تیزاب میں نہائے ہوئے انسان

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 14 اکتوبر 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

’’ بڈھا گوریا ‘‘ کہتا ہے ’’ اس بات کا فیصلہ کون کرسکتا ہے کہ سوکھی ہوئی کھوپڑیوں کا منظر زیادہ دہشت ناک ہے یا مرجھائے ہوئے دلوں کا ‘‘ Vincent Van gogh رنگوں سے شاعری کرنے والا اپنی زندگی میں رنگ نہ بھر سکا۔ وہ کہتا تھا میرا خیال ہے لوگوں سے محبت کرنے سے زیادہ سچا آرٹ کوئی نہیں ہے۔

رنگوں سے شاعری سنتا ہوں مجھے کوئی حسین خواب آتا ہے اور پھر میں اس خواب کو پینٹ کر دیتا ہوں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بہت زیادہ چیزوں سے محبت کی جائے، مجھے تاروں بھری رات دن سے زیادہ با رونق اور رنگین نظر آتی ہے۔ اس کے آرٹ کے فن پاروں کی تعداد 2100 ہے جن میں سے 800 سے زائد Oil Painting ہیں کسانوں ، مزدوروں ، کوئلے کی کان میں کام کرنے والے بچوں اور گندم کاٹ کر کھیتوں میں سوئے دیہاتی جوڑوں سے لے کر تاروں بھرے آسمان اور لہروں سے اچھلتے سمندروں کا یہ مصور اتنا مشتاق تھا کہ صرف کسانوں کے جوتوں کو لگی مٹی پینٹ کرنے کے لیے کئی رنگوں کی شیشیاں استعمال کرتا تھا۔

نیدر لینڈ جو کہ اس کا آبائی وطن تھا اس کے دیہاتوں میں پھرتا اور گاؤں کی زندگی میں اپنے رنگ بھرتا لیکن پھر آخر کیا ہوا کہ یہ رنگین آرٹسٹ ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا اور لوگ اسے مجنوں سمجھنے لگے۔ اس کا دماغ اس کی افلاس زدہ زندگی کا کرب نہ سہہ سکا مالی بدحالی اور ذہنی پاگل پن کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے 37 برس کی عمر میں خود کو گولی مار کر ختم کر لیا۔

سورج مکھی کے پھول اور بادام کی کونپلیں پینٹ کرنے والا ریوالور کی گولیوں تک کیسے پہنچا؟ جب وانسٹ وان گو نے زندگی کو حد سے زیادہ شوخ اور رنگین سمجھا تو سوائے رنگوں کو ملانے اور برش چلانے کہ اس نے زندگی کو اور کچھ نہ سمجھا۔ دیہاتی کسانوں کی خوبصورت پینٹنگز بناتا اور نیدر لینڈ کے گاؤں پھرتا۔ لوگوں کے غموں اور مسرتوں کو وہ اپنے رنگوں اور برش سے دیکھتا “Potato Eaters” اس کی بہت مشہور پینٹنگ ہے جس میں اس نے چند کوئلے کی کان میں کام کرنے والے بچوں کی تصاویر بنائی ہیں، جو رات کے کھانے میں ابلے ہوئے آلو کھا رہے ہیں۔

اس کے آرٹ نے اس کو مالی طور پر کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ بد حال ہوگیا۔ اس مفلسی میں کچھ عرصہ اس کا بھائی Theo اس کی مدد کرتا رہا لیکن وانسٹ کی غربت اس کی خودکشی تک ختم نہ ہوئی۔ اس بے کار فن سے اس کو وحشت ہو گئی لیکن وہ پھر بھی مصوری کرتا رہا اس کو جنون کا اثر پڑگیا اور درماندہ زندگی نے اس کے ذہن کو تباہ کر دیا۔

اس کا ایک دوست اس سے اس لیے دور بھاگ گیا کہ ایک بار غصے میں وان گو نے بلیڈ سے اپنا کان کاٹ ڈالا تھا۔ اس نفسیاتی اذیت سے نجات پانے کی خاطر اس نے مذہب میں بھی پناہ ڈھونڈی اور کئی سال عیسائی Protestant فرقے کے پادریوں کے ساتھ مشنری میں بھی رہا لیکن اس کا ذہن پھر بھی نفسیاتی اذیت سے آزاد نہ ہو سکا۔

کچھ عرصہ نفسیاتی اسپتالوں میں رہا وہاں بھی کوئی فائدہ نہ ہوا اور پھر فرانس کے ایک ڈاکٹر سے علاج کرواتا رہا لیکن بے سود۔ آخر پھر اس نے طویل عرصہ دماغی اذیت اور اپنی غربت کے ہاتھوں جگہ جگہ ذلیل ہونے کے بعد خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔

وہ تاروں بھری راتوں میں ڈوب کر خواب دیکھتا تھا اور سورج مکھی کے پھولوں کے کنارے بیٹھ کر دیہاتوں کو اپنے کینوس میں اتارتا تھا لیکن اس کو یہ نہیں پتا تھا کہ یہ دنیا ایک حسین خواب نہیں اور زمانے کی حقیقت سے آنکھیں بند کر کے جینے والے بے یار و مددگار مر جاتے ہیں۔ وان گو نے برش کا استعمال کر کے رنگوں کو ایسے سطحی زاویے دیے جو کہ جدید آرٹ کی بنیاد ہیں۔

آج اس کی پینٹنگز دنیا کے ہر آرٹ میوزیم میں موجود ہیں۔ Amsterdam کے میوزیم میں لگی اس کی سیکڑوں رنگین تصویریں اور پھولوں کے عکس جو دنیا میں مہنگے ترین فن پارے Art Pieces ہیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ زندگی ایک بہت بڑی زندہ حقیقت ہے اور صرف خواب دیکھنے سے نہیں گزرتی۔ اپنی اس روح کو جو تنہا آئی تھی اور تنہا جائے گی۔

اپنے لیے اور دوسروں کے لیے عمل کر کے آسودہ کرنا چاہیے۔ ورنہ جوں جوں عمر گزرتی جائے گی کرب بڑھتا جائے گا وان کو جن رنگوں کے سپنے بنتا رہا اسے معلوم نہ تھا کہ انھی رنگوں میں اس کی موت پنہاں ہے ، اگر قبرستان میں الگ الگ کتبے نہ ہوں تو ہر قبر میں ایک ہی غم سو یا ہوا رہتا ہے۔

محرومیوں، ناانصافیوں کا، غربت و افلاس کا اذیت اور کرب سے گزری عمر کا، تکلیفوں اور درد کا، تم کسی قبر پر فاتحہ پڑھ کے چلے جاؤ۔ کوئی بھی فرق نہیں پڑتا سب سے بڑا دکھ دنیا کا یہ ہے کہ وہ بچے جن کی زندگیاں محرومیوں، غربت و افلاس ، ناانصافیوں میں گزر رہی ہیں، ایک دن ان سب نے بڑے ہو جانا ہے۔

“Hunchback of Nostradamus” فرانس کے عظیم ناول نگار وکٹر ہیو گو کا بہت ہی مشہور ناول ہے خاص کر ایک ایسے انسان کی نفسیات بیان کرنے میں جو دوسرے انسانوں سے حقیر، کم تر اور انتہائی بدصورت ہے۔

اس کا ایک اقتباس ہے ’’اس کی کبھی نہ ختم ہونے والی بیچارگی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ وہ بے حس بن گیا اور اپنی ذات میں وہ واقعی بے حس ہوگیا تھا کیونکہ اس کو اپنی مکروہ جسامت سے وحشت تھی مگر اس کی یہ بے حسی اور وحشت اس کا اپنا کسب نہ تھی بلکہ یہ اسے لوگوں نے دی تھی۔

لوگوں کے درمیان اپنے پہلے قدم سے ہی اس نے ہر طرف ذلت ہی پائی۔ ہر کسی نے اسے حقیر اور ذلیل جانا۔ انسانی الفاظ اس کے لیے طنز اور لعنت کے سوا کچھ اور نہ تھے جن کو سن سن کر وہ اپنی گزشتہ زندگی کے اردگرد نفرت کے پھیلاؤ کے سوا کچھ اور نہ پاتا تھا۔ یہ ظلم سہہ سہہ کر لوگوں کی ساری بے حسی اس میں در آئی تھی گویا اس نے وہ ہی ہتھیار تھام لیا تھا جس سے انھوں نے اسے زخمی کر رکھا تھا اس سب کے بعد وہ لوگوں کے ساتھ بد طینت ہوکر ہی ملا اس کو پناہ دینے کے لیے اس کا گرجا ہی کافی تھا جس میں نیک دل بادشاہوں، پادریوں اور راہبوں کی سنگ مر مر کی بنی مورتیاں اس کا مذاق نہ اڑاتی تھیں کیونکہ وہ بھی ہو بہو ان جیسا ہی تھا۔ آج ہمارا سماج ایک ایسے کارخانے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

جہاں پیدا ہونے والے بچے بڑے ہوکر دھڑا دھڑ ’’ کوسمیدو ‘‘ بن رہے ہیں اور دوسری طرف باصلاحیت اور قابل انسان Vincent یا تو خود کشی کر چکے ہیں یا کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ادھر کارخانے کے مالکان یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں ان کروڑوں انسانوں سے جنھیں وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے وہ انھیں بے بس اور بے حس بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اب ان کی عیاشیوں، لوٹ مار، غبن کے لیے کہیں سے اور کسی سے کوئی خطرہ نہیں ، لیکن اگر وہ اپنے آپ کو، اپنے اہل خانہ، دوستوں اور ساتھیوں کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کریں تو ان کو یہ با آسانی معلوم ہو جائے گا کہ وہ سب دنیا بھر کی بیماریوں، عذابوں میں مبتلا ہو چکے ہیں اور لاتعداد نہ نظر آنے والے دکھ درد ، مسائل اور پریشانیاں تیزی کے ساتھ انھیں دبوچنے کے لیے بڑھ رہی ہیں۔

کیونکہ بد دعائیں انسان کا قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ان سب کے حالات و واقعات دیکھ کر گورکی کی ڈائری میں لکھا بہت یاد آ رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے ’’ماسکو کی عدالت میں اپنی بیوی کے قاتل مولوف نامی طالب علم نے یہ الفاظ کہے۔ وہ مر چکی ہے شاید وہ اس وقت جنت کی مقدس فضا میں سانس لے رہی ہوگی۔

لیکن میری زندگی اس دنیا میں جرم و ندامت کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہے مجھے سرزنش کی ضرورت نہیں جب کہ میں خود اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہوں میں اب بھی پہلے کی طرح خوبصورت سیب کھا سکتا ہوں لیکن اب ان میں میرے لیے وہ پہلی سی مٹھاس باقی نہیں رہی۔ دنیا کی کوئی چیز دلچسپ نظر نہیں آتی ، مجھے اب سزا دینے سے کیا فائدہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔