی۔ لیکن اعلیٰ سطح کی سفارتی کوششوں کے بعد بڑی مشکل سے10کروڑ ڈالر مل پائے۔اسی طرح مئی 1950 میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سوویت دعوت نامہ کو نظرانداز کرکے امریکا کے دورے پر گئے۔وہاں ان کی صدر ہنری ٹرومین سے طویل ملاقات ہوئی۔پاکستانی وزیر اعظم نے کوریا کی جنگ اور سرد جنگ میں امریکی موقف کی بھرپور حمایت کی اور کمیونزم کے خلاف جنگ میں حلیف بننے کی خواہش ظاہر کی۔جواب میں امریکا نے پاکستان کو فوجی اور سماجی شعبے میں امداد دی اور جدیدعسکری تربیت کا وعدہ کیا۔ جواباً پاکستان نے امریکامخالفین اورترقی پسندحلقوں پر حلقہ حیات تنگ کرنا شروع کیا۔کمیونسٹ پارٹی، ترقی پسند طلبا تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن(DSF)اور انجمن ترقی پسند مصنفین (PWA) پر پابندی عائد ہوئی۔پاکستان میں امریکا کے ایک سابق سفیر رابرٹ اوکلے نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ ’’ہم نے پاکستان سے جب بھی کوئی کام لیا،اس کا پورا معاوضہ ادا کیا۔ ‘‘

جولائی1956 میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے نہر سوئزکو قومی ملکیت میں لے لیا، جس پر اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے اس پر حملہ کردیا۔ لیکن امریکا جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی مداخلت کا حامی تھا۔ملک فیروزخان نون(جو بعد میں مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم بھی رہے) اس زمانے میں وزیر خارجہ تھے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے جب کراچی سے روانہ ہوئے تو ائیر پورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے’’برادر‘‘ اسلامی ملک مصر کے موقف کی حمایت کی۔ ان دنوں جہاز بیروت اور لندن میں مختصرقیام کے بعد نیویارک جایا کرتے تھے۔بیروت ائیر پورٹ پر انھوں نے کہا کہ اس وقت یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ مصر اور برطانیہ میں سے کس کا اقدام درست ہے۔ اس لیے اس مسئلے پر گفت و شنید کی ضرورت ہے۔لندن ائیر پورٹ پر انھوں نے فرمایا کہ حکومتِ برطانیہ کے موقف میں وزن نظر آتا ہے۔ لیکن جب وہ نیویارک پہنچے، تو انھوں نے کہا کہ پاکستان امریکا کے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور انھیں درست سمجھتاہے۔چنانچہ نہرسوئز پر اقوام متحدہ کی جانب سے فوج کی تعیناتی کا فیصلہ ہوا اور جن ممالک کی فوج کو تعینات کیا جانا تھا، اس کی فہرست جب جمال عبدالناصر کو پیش کی گئی تو انھوں نے سرخ پنسل سے پاکستان کا نام کاٹ دیا۔ وہ جب تک زندہ رہے مصراور پاکستان کے تعلقات میں کبھی گرم جوشی نہیں آسکی۔ملک فیروز خان نون کے مختلف ائیر پورٹس پربیانات اس وقت کی حکومت پاکستان کے فکری رجحانات کو ظاہر کرتے ہیں۔

یکم مئی 1960ء کو سوویت یونین نے اپنی فضائی حدود میں امریکی جاسوسی طیارے U-2کو مارگرایا۔سوویت یونین کے شدید احتجاج پر امریکا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہواکہ اس کا یہ طیارہ پاکستان کے شہر پشاور کے قریب موجود ایک فضائی اڈے بڈابیر سے اڑا تھا۔ عالمی سطح پر ذرایع ابلاغ کے کھوج لگانے پر یہ بات سامنے آئی کہ امریکی صدر آئزن ہاور اور اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم حسین شہید سہروردی مرحوم کے درمیان 1957ء میں ایک خفیہ معاہدے کے تحت یہ اڈا سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے امریکا کودیا گیا تھا۔اسی طرح بلوچستان کی بندرگاہ گوادر سے400کلومیٹرشمال مغرب میں ایران کی سرحد کے قریب شمسی ائیر بیس جو 2008ء میں ڈرون حملوں کے بعد منظرعام پر آئی۔ 1992ء میںاس وقت کی حکومت نے 20برس کی لیز پرایک دوست خلیجی ملک کو دی تھی۔اس کا مقصد یہ تھا کہ سرد موسم میں سائیبریاسے آنے والے پرندوں کے شکار کے لیے اس دوست ملک کے امراء کو باآسانی آمد ورفت مہیا کرنے کے لیے یہ ائیر بیس دی گئی ہے۔ اس معاہدے کو خفیہ رکھا گیا۔

لیکن 9/11کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیاکہ تو یہ ائیر بیس اس دوست ملک نے پاکستان سے پوچھے بغیر امریکاکے حوالے کردی۔اسی ائیر بیس سے کئی برس تک قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے ہوتے رہے۔میڈیا کے دبائو اور لیز کی مدت مکمل ہونے پر یہ ائیر بیس پاکستان کو واپس مل گئی ہے۔چنانچہ2011ء میںشدید عوامی دبائو پر لیز کی مدت میں اضافہ سے گریز کرتے ہوئے اسے واپس لے لیا گیا۔ آج  ایک خلیجی ملک نے پاکستان میں ایک لاکھ ایکڑزرعی زمین لیز پر حاصل کرنے کی خواہش کا اظہارکیا ہے، جس کے عوض و ہ روزانہ7,900بیرل تیل دینے پر آمادہ ہے۔یہ زمین کن مقاصد کے لیے استعمال ہوگی،ابھی تک غیر واضح اور مبہم ہے۔ اب اسی محسن ملک نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم بھی عنایت کی ہے۔ساتھ ہی ایک اور خلیجی ریاست کے امیر کو بھی چالیس برس بعد پاکستان کا دورہ یاد آگیا۔اس پوری صورتحال پر مختلف حلقوں میں چہ مگوئیاںجاری ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خطیر امداد اورساتھ ہی برادر ملک کے امیر کا دورہ کہیں ایک دوسرے برادر اسلامی ملک کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور ایک تیسرے اسلامی ملک میں برسرپیکار شدت پسندوں کی معاونت کرنے کی اجرت تو نہیں ہے؟ جس کی بروقت نشاندہی جناب الطاف حسین نے کی ہے۔

یہاں چند باتیں قابل غور ہیں۔اول، یہ کہ اس قسم کے تمام معاہدے سویلین حکومتوں نے کیے ۔ دوئم،ان معاہدوں کے نتیجے میں پاکستان اور اس کے عوام کو عالمی سطح پر سوائے خفت اٹھانے کے کچھ اور حاصل نہیں ہوسکا۔البتہ اس حکمران اشرافیہ نے اپنے مفادات ضرور حاصل کیے، جو ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ رہی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سبھی سویلین حکمرانوں نے ملک کی سمت تبدیل کرنے،اس کے مقامات غیر ملکیوں کے حوالے کرنے اور شدت پسندی کوپھلنے پھولنے کے مواقعے فراہم کیے۔ آمروں نے سویلین حکمرانوں کے فیصلوں سے فوائد حاصل کیے۔لیکن اس اظہاریے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ آمروں کے اقدامات کو اخلاقی جواز فراہم کرنا  ہے۔بلکہ ان تلخ حقائق کو سامنے لانا ہے،جنھیں عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی ہم سب کے مفاد میں ہے،مگر اشرافیائی نہیں بلکہ شراکتی۔اشرافیائی جمہوریت آمریت ہی کی طرح عوام دشمن ہوتی ہے۔اس موقعے پر ہم اپنے حکمرانوں اور ان کے کاسہ لیس دوستوں سے صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔