دو آدمی

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  اتوار 23 مارچ 2014
03332257239@hotmail.com

[email protected]

ایک آدمی راستے سے گزر رہا تھا۔ وہ دیکھتا ہے کہ دوسرا آدمی درخت پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں کلہاڑی ہے، وہ شخص اسی شاخ کو کاٹ رہا ہے جس پر بیٹھا ہے، زمین پر کھڑا شخص کہتا ہے کہ اس طرح تو تم گر جائو گے۔ اونچائی پر بیٹھا آدمی کہتا ہے کہ جائو جائو، اپنا کام کرو۔ سمجھانے والا چلا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد واپس آتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ درخت پر بیٹھا شخص پائوں پکڑے چلا رہا ہے۔ نصیحت کرنے والا کہتا ہے کہ میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ یہ حرکت کروگے تو گر جائو گے۔ کراہنے والا کہتا ہے کہ تمہیں کیسے اندازہ ہوا کہ میں گر جائوں گا۔ سمجھ دار آدمی نے کہا کہ بندہ خدا! جس شاخ پر بیٹھ کر اسے کاٹو گے تو گرو گے نہیں تو اور کیا ہو گا۔

دو آدمی وہ نہیں جو اوپر کے قصے میں آپ نے دیکھے۔ ہمارے آج کے کالم کے دونوں لوگ سمجھ دار تھے۔ انھوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کو سمجھایا لیکن وہ مانے نہیں۔ ایک مرد کوہستانی تھا تو دوسرا بندہ صحرائی۔ دونوں نے کراچی میں جنم لیا۔ آج دونوں اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ وہ جس علاقے میں رہتے تھے وہاں کے لوگوں نے ان کی قدر نہیں کی۔ اب وہ لوگ رو رہے ہیں جیسے کسی اونچائی سے گر گئے ہوں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہمیں خاک و خون میں کیوں نہلایا جا رہا ہے؟ وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ وہ اس شخص کی طرح پوچھ رہے ہیں کہ ہم درخت سے گر کیوں گئے؟

کالم لمحہ بہ لمحہ اپنے کلائمیکس کی طرف بڑھے گا، آخر میں بدقسمت سمجھے جانے والے دو دانشوروں کی نصیحت کی جانب آئے گا جو انھوں نے اپنے محلے اور علاقے کے لوگوں سے کی تھی۔ بدقسمت وہ قرار پائے جنھوں نے دو درویشوں کی نصیحت قبول نہ کی۔ آج دکھیاری مائیں رو رہی ہیں، بہنیں التجائیں کر رہی ہیں اور اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھ کر بے ہوش ہو جاتی ہیں۔ یہ پاکستان کے کسی بھی صوبے کا منظر ہو سکتا ہے۔ کسی شہر کے کسی بھی علاقے کی کہانی ہو سکتی ہے لیکن ہم آج کراچی کی قدیم بستی لیاری کی بات کر رہے ہیں۔ پہلے ان دو اشعار سے معاملہ کی سنگینی کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر دو آدمیوں کا تذکرہ جنھیں انتخابات میں ٹھکرا دیا گیا، شکست سے دو چار کیا گیا اور ان کی ضمانتیں تک ضبط کروا دی گئیں۔ ان دو اشعار اور دو دانشوروں کی نصیحتوں سے قبل آج کے جمہوری پاکستان کا ہر ووٹر ایک بات یاد رکھ لے جو بھی فطرت کے قانون کی خلاف ورزی کرے گا اسے رونا ہو گا۔ جو علاقہ اور خطہ اچھے لوگوں کو چھوڑ کر برے انسانوں یا نسبتاً کم اچھے لوگوں یا بازی گروں کا ساتھی بنے گا وہ گینگ وار، مورچہ بند فائرنگ، بٹی ہوئی گلیوں اور خوف زدہ مکینوں کا دکھ جھیلے گا۔ قدرت کی مہلت چالیس برس کی ہوتی ہے۔ پہلے دو اشعار اور پھر دو آدمیوں کی بات:

اجڑے رستے، عجیب منظر، ویران گلیاں، بازار بند ہیں

کہاں کی خوشیاں، کہاں کی محفل، شہر تو میرا لہو لہو ہے

وہ روتی مائیں، بے ہوش بہنیں، لپٹ کر لاشوں سے کہہ رہی ہیں۔

اے پیارے بیٹے گئے تھے گھر سے، سفید کرتا تھا، سرخ کیوں ہے۔

پروفیسر علی محمد شاہین کو ہم نے بندہ صحرائی کہا ہے۔ وہ ایک استاد تھے اور صرف لیاری میں ان کے ہزاروں شاگرد تھے۔ راقم کو بھی ایک مرتبہ ان سے ملنے اور مختصر گفتگو کا موقع ملا ہے۔ دیانت، امانت اور کردار کی تصویر پروفیسر شاہین نے بڑے مان سے اپنے لیاری سے انتخابات میں حصہ لیا، انھیں امید تھی کہ ان کے ہزاروں شاگرد اور پھر ان طالب علموں کے اہل خانہ اگر چند سو بھی میدان عمل میں نکل کر اپنے استاد کے لیے ووٹ مانگیں گے تو ان کی کامیابی یقینی ہے۔ وہ اسمبلی میں جا کر شہر کی سب سے قدیم اور پسماندہ بستی کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ بشمول نذیر لغاری کے ہزاروں شاگردوں کے استاد کو کتنے ووٹ ملے؟ صرف ڈھائی سو۔ یہ ہے سبب ہمارے رونے کا۔ چھوٹے بچے، معصوم بیٹیاں، جوان بیٹے، مائیں، بہنیں، محنت کش پوچھتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ جو لوگ بیس پچیس برس کے ہیں انھیں اپنے والد، چچا اور ماموں سے یہ سوال پوچھنا چاہیے۔ جو لوگ پندرہ سترہ سال کے ہیں وہ اپنے دادا اور نانا سے یہ دریافت کریں۔ وہ پوچھیں کہ جب ہمارے اپنے علاقے میں پیدا ہونے والے اور یہیں پلنے بڑھنے والے ایماندار، قابل اور پڑھے لکھے لوگ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو آپ نے انھیں کیوں ٹھکرایا؟ کیوں اچھے لوگوں کو عبرت کا نشانہ بنایا؟ کیونکر انھیں باعزت تعداد میں ووٹ بھی نہ دیے۔ جب ہم نے ان کی ضمانت ضبط کروا دی تو اب ہماری جان و مال اور عزت و آبرو کی ضمانت کون دے گا۔

دوسرے آدمی پر گفتگو سے پہلے جان لینا چاہیے کہ لیاری نے باکسنگ اور فٹ بال کے علاوہ بھی کئی سپوت پیدا کیے ہیں۔ روشن علی شاہ اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کے علاوہ بھی کئی جواہر قابل کو جنم دیا ہے۔ صحافت کی دنیا میں روزنامہ ’’حریت‘‘ کے رپورٹر جناب اسرار عارفی اور روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کے نادر شاہ عادل۔ قانون کے شعبوں میں ضیا اعوان اور رئیس ابراہیم ایڈووکیٹ۔ سوچیں کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے علاقے سے انتخاب میں حصہ لیتا تو اہل علاقہ انھیں اسمبلیوں میں بھیجتے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ انھیں اسی طرح مسترد کر دیا جاتا جس طرح ہمارے کالم کے دوسرے ہیرو کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

عبدالستار افغانی وہ مرد کوہستانی تھے جو لیاری میں پیدا ہوئے، ستر کے انتخابات میں انھیں کامیابی کے قابل نہ سمجھا گیا۔ ضیا دور میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں لیبر کی نشست پر کامیاب ہوئے اور یوں لیاری کا ایک محنت کش کراچی کا میئر بنا۔ چار سال بعد جب 83ء میں انتخابات ہوئے تب بھی وہ لیاری کے عوام کو زحمت دیے بغیر بلدیاتی ایوان میں پہنچے اور دوسری مرتبہ میئر کراچی بنے۔ ساڑھے سات سال رئیس بلدیہ رہنے اور اربوں روپوں کے بجٹ پر اختیار کے باوجود غریب کے غریب رہے۔ لیاری سے کونسلر نہ جتوا سکنے و الی جماعت اسلامی نے انھیں 2002ء کے انتخابات میں برنس روڈ، کلفٹن والی نشست سے قومی اسمبلی میں بھیجا۔ تیرہ برسوں تک اقتدار کی غلام گردشوں میں رہنے والے کا جنازہ لیاری کے تین کمروں کے فلیٹ سے اٹھایا گیا۔

شاہین جیسے بندہ صحرائی اور افغانی جیسے مرد کوہستانی کو ٹھکرانے کی تاریخ چالیس برس سے زیادہ ہو چکی ہے۔ چار عشروں میں ایک نسل بدل جاتی ہے۔ جانے والے جا چکے ہیں لیکن انھیں ٹھکرائے جانے کا قرض لیاری پر واجب الادا ہے۔ یہ کہانی صرف لیاری کی نہیں بلکہ ہر علاقے کی ہے۔ معاملہ صرف وقت کا ہے۔ قدیم بستی کے باشندوں کی پسند و نا پسند کی مدت چالیس سال کی حد پار کرچکی ہے۔ خوف ہے کہ آنے والے پانچ دس برسوں میں شہر کراچی و ملک کے دیگر علاقے ایسے عذاب کی لپیٹ میں نہ آجائیں۔ گلی گلی مورچے اور بھتوں کے لیے علاقوں پر قبضے کی جنگ۔ آج ہم نے لیاری پر گفتگو کی ہے جنھوں نے اپنے دو آدمیوں کو ٹھکرایا تھا۔ ہر حلقے کے لوگ دیکھیں کہ آپ کے علاقے میں کون ایماندار اور دانشور تھا جس کی آپ نے ضمانت ضبط کروائی تھی۔ معافی اور پھر تلافی اس عذاب کو ٹالنے کا نسخہ ہے لیاری کے نو نہال، ہونہار اور نوجوان غور کریں گے کہ ان کے بڑوں نے کن کن کو مسترد کیا تھا؟ کیا شریف، قابل، پڑھے لکھے، ایماندار اور دیانت دار نہ تھے وہ دو آدمی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔