یمن میں جنگ اور بڑ ھتا ہوا انسانی المیہ

ڈاکٹر مسرت امین  جمعـء 14 اکتوبر 2022

یمن میں چھ ماہ کی جنگ بندی کے بعد ایک مرتبہ پھر حوثی باغیوں اور سعودی اتحاد کے مابین جھڑپیں دوبارہ شروع ہوگئی ہیں۔ اپریل 2022 میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی ثالثی سے متحارب گروپوں کے درمیان 60 روز کی جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ جنگ بندی معاہدے میں دو مرتبہ توسیع کے بعد مشرقی وسطی میں 7 سال سے جاری اس تنازعے کے سیاسی حل کی امید پیدا ہوئی تھی۔

حوثی باغیوں اور سعودی اتحاد کے درمیان بات چیت کی ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر راکھ اور ملبے کے ڈھیر تلے دبی چنگاریاں بھڑکنے کا خدشہ ہے۔ سات سال سے جاری اس جنگ میں اب تک ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ قریباً 17 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ریڈ کراس اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جاری خانہ جنگی اور غذائی بحران سے قریباً 2.5 کروڑ افراد کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اب تک یمن کی خانہ جنگی میں سب سے زیادہ عورتیں اور بچے براہ راست متاثر ہوئے۔ یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں اب تک 10 ہزار کے قریب بچے ہلاک یا زخمی ہوئے جب کہ چار لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

گزشتہ 6 ماہ کی جنگ بندی کے دوران تشدد اور اموات میں تو واضح کمی دیکھنے میں آئی لیکن اس وقت یمن میں انسانی جانوں کو سب سے بڑا خطرہ متحارب گروپوں کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں سے ہے۔ جنگ کے دوران بہت بڑے پیمانے پر بچھائی گئی بارودی سرنگیں یمن کے شہریوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہیں۔ حوثی باغی اور سعودی حمایت یافتہ گروپ سمیت تمام فریق بارودی سرنگوں کے ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں۔

بارودی سرنگوں کی وجہ سے ایک تو قحط اور غذائی قلت سے دوچار شہریوں کو امداد کی تقسیم میں رکاوٹ ہیں اور یہ خاموش موت شہریوں کے فصلیں کاشت کرنے اور کاٹنے میں بھی بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ صرف 2019 سے لے کر اب یعنی تین سالوں میں بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے 450 سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 100 بچے بھی شامل ہیں۔

بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے صرف تین سال میں 216 بچے اور 48 خواتین سمیت قریبا 560 افراد زخمی ہوکر زندگی بھر کے لیے معذور ہوچکے ہیں۔ یمن کا تنازعہ صرف ایک علاقائی بحران نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے عالمی طاقتوں کی تمام تر توجہ اس وقت روس یوکرین جنگ پر مرکوز ہے۔

روس اور یوکرین میں جاری جنگ سے چونکہ یورپ اور امریکا کو براہ راست خطرہ ہے چونکہ یوکرین یورپ میں گندم اور دیگر غذائی اجناس سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور روس یورپ میں گیس سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک اور اس جنگ کی وجہ سے یورپ میں فوڈ اور انرجی کا بہت بڑا بحران پیدا ہوچکا ہے۔

سعودیہ عرب کی سربراہی میں اوپیک ممالک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے نے بھی امریکا اور یورپی ممالک کی یمن میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششوں میں دلچسپی کو مزید کم کر دیا۔ روس سے یورپ کو گیس کی سپلائی کی بندش اور عالمی مارکیٹ میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بعد امریکا اور سعودیہ عرب کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکا سعودیہ عرب کی یمن میں جنگ بندی معاہدے کی توسیع میں مدد کر رہا ہے جب کہ سعودیہ عرب کی خواہش ہے کہ امریکا یمن کی جنگ میں سعودیہ عرب کا بالکل اسی طرح ساتھ دے جیسے امریکا نے روس کے مقابلے میں براہ راست عسکری اور سفارتی مدد سے یو کرین کا ساتھ دیا۔

امریکا کے سعودیہ عرب سے تیل کی پیداوار میں اضافے کے مطالبے سے انکار کے بعد امریکا پر اپنے اتحادی یورپی ممالک کی طرف سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر مذاکرات کی بحالی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک اور روس کے اتحاد کے بعد یورپ اور امریکا کے پاس توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے ایران سے بہتر آپشن کوئی نہیں۔ بائیڈن انتظامیہ پر ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بحالی اور سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے بہت زیادہ اندرونی دباؤ بھی ہے ، لیکن مشرقی وسطیٰ میں ہونے والی کسی بھی سیاسی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس وقت یمن کی خانہ جنگی ہے۔

روس اور چین یمن میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور سیاسی حل کے لیے کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن روس خود یو کرین کے ساتھ جنگ میں بری طرح الجھا ہوا ہے اور اس جنگ میں چین پوری طرح روس کی حمایت کر رہا ہے۔ سفارتی محاذ پر امریکا اور سعودیہ عرب کے تعلقات میں تلخی اور ایران امریکا جوہری مذاکرات میں ڈیڈ لاک اور تائیوان کے معاملے پر امریکا چین کشیدگی کے تناظر میں روس اور چین کے پاس یمن کے بحران کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا بہترین موقع ہے۔

روس اور یوکرین جنگ میں بھارت کی جانب سے امریکا اور یورپ کی سفارتی اور سیاسی پوزیشن کی واضح حمایت نہ کرنے کے بعد امریکا اور مغربی ممالک نے پاکستان کی واضح حمایت کر کے جنوبی ایشیا میں بھارت کے غیر جانبدار ہونے کی صورت پیدا ہونے والے سفارتی خلا کو پر کیا۔

جرمن وزیر خارجہ کا پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے ساتھ ملاقات میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت ، امریکا کا پاکستان کے ایف 16 پروگرام کے لیے امداد کی بحالی اور پاکستان امریکا کے سفیر کا آزاد کشمیر کا دورہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ مغربی ممالک یو کرین کے معاملے پر بھارتی پوزیشن سے نالاں ہوکر پاکستان کو ترجیح دے رہے ہیں۔

امریکا اور اقوام متحدہ کی مدد سے 6 ماہ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد چین اور روس سعودیہ اور یمن کے حوثی باغیوں کے مابین بطور غیر جانبدار فریق جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار کرسکتے ہیں۔ دونوں ممالک کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ ایک تو چین اور روس اس تنازعے کا حصہ نہیں دوسرا دونوں ممالک کے یمن میں جاری خانہ جنگی کے متحارب گروپس ایران اور سعودیہ کے ساتھ بہترین سفارتی تعلقات ہیں۔

روس اور چین کا کردار نہ صرف اس جنگ کے خاتمے کے لیے بے حد موثر ثابت ہوسکتا ہے بلکہ جنگ بندی کے معاہدے میں توسیع یا کسی بھی سفارتی بریک تھرو کی صورت چین اور روس مشرقی وسطی میں امریکا اور مغربی ممالک کے مقابلے اپنی سفارتکاری کی دھاک بٹھا سکتے ہیں۔یمن میں جاری خانہ جنگی کا کوئی فوری حل تو شاید ممکن نہ ہو لیکن جنگ بندی میں توسیع امن کی بحالی کے لیے پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔

اس تنازعے کا سب سے پائیدار حل عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی یمن کے دونوں میں حصوں میں صاف اور شفاف انتخابات کا قیام اور چناؤ کے بعد عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کو اختیارات کی منتقلی سے لڑائی کا خاتمہ ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔