متاثرین سیلاب: آنکھوں دیکھا حال !

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 14 اکتوبر 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

جن دنوں پاکستان میں سیلاب آیا، اُن دنوں میں امریکا میںتھا، یہاں کے سیلاب مناظر سے سوشل میڈیا تو ویسے ہی بھرا پڑا تھا لیکن وہاں کے مین اسٹریم میڈیا پربھی سیلاب کی دل دہلا دینے والی فوٹیج دکھائی جا رہی تھیں، وہاں موجود پاکستانی کمیونٹی، دوست احباب اور کاروباری شخصیات سبھی سوگوار تھے، ہر طرف دکھ اور درد کی فضاء تھی، سیکڑوں جانیں، مال، مویشی، کچے پکے مکان، مضبوط عمارتیں، سب کچھ زمین بوس ہو رہا تھا۔

خبریں آرہی تھیں کہ وطن عزیز کا آدھے سے زیادہ حصہ پانی میں ڈوب چکا ہے۔ حکومت اپنے بچاؤ میں اور اپوزیشن حکومت پر چڑھائی میں مصروف تھی۔ ہاں البتہ کچھ علاقوں سے خبریں آرہی تھی کہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنرز نے اپنے علاقوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی مثالیں قائم کی ہیں۔

لوگ اپنے تئیں جہاں تک ہو سکا ڈوبتے عوام کو بچا رہے تھے، کچھ سماجی تنظیموں نے بھی بہت اچھے کام کیے اور ریلیف مشن کا حصہ رہے۔ دیراست درست است کے مترادف ہمیں بھی احساس ہوا کہ ہم بھی اس ’’فلڈ ریلیف مہم‘‘ کا حصہ بنیں۔ اسی دوران ہم نے ایک مربوط اور جامع حکمت عملی کے تحت اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کا فیصلہ کیا۔

لہٰذاراقم نے فیملی، دوست احباب اور جاننے والے سبھی لوگوں سے رابطہ کیا اور معقول رقم کا انتظام کیا۔ پاکستان واپس آیا ، ہمارے چند ساتھی میدانِ عمل میں اترنے کے لیے تیار تھے،ان کی ہمت بڑھانے کے لیے ہمیں بھی گھر سے نکلنا تھا اور یوں میں نے بھی ان کے ہمراہ ان علاقوں میں پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے سوات جانے کا پروگرام بنایا گیا، مگر ڈپٹی کمشنر سوات نے کہا کہ کے پی کے حکومت ان متاثرین کی بحالی کے لیے خاصا کام کر رہی ہے اور ہمارے پاس امداد وافر مقدار میں پہنچ چکی ہے، جب کہ اس کے علاوہ سوات موٹروے بھی زیر تعمیر ہے تو آپ ادھر نہ آئیں۔

اس کے بعد جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کا انتخاب ہوا ، وہاں موجود کمشنر ڈیرہ غازی خان لیاقت علی چٹھہ سے بات ہوئی، وہ بڑے آدمی اور دبنگ قسم کے بیوروکریٹ ہیں، پرانے یار بھی ہیں ۔ لہٰذاانھوں نے بہترگائیڈ کیا کہ تونسہ (جہاں زیادہ تباہی ہوئی تھی) جانا مناسب نہیں ہے، کیوں کہ وہاں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا اس لیے آپ ڈیرہ غازی خان اپنا سامان لے کر آجائیں تو یہاں سے آپ کے ساتھ اسٹاف روانہ کر دوں گا۔

اب ڈیرہ غازی خان کی سیلابی صورتحال سے آگاہ کرتا چلوں کہ وہاں پر اگست کے وسط تک سیلاب آچکا تھا جب کہ اگست کے آخر تک 5لاکھ سے زائد افراد کھلے مقامات پر بیٹھے تھے۔ ہم امدادی سامان کے ساتھ ڈیرہ غازی خان پہنچے جہاں اسسٹنٹ کمشنر صد ر ڈی جی خان شکیب سرور موجود تھے۔ پھر کمشنر ڈی جی خان لیاقت علی چٹھہ اور ڈی سی انور بریار بھی شامل ہوگئے، ہمارا چونکہ مقصد تھا کہ فوری طور پر امدادی سامان ضرورت مندوں کو پہنچائیں اس لیے ہم اُن کی دی ہوئی ٹیم کے ساتھ فوری ڈی جی خان کے نواحی قصبوں کی طرف چل پڑے۔

جیسے جیسے ہم ڈی جی خان شہر سے نکلتے گئے، تباہی کے مناظر ہمارے منتظر تھے، کمشنر صاحب کی ٹیم نے ہمیں بتایا کہ ڈی جی خان کے گردونواح میں 50سے زائد چھوٹی بڑی بستیاں، گاؤں سب ملیا میٹ ہو چکے ہیں جب کہ جن لوگوں کی حالت ہم نے دیکھی، یقین مانیں ایک دفعہ تو انھیں دیکھ کر دل بیٹھ جاتا تھا۔لوگوں امداد ملنے کی خوشی تو ہوہی رہی تھی مگر اصل خوشی انھیں اس وقت ملتی جب ہم ان کو گلے لگاتے ۔ ان کو یہ احساس دیتے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں اکیلے نہیں بلکہ پورا پاکستان ان کے ساتھ ہے۔

پھر وہاں ہم نے جب بچوں کو دیکھا وہ انتہائی کمزور اور لاغر تھے۔ پہلے سے ہی کم خوراک کی وجہ سے بیماریوں کا شکاراوپر سے سیلاب سے تباہی۔ پھر وہاں کی عورتیں ہم نے دیکھیں ان کی عجیب صورتحال تھی۔ پھٹے کپڑے، ٹوٹے جوتے، کمزور اور بدحال۔ بلکہ اُن کی تو طاقت ہی جواب دے چکی تھی۔

وہاں ہماری لاہور کی ٹیم کے اہم رکن اور سینئر صحافی طاہر انور اورخرم پاشا نے وہاں موجود افراد سے گفتگو بھی کی ۔ ان کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کی اور راشن بھی پیش کیا ۔ اس راشن سے شاید ان کے چند دن گزر جاتے مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کا دیرپا حل نکالنے کے لیے حکومتی اعلیٰ سطح پر جو اقدام اُٹھائے جانے چاہیے تھے وہ ابھی تک نہیں اُٹھائے جاسکے تھے۔

آپ یقین کریں کہ بھوک نے انھیں چند ہی روز میں لاغر کردیا لیکن ان کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ اُن کے مستقل روز گار کا کیا بنے گا؟ کیوں کہ اُن کے پاس نہ تو مویشی تھے، نہ فصلیں تھیں اور نہ ہی گھر کا سامان بچا تھا۔ اور اوپر سے کوہِ سلیمان کی یخ بستہ ہواؤں کی شدت کا آپ کو شاید اندازہ ہی نہیں۔ ایک شخص تو ہم سے بات کرتا ہوا رو پڑا کہ ’’ہمارے پاس تو اب چند روپے بھی نہیں کہ ہم گھروں کی تعمیر کر سکیں۔ ہم اپنی معصوم بچیوں کو لے کر کہاں جائیں گے۔ کس چھت تلے پناہ لیں گے۔ وزیر‘ مشیر‘ افسر‘ بینک‘ ساہو کار‘ سردار‘ وڈیرہ، ہمیں تو یہ بھی خبر نہیں وہ کہاں رہتے ہیں‘‘۔ جب انھوں نے یہ کہا تو کلیجہ منہ کو آنے لگا۔

بہرحال ہم نے 70فیصد کے قریب سامان تقسیم کردیا تو اُس کے بعد ایک عجیب سے صورتحال پیدا ہوئی، ویسے تو کمشنر لیاقت علی چٹھہ، ڈی سی انور بریار اور اے سی شکیب نے جس ایریا میں امداد تقسیم کرنے کے انتظامات کر رکھے تھے وہ بہترین تھے مگر عوام تھی کہ کسی بھی طرح منظم رہنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ وہاں پر موجود حقیقی متاثرین کا خیال تھا کہ آدھی سے زیادہ امداد تو ہم تک پہنچتی نہیں بلکہ دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگ لے جاتے ہیں۔

ہم نے اپنے تعیں اس حقیقت کو جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس وقت ملتان اور گردو نواح کے تمام بھکاری ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور ان جیسے علاقوں میں جا چکے ہیں تاکہ راشن وغیرہ اکٹھا کیا جاسکے۔ اور پھر ہمارے ٹرک کی طرف بھی ایسے ہی پروفیشنل بھکاری آن لپکے۔ جس کی وجہ سے امداد تقسیم کرنے کا عمل ہمیں روکنا پڑا۔ اور چونکہ ہم نے واپسی کا سفر بھی کرنا تھا اس لیے مناسب یہی سمجھا کہ بقیہ سامان وہاں پر موجود الخدمت فاؤنڈیشن کو دے دیا تاکہ وہ اسے حقیقی مستحقین تک پہنچادیں۔

اس پورے سفر کی روداد سنانے کا مقصد صرف ایک ہے، جو راقم پہلے دن سے کہتا رہا ہے کہ اگر کہیں آفت آئے تو سب سے پہلے اُس کا ڈیٹا بیس مرتب کیا جائے، پھر سرکاری کے پاس ہر قسم کاریکارڈ موجود ہو۔ اور ایک ویب سائیٹ بنائی جائے جہاں متاثرہ افراد کی بحالی کے بارے میں عوام کو آگہی مل سکے۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہ تھا۔ بقول شاعر

گلشن تو ہمارا اُجڑ رہا ہے کسی کو کیا فکر!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔