آبائی گھر

عبد الحمید  ہفتہ 15 اکتوبر 2022
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہم اپنی رُوٹس سے کٹتے اور بکھرتے جا رہے ہیں۔صدیوں سے قائم سماج دم توڑ رہا ہے۔ہم سب کا ایک آبائی گھر ہوتا تھا اور اس سے جڑی ان گنت راحتیں ہمیں اپنی طرف کھینچتی تھیں۔

اب آبائی گھر کا تصور ایک سراب سا ہوتا جا رہا ہے۔اچھی تعلیم،بہتر طبی سہولتوں اور رزق روزگار کے وسیلے گھر سے بے گھر کرتے رہتے ہیں۔اب انسان کسی ایک مقام یا مکان میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتا کہ یہی اب زمانے کا چلن ہے۔ تعلیم کا حصول اوررزق کی تلاش ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتی ہے۔

وہ ٹِک کر ایک جگہ بسیرا نہیں کر سکتا کہ جو بوٹا جڑیں پکڑ جائے وہ اس ایک مقام پر حنوط ہو جاتا ہے۔زمانے کے ساتھ نہیں چل سکتا۔یہ نوحہ ہے یا کہ یادِ ماضی کا ایک ورق۔ ہمارے نوجوان ترقی کی تیز رفتار دوڑ میں گھر سے بے گھر ہی نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی جگہ سے منسلک نہیں ہوتے کہ اس سے جذباتی لگاؤ رکھیں۔البتہ یہ وہ حقیقت ہے جو آہستہ آہستہ آنکھوں سے اوجھل ہو رہی ہے اور ہم یاس بھری نظروں سے اسے غائب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

آبائی گھروں سے متعلق ایک معزز و مکرم بھائی نے خوب صورت اور دل کو چھو لینے والی تحریر بھیجی جو من و عن پیشِ خدمت ہے۔کوشش کے باوجود مصنف معلوم نہیں ہو سکا۔”آبائی گھر ایک سے ہوتے ہیں، ڈیوڑھیوں، دالانوں، مردانے زنان خانے،برآمدوں،کمروں اور رسویوں میںبٹے ہوئے لیکن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے۔ایک وحدت میں پروئے ہوئے۔

آبائی گھروں میں گھِسی ہوئی سُرخ اینٹوں کے فرش اور چونا گچ نم خوردہ دیواریں۔بے تحاشہ بڑھی ہوئی بیلیں،چھتوں پر اُگی ہوئی لمبی گھاس اور املی و املتاس کے درخت ایک دائمی سوگواریت لیے ہوئے۔

ایک ہی جانب خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں۔

آبائی گھروں کے اندر چیزیں بھی ایک سی ہوتی ہیں۔پڑچھتیوں پرپیتل اور تانبے کے برتن،گرد جھاڑنے،قلعی کرنے والے ہاتھوں کا انتظار کرتے ہیں۔ شیشم سے بنا چنیوٹ کا فرنیچر،گجراتی مٹی کی پیالیاں اور چینکیں خالی پڑی رہتی ہیں۔ کھونٹیوں پر لٹکتے ہوئے کپڑے اور برساتیاں اترنے کی منتظر رہتی ہیں اور چہل قدمی کی چھڑیاں اور کھونڈیاں سہارا لینے والے ہاتھوں کو ڈھونڈتی ہیں۔

فریم کیے ہوئے شجرے،بلیک اینڈ وائٹ تصویریں اور طاقوں میں رکھا ہوا قرآنِ مجید اور مقدس کتابیں،ہاں کامریڈی دور کا کارل مارکسی ادب بھی،سب کچھ اپنی جگہ پڑا ہوتا ہے۔

آبائی گھروں کے مکین بھی ایک جیسے ہوتے ہیں،بیرونی دروازوں پر نظریں جمائے،آخری نمبر کا چشمہ لگائے،بینائی سے تقریباً محروم مائیں، اور رعشہ زدہ ہاتھوں والے باپ اور اپنے تئیں کسی عظیم مقصدکے لیے جان دینے والوں کی بیوائیں،جو کبھی الہڑ، پُر جوش اور اور جوان رہی ہوں گی۔

آبائی گھروں میں لوگ نہیں ساعتیں اور صدیاں بیمار ہوتی ہیں،زمانے کھانستے ہیں۔آبائی گھر لوٹ آنے کے وعدوں پر،باوفا دیہاتی محبوبہ کی طرح سدا اعتبار کرتے ہیں اور کبھی واپس نہ آنے والوں کے لیے دل اور دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ شاعروں کے لیے آبائی گلیوں کی دوپہروں اور پچھواڑے کے باغوں سے بڑا رومانس اور کیا ہو سکتا ہے،جہاں جگنو ٹمٹماتے ہیں،تتلیاں پروں کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتیں اور پھولوں اور پتوں پر کریش لینڈنگ کرتی ہیں۔

جہاںدھوپ اور بارش کے بغیر قوسِ قزح جیسی ہنسی بکھرتی ہے اور نسائم جیسی لڑکیاں سات رنگوں کی گنتی بھول جاتی ہیں۔آبائی گھروں میں وقت بوڑھا نہیں ہوتا،دراصل ہم بچے نہیں رہتے اور کھلونوں کے بجائے اصلی کاریں چلانے لگتے ہیں اور کبھی کبھی اصلی ہتھیار بھی۔آبائی گھروں کو جانے والے راستے بھی ایک جیسے ہوتے ہیں،سنسان اور گرد آلود، مسافروں سے تہی،جن پر بگولے اُڑتے ہیں یا میت اُٹھائے کبھی کبھی کوئی ایمبولنس گزرتی ہے۔پھلائی اور کیکروں سے ڈھکے آبائی قبرستان بہت تھوڑی دیر کے لیے آباد ہوتے ہیں اور پھر دعاؤں اور باتوں کی بھن بھناہٹ میں منظر تتر بتر ہوجاتے ہیں،یہاں تک کہ موسم سے اکتائے ہوئے بادل بھی کسی پہاڑی قصبے کی طرف چلے جاتے ہیں۔

آبائی راستوں کے دکھ نظمائے نہیں جاسکتے،انھیں یاد کرتے ہوئے رویا بھی نہیں جا سکتا،یہ کسی،صرف کسی اپنے جیسے کے ساتھ شیئر کیے جا سکتے ہیں۔عمریں گزر جاتی ہیں، شہروں میں اور ملکوں میں لکڑی کے صندوق اور پیٹیاں ہماری جان نہیں چھوڑتیں،گھروں میں کوئی جگہ نہ ہو تو،دلوں اور ذہنوں کے کباڑخانوں میں رکھی رہتی ہیں، کبھی نہ کھلنے کے لیے،اور پھر ایک دن ہم خود بند ہو جاتے ہیں،زمین پر آخری دن آنے سے پہلے،ہمارے دن پورے ہو جاتے ہیں۔‘‘ہر ایک کی طرح راقم کا بھی ایک آبائی گھر تھا۔

اس آبائی گھر کے آنگن میں اترتی روپہلی چاندنی،بہار کے موسم میں پھُلائی کے پھولوں کی دھیمی دھیمی مہک اور حدِ نظر تک پھیلے پیلی سرسوں کے لہلہاتے کھیت،چاند کی دودھیا روشنی میں نہائی ندی کنارے سفید ریت، سارے ماحول کو جادوئی سحر عطا کرتے تھے۔نسل در نسل ہمارے آباؤ اجداد کی کتنی ہی نسلیں اس گھر میں اپنی زندگی کے مہ و سال بسر کر کے چلی گئیں۔

اس گھرکے آنگن میں نہ جانے کتنی ڈولیاں اتریں اور کتنے جنازے اُٹھے۔ آبادی سے چند قدم دور قبرستان تھا۔قبرستان میں جب بھی کسی مہہ جبیں کو کسی ٹوٹی قبر پر بال بکھرائے سسکیاں بھرتے دیکھا تو خیال ہوا کہ کیا موت اتنی حسین بھی ہو سکتی ہے۔پھر زمانے نے پلٹا کھایا اور امی ابو کو ہم بھائیوں کی تعلیم کی فکر نے اس گھر،اس گلی محلے اور قریہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور وہ اپنا سب کچھ سمیٹ کر شہروں کے شہر لاہور کی پناہ میں آ گئے۔

لاہور جس کی مہک ابھی تک ہمارے رگ و پے میں سمائی ہوئی ہے۔ صدیوں پرانی تہذیب میں گُندھا ،داتا کی نگری، لاہور۔ لاہور میں قیام کے دوران آبائی گھر کے آنگن سے یکے بعد دیگرے کئی ایک نے مہلتِ عمل مکمل ہونے پرعدم کی راہ لی لیکن والدین کی حیات کے دوران وہ آبائی گھر کبھی تھوڑے اور کبھی لمبے عرصے کے لیے آباد ہو جاتا تھا۔والدین کے رخصت ہونے کے ساتھ ہی پچھلی تمام نسلوں کے شائبے بھی رخصت ہو گئے۔

وہ گھر اب آبائی گھر نہیں رہا جہاں پر بے شمار راحتیں اور محبتیں ہمیشہ ہماری راہ تکتی تھیں کیونکہ نئی نسل اس گھر کو اپنا گھر نہیں سمجھتی اور نہ ہی وہ اب ان کا مستقل پتہ ہے۔وہاں اب ایک آدمی مکان کی رکھوالی کے لیے رہتا ہے۔ وہ گھر شاید اب اُس کا ہے۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس برق رفتار دور میں حرکت میں برکت و الا محاورہ بہت زیادہ   اہمیت کا حامل لگتا ہے اور ترقی و خوشحالی کے ساتھ جدید عجائبات و مشاہدات سے بہرہ ور ہونے کے حیران کُن مواقع بھی یہ دنیا ’’ایک تماشا ہے میرے آگے‘‘ کے مصداق آگے بڑھنے کی لگن کے غماز ہیں جو ماضی کے جمود سے متصادم ہیں اور دعوتِ عمل دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔