پلڑا

ایم جے گوہر  جمعـء 14 اکتوبر 2022
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

جب حضرت سلیمانؑ کی بادشاہت کا ڈنکا بج رہا تھا تو سب پرندے اطاعت میں حاضر ہوئے، جب انھوں نے حضرت سلیمانؑ کو اپنا محرم راز اور زبان دان پایا تو ہر گروہ دل و جان سے ان کے دربار میں حاضر ہو گیا۔ سب پرندوں نے اپنی چوں چوں کرنی چھوڑ دی اور حضرت سلیمانؑ کی محبت میں بنی آدم سے زیادہ فصیح بولنے لگے۔

دربار میں سب پرندے اپنی اپنی حکمت و دانائی بیان کرتے تھے ، مگر یہ خودستائی کچھ شیخی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اپنی خلقت کا اظہار تھا، ہوتے ہوتے ہُد ہُد کی باری آئی تو اس نے کہا ’’ اے بادشاہ! ایک ہنر جو سب سے ادنیٰ ہے، عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مختصر بات ہی مفید ہوتی ہے۔‘‘ حضرت سلیمانؑ نے ہُد ہُد سے پوچھا کہ ’’ وہ کون سا ہنر ہے؟ ‘‘ ہُد ہُد نے جواباً کہا کہ ’’ جب میں بلندی پر اڑتا ہوں تو پانی کو پاتال میں بھی ہو تو، دیکھ لیتا ہوں۔

اس تفصیل کے ساتھ کہ یہ کہاں ہے؟ کس گہرائی میں ہے اور اس کا رنگ کیا ہے، یہ بھی کہ وہ پانی زمین میں سے ابل رہا ہے یا پتھر سے رِس رہا ہے۔ اے سلیمانؑ! آپ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مجھ ایسے واقف کار کو رکھیں۔‘‘ حضرت سیلمانؑ نے کہا کہ ’’ اچھا بے آب و گیاہ اور خطرناک ریگستانوں میں تُو ہمارے ساتھ رہا کر۔ تُو ہماری رہنمائی بھی کرے اور پیش روی بھی تاکہ ہمارے لیے پانی کا کھوج لگاتا رہے۔‘‘

جب کوے نے سنا کہ ہُد ہُدکو یہ منصب عطا ہوگیا ہے تو اسے حسد ہوا اور اس نے حضرت سلیمانؑ سے عرض کیا کہ ’’ہُد ہُد نے بالکل غلط بات کہی اور گستاخی کی ہے۔ یہ خلاف ادب ہے کہ بادشاہ کے حضور ایسا جھوٹا دعویٰ کیا جائے جس کا پورا کرنا ممکن نہ ہو ، اگر ہمیشہ اس کی نظر اتنی تیز ہوتی تو مٹھی بھر خاک میں چھپا ہوا پھندا کیوں نہیں دیکھ سکتا۔

جال میں کیوں پھنستا اور پنجرے میں کیوں کر گرفتار ہوتا۔‘‘ حضرت سلیمانؑ نے کہا ’’ کیوں اے ہُد ہُد! کیا یہ سچ ہے کہ تُو میرے آگے دعویٰ کرتا ہے اور وہ بھی جھوٹا۔‘‘ ہُد ہُد نے کہا ’’خدا کے واسطے اے بادشاہ! مجھ بے نوا فقیر کے خلاف دشمن کی لگائی بجھائی میں مت آئیں، اگر میرا دعویٰ غلط ہے تو یہ سر حاضر ہے، ابھی گردن اڑا دیں۔ رہی موت اور خدا کے حکم سے گرفتاری، اس کا علاج میرے پاس کیا کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔

اگر خدا کی مشیت میری عقل کی روشنی کو نہ بجھائے تو میں اڑتے اڑتے پھندے اور جال کو دیکھ لوں ، لیکن جب حکم الٰہی ہوتا ہے تو عقل سو جاتی ہے، چاند سیاہ ہو جاتا ہے اور آفتاب گہن میں آ جاتا ہے۔ میری عقل اور بینائی میں یہ قوت نہیں کہ وہ خدائی حکم کا مقابلہ کرسکے۔‘‘

حضرت مولانا روم کی مذکورہ حکایت ذہن میں رکھیے اور اس کے تناظر میں وطن عزیز کی گزشتہ سات دہائیوں کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیے تو یہ تلخ حقیقت طشت ازبام ہو جاتی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے عوامی نمایندگی کے دعویدار لوگوں کو غیر مرئی طاقتور قوتیں گھیرے رہتی ہیں اور ان کی ڈوریں اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے اپنی مرضی کے مطابق ادھر سے ادھر اور اُدھر سے اِدھر گھماتی رہتی ہیں۔ درحقیقت یہ حضرت انسان کی خصلت ہے کہ وہ خودنمائی کا خواہاں رہتا ہے۔

اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے چاپلوسی، چرب زبانی اور کاسہ لیسی اس کی فطرت میں شامل ہے۔ اپنی جھوٹی سچی وفاداریوں کی یقین دہانیاں کرانے والے ’’ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ ہر دور میں ’’ دربارِ خاص‘‘ کی زینت بنے رہتے ہیں۔

’’ طاقتور بادشاہ ‘‘ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کبھی ہُد ہُد اور کبھی کوے کی شاطرانہ چالوں سے ’’بادشاہ سلامت‘‘ کی دل جوئی کرتے اور اقتدار کی راہداریوں میں نقب لگاتے ہیں۔ انھیں اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کی مکاری و ریاکاری سے عوام الناس مسائل و مشکلات کی دلدل میں اتر جائیں گے۔ انھیں صرف اپنا مفاد اور اقتدار عزیز ہوتا ہے۔

آپ زیادہ دور نہ جائیے گزشتہ تین چار عشروں کی سیاست ، اقتدار اور اس کے گرد چکر لگاتے کرداروں کو دیکھ لیجیے، بات سمجھ میں آجائے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے آئینی و جمہوری اقتدار کا سورج ڈوبا تو آمریت کے دربار سرکار میں وہ سارے سیاسی چیمپئن سر جھکائے تابع داری کی قطار میں کھڑے تھے جو آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی سر بلندی کے لیے رطب اللسان تھے۔ شومیٔ قسمت دیکھیے کہ زنجیر عدل کے محافظ بھی اس نازک موقع پر کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

آمر وقت نے جب داعی اجل لبیک کہا تو جمہوریت کی فاختہ نے پھر اڑنے کے لیے پر پھیلائے اور دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا دور آیا تو جمہوریت کے یہی دعویدار جمہوری حکومت کے خلاف ہی صف آرا ہوگئے۔

’’ طاقتور بادشاہ ‘‘ کے دربار میں اپنی وفاداریوں کی یقین دہانیاں کراتے اور کاسہ لیسی کرتے رہے۔ نتیجتاً ایک طویل عرصے تک اٹھاون ٹو بی کی قینچی سے جمہوریت کی فاختہ کے پر کترے جاتے رہے یہاں تک کہ ایک اور آمر نے اپنی طاقت کے نشے میں اقتدار کی راہداریوں سے جمہوریت کو بے دخل کرکے اسے جلاوطن کردیا۔ پھر پوری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ ہُد ہُد اور کوے کی مکاریاں اور چال بازیاں رنگ لانے لگیں۔

1977 کی تاریخ دہرائی جانے لگی، عدل و جمہوریت کے محافظوں نے ’’ بادشاہ سلامت‘‘ کے دربار میں اپنی اپنی وفاداریوں کی خدمات پیش کردیں۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ’’ طاقتور بادشاہ ‘‘ نے ’’تبدیلی سرکار‘‘ پر دست شفقت رکھا۔ بنی گالہ سے ریاست مدینہ کا خمیر اٹھا اور کڑے احتساب کے بلند و بانگ نعروں کے ساتھ اسے اقتدار کے ایوان میں بٹھا دیا گیا۔

ساڑھے تین سال کی حوصلہ افزا برداشت کے بعد ’’نئے پاکستان‘‘ کے خالق کو اقتدار سے بے دخل کرکے ’’بادشاہ سلامت‘‘ نے ’’پرانے پاکستان‘‘ کے معماروں پر ایک مرتبہ پھر بھروسہ کرکے انھیں تاج سلطانی کا حق دار بنا دیا۔

آج ریاست مدینہ کا داعی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے اور ’’بادشاہ سلامت‘‘ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے کہ اس کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے اب اس کا ازالہ کیا جائے۔ ادھر صاحبان اقتدار اس کے خلاف مقدمے پر مقدمے بنا کر گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کوے اور ہُد ہُد کی حکایت کے تناظر میں کس کا پلڑا بھاری رہتا ہے اور ’’بادشاہ سلامت‘‘ کس کی بات پر کان دھرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔